دنیا میں ایسا کون ہوگا جس نے اس آوازکو سنا نہ ہو اوراس کاگرویدہ نہ ہوا ہو شاید اسی آواز کے لیے کسی نے کہا ہے کہ ؎
اس غیرت ناہید کی ہر تان کی دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
بلکہ یہ کچھ کم ہے یہ آواز صرف شعلہ ہی نہیں شبنم بھی ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستانی اخبارات میں کچھ ایسی خبریں چلی تھیں کہ لتامنگیشکر نمبرون نہیں ہے بلکہ اس کی بہن آشا بھوسلے نے اس سے زیادہ گانے گائے ہیں ۔ لیکن پھر جب خود آشابھوسلے نے کہاکہ نمبرون میں نہیں لتا ہے وہ مجھ سے بڑی گائیکہ ہے تو بات ختم ہوگئی ۔
مذہب ،نسل ،قوم وغیرہ اپنی جگہ لیکن کسی کی صلاحیت کا اعتراف نہ کرنا بھی کوئی اچھی بات نہیں، کیوں کہ صلاحیتیں بھی وہی دیتا ہے جو سب کچھ دیتا ہے، دنیا میں ایسے ایسے لوگ گزرے ہیں جو مسلمان نہیں تھے لیکن اس رب جلیل نے انھیں کسی نہ کسی صفت سے نوازا تھا ، یونان کے فلاسفر حکیم اوراس کے بعد بہت سارے ۔ جو اس دنیا کو بہت کچھ دے گئے اس سوال کاجواب کسی کے پاس بھی نہیں کہ وہ سب سے بڑا ’’دینے والا‘‘ کسی کوکیاکیاکیوں دیتا ہے ؟ اس کی مرضی سب کچھ اسی کاہے ۔جسے چاہے نوازدے اورپھر وہ مواقع بھی وہی دیتا ہے کہ جن کی وجہ سے کوئی ابھر کر عزیز جہاں ہوجاتا ہے مثلاً اسی بھارت کی ایک اورگائیکہ بھی بڑی اچھی آواز کی مالکہ تھی ’’ٹن ٹن‘‘ اسی نے بھی چند گانے گائے تھے جن میں ایک ۔
افسانہ لکھ رہی ہوں دل بے قرار کا
آنکھوںمیں رنگ ترے انتظار کا
اب بھی مشہورہے لیکن اس پردروازہ نہیں کھلا اوروہ ایک مزاحیہ کیریکٹر بن کررہ گئی ، ہمارے اپنے ہاں ایس بی جون بھی ایسی ہی مثال ہے۔ لیکن لتا منگیشکر کے بارے میں جو بات میں بتانے والا ہوں یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اس بے مثال گائیکہ کی آواز کوئی آوازہی نہیں تھی ، سامنے ’’لائیو‘‘ گاتے ہوئے اس کے گلے سے جو آواز نکلتی تھی وہ بہت پتلی بہت باریک بلکہ نہ سنائی دینے والی آواز تھی لیکن الیکٹرانک آلات سے ہوکر نکلتی تھی تو قیامت ڈھا دیتی تھی ۔
یہ بات مجھے استاد محد دین زاخیل نے بتائی تھی جو ریڈیو افغانستان کامیوزک ڈائریکٹر اور مشہورپشتو گائیکہ ’’قمرگلہ‘‘ کاشوہرتھا، خود بھی بے مثل موسیقار تھا ، اس نے موسیقی میں ڈگری بھارت سے حاصل کی تھی اورمشہورجوڑی شنکر جے کشن کا شنکر اس کااستادتھا ،اس نے تین سال بھارت کی دنیائے موسیقی اورفلم میں گزارے تھے اوربہت قریب سے دیکھا تھا۔
اس کاکہنا تھا کہ لتا منگیشکر کبھی ’’لائیو‘‘ گاہی نہیں سکتی تھی کہ ایک پھنکی سی باریک آواز تھی اوراس کی بہن آشا بھوسلے بھی ایسی ہی ہے لیکن دونوں کی آواز میں فرق یہ ہے کہ آشا صرف طربیہ شوخ وچنچل گانے اچھی طرح گاسکتی ہے، المیہ گانوں کے لیے اس کی آواز موزوں نہیں اگرچہ اس نے المیہ گانے بھی گائے ہیں لیکن وہ بات پیدا نہیں ہوپائی جو لتا کی آوازمیں ہے کہ جب وہ شوخ چنچل اورطربیہ گاتی ہے تو بھی بے مثال ہوتی ہے جیسے
ایجک دانہ بیجک دانہ
میرا نام ہے چمیلی میں ہوں مانس البیلی
کہو جی تم کیاکیا
اورجب المیہ گاتی ہے تو لگتا ہے کہ اس کی آواز صرف المیہ گانے کے لیے بنی ہے جیسے
کوئی ہمدم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
نہ تم بے وفا ہو نہ ہم بے وفا ہیں
مگر کیا کریں اپنی راہیں جدا ہیں
آج سو چا تو آنسو بھر آئے
مدتیں ہوگئیں مسکرائے
جو بات میں اب بتانے جارہا ہوں اس کاکوئی تحریری ثبوت اورٹھوس شہادت تو میرے پاس نہیں لیکن جب میں بنوں میں تھا تو کئی بزرگ بنوچیوں اورمروتوں سے سنا تھا کہ لتا منگیشکر کاباپ ہری دیانت لکی مروت میں رہتا تھا اور یہاں کے ایک لیجنڈ گلوکار اورموسیقار پیر غلام کاشاگرد تھا اوراس کے طائفے میں شامل تھا ۔ پیر غلام استاد اوراس کاطائفہ اس خطے میں ایک تاریخی طائفہ گزرا ہے ، اندازہ اس سے لگائیں کہ بعد کے بہت سارے موسیقار اور گلوکار اپنی نسبت استاد پیر غلام سے ظاہر کرتے ہیں اورخود یا اپنے اساتذہ کو پیر غلام کاشاگرد بتاکر فخر کرتے ہیں۔ اس کے طائفے میں اوربھی کئی ہندوگلوکار بیان کیے جاتے ہیں، وہ اس علاقے کا ایک لیجنڈ تھا ۔
ہری دیانت منگیشکر کی دو بیٹیاں یہاں لکی مروت میں پیداہوئی تھی جن میں ایک یہی لتا تھی ۔
استاد پیر غلام کی وفات کے بعد طائفہ بکھرگیا، شاگردوں نے کئی طائفے بنائے ۔ ہری دیانت منگیشکر لکی چھوڑ کر بمبئی چلا گیا کہ وہ تھابھی مہاراشٹر کامرہٹہ ، یہ انیس سو بیس کے قرب وجوار کے واقعات ہیں ۔اس وقت ہندوستان کی فلم انڈسٹری تشکیل پارہی تھی اورچونکہ اس کی بنیاد ہندی ڈرامے پر تھی جو منظوم ہوا کرتا تھا اسی لیے اس میں موسیقی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی ۔ لتا اورآشا کے علاوہ دو اوربہنیں بھی تھیں اوشا اورنراشا ، انھوں نے بھی گانے گائے ، لیکن چل نہیں پائیں۔