وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگلے مالی سال میں ایک ہزار ارب کے ترقیاتی پروگرام میں بلوچستان کا حصہ 25 فی صد یعنی 250 ارب روپے ہوگا، دہشت گرد خون کے پیاسے ہیں اور پاکستان کی ترقی نہیں چاہتے، بلوچستان کے جو لوگ بھٹک کر پٹڑی سے اترگئے ہیں، انھیں واپس لانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے کوئٹہ میں بلوچستان گرینڈ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف نے صائب خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صوبے میں دہشت گردی کے خاتمے اور مسائل کے حل کی جانب حکومتی سطح پر پرخلوص اقدامات کی یقین دہانی کراتے ہوئے بلوچستان کی ترقی کے لیے اضافی فنڈز مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایسے وقت میں جب بھارت کو دس مئی کے دن شکست فاش ہوئی ہے، اس کا بدلہ لینے کی غرض سے اس نے بلوچستان میں اپنی پراکسیز کے ذریعے دہشت گردانہ کارروائیاں دوبارہ شروع کردی ہیں، ایسے میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف کا ایک ساتھ بلوچستان میں موجود ہونا بھارت کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے لیے بلوچستان کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ اور دشمن اس علاقے سے کون سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود دیے ہیں، اخبارات کی فائلیں دیکھیں، بھارتی شدت پسند رہنماؤں کے بیان پڑھیں اور تو اور نریندر مودی کی تقاریر پڑھیں تو وہ بالکل واضح طور پر بلوچستان کا ذکرکرتے ہوئے ملتے ہیں۔
پاکستان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ بھارت اور افغانستان پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ بلوچستان میں طالبان بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں، لیکن بد قسمتی سے افغانستان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تعاون سامنے نہیں آیا ہے اور یہ دہشت گرد مختلف ناموں اور تنظیموں کے آلہ کار بن کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں اور خطے کے امن کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
کلبھوشن کا پکڑے جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت ملوث ہے۔ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ بھارتی چینلز پر بیٹھے ان کے اینکرز اور دفاعی تجزیہ نگار علانیہ پاکستان کی سالمیت کے بارے میں ہذیان بک رہے ۔ بلوچستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اس کے تانے بانے براہِ راست نئی دہلی سے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان نے بلوچستان میں تمام دہشت گرد تنظیموں کو فتنہ الہندوستان کا نام دے دیا ہے،کیونکہ بھارت ہمیشہ سے بلوچستان میں علیحدگی پسند، عسکریت پسند تنظیموں کو مالی اور اسلحے کی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بھوٹان، سری لنکا، چین اور پاکستان میں بھارتی دراندازی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل اور دوست ممالک کے ساتھ دھوکا دہی کے بے شمار واقعات عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بھارت کا کردار بے نقاب کیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔
1971کی جنگ میں بھارتی پروردہ دہشت گرد اور عسکری تنظیم مکتی باہنی کی معاونت سے پاکستان کو دولخت کیا گیا جس کے بعد بھارت باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔ اس نے آبی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کوکبھی سیلاب میں ڈبونے اورکبھی بھوکا پیاسا مارنے کی سازشیں کیں اور پھر باقاعدہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا گیا۔ملک دشمن اور ان کے سہولت کار دہشت گردوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کرتے ہیں۔
دشمن کو پہچاننا بھی مشکل ہے، اس کی وضع قطع، حلیہ و حال، زبان و بیان ہم سے مختلف نہیں۔ مزید مشکل یہ ہے کہ دشمن کو اندر سے سہولت کار بھی میسر ہیں۔ جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں، ان کی نگہداشت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں میں بارود بھرتی ہیں، یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہے۔اس لیے ان فکری کمانڈروں، سہولت کاروں اور نرسریوں کا بندوبست بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، جس جوش وخروش سے یہ جنگجو اورکلچر بنایا گیا تھا، اسی جذبے سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔
گو کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مسلسل آپریشن بھی کرنے پڑتے ہیں لیکن دہشت گردی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف آپریشن کرنے سے حل ہو جائے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اس کا حقیقت پسندانہ اور علمی تجزیہ کرنا ضروری ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ملکی ادارے ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور اب ان تنظیموں کا رخ کس طرف ہے؟ اس کے علاوہ اب اس معاملے کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اب صرف ایک یا دو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور نہ ہی ان سے معاہدے کرنے سے امن قائم ہو سکتا ہے۔
دہشت گردوں کی بیسیوں تنظیمیں ہیں اور وہ آپس میں اتحاد بناتی بھی ہیں اور ضرورت پڑنے پر اتحاد ختم بھی کردیتی ہیں۔ ان تنظیموں کے درمیان سرحدیں واضح نہیں ہیں، اگر حکومت ایک تنظیم سے معاہدہ یا مفاہمت کرے گی تو اس کے کئی دہشت گرد دوسری تنظیم کا رخ کر لیں گے اور مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ ہر شخص اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں وہ جانے انجانے میں سوشل میڈیا کے ذریعے وطن دشمنوں کو سپورٹ نہ کر بیٹھے کیونکہ آج کل دشمن پاکستان کے خلاف ’’میڈیا وار‘‘ میں بہت آگے جاچکا ہے اور بالخصوص سوشل میڈیا کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجا رہا ہے۔ ہمیں دشمن کی اس سازش، چالاکی اور ہوشیاری کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان صوبے میں ایک گوریلا وار جاری ہے۔ ایسی لڑائی کا نفسیاتی اور ابلاغی بیانیہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے بغیرگوریلا وار جاری نہیں رہ سکتی۔ اس بیانیے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کو الجھا دیا جائے اور قتل و غارت کے ہنگام میں اسے یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہوکہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ ریاست کو اس دہشت گردی کو اس کے سہولت کار بیانیے سمیت ادھیڑنا ہوگا۔ بلوچستان میں جاری شورش کا بیانیہ کیا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنے وسائل کے باوجود غریب رہ گئے اور وفاق نے ہمیں ہمارا حق نہیں دیا اور ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا۔ اب ہم نے اپنا حق لینا ہے۔
معاشی محرومیاں ایک حقیقت ہیں اور طرزِ حکومت کے مسائل بھی ہیں، تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ محرومیاں اس شورش اور دہشت گردی کی وجہ نہیں، یہ وجوہات نہیں، یہ محض بہانے ہیں۔ ایک اور معاملہ لاپتہ افراد (مسنگ پرسنز) کا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ معاملہ ہے اور اسے حل ہونا چاہیے لیکن یہ بھی کسی دہشت گردی کا جواز نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لاپتہ افراد کی وجہ سے شورش اور دہشت گردی پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ شورش اور دہشت گردی ہے، جس نے لاپتہ افراد کے بحران کو جنم دیا۔ وفاق کی ایک اکائی کے طور پر اپنا حق مانگنا جائز عمل ہے، لیکن کچھ عناصر اگر وفاق کے وجود پر ہی حملہ آور ہوجاتے ہیں تو یہ پھر حقوق کا معاملہ نہیں رہتا، یہ ریاست کے خلاف جنگ ہے۔
بلوچستان میں گوادر جیسے وفاق کے کسی معاشی منصوبے میں بلوچستان کے جائز حقوق کے حصول کا مطالبہ بالکل بجا ہے لیکن یہ کہنا کہ بلوچستان میں وفاق کو آنے کا کوئی حق ہی نہیں، بالکل غلط بات ہے۔ صوبے میں اور ایک متوازی ریاست میں بہرحال فرق ہوتا ہے۔ وفاق اپنے صوبوں میں معاشی منصوبے بھی لاتا ہے اور ان منصوبوں کے لیے افرادی قوت بھی ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جاتی ہے۔
صوبائی حقوق کے نام پرکوئی صوبہ اس عمل کو نہیں روک سکتا۔ وفاق کے اندرکسی ایک یونٹ کو کتنے ہی شکوے شکایات ہوں، ان کا حل سیاست، مفاہمت اور مکالمے سے نکل سکتا ہے، دہشت گردی سے نہیں۔بلوچستان اس وقت بین الاقوامی مفادات کا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔ یہ جنگ ہمہ جہت ہے۔ اس سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی ہمہ جہت ہوگی تو کارگر رہے گی۔