حسرت ان غنچوں پہ ہے…

مگر غبار ہوئے’’پر‘‘ ہوا اڑالے جائے وگرنہ تاب وتواں بال وپر میں خاک نہیں


[email protected]

عنوان میں ہم نے ’’غنچوں‘‘ کا لفظ کچھ زیادہ صحیح استعمال نہیں کیا ہے۔کیونکہ ان میں کچھ’’پھول‘‘ بھی تھے جو پھر غنچے بن کر مرجھا بلکہ’’مرجا‘‘ گئے۔ حالانکہ فارسی والوں نے کہا ہے

ہر غنچہ کہ گل شد دگرے غنچہ نہ گرد

قربان زلب یار گہے ٖنچہ گہے گل

(غنچہ جب ایک مرتبہ کھل کر پھول بن جاتا ہے ، وہ دوبارہ غنچہ نہیں بن سکتا لیکن قربان جاؤں یار کے ہونٹوں کے کہ کبھی پھول اور کبھی غنچہ بنتے رہتے ہیں)۔ لیکن ہم یہاں اس باغ کے غنچوں اور گلوں کی بات کررہے ہیں جسے گلستان سیاست یا خارستان کرپشن کہتے ہیں۔اس میں باقی تو سب وہی چل رہا ہے جو چل رہا تھا ، چل رہا ہے اور چلتا رہے گا لیکن بعض اوقات کوئی زبردست  ’’ٹویسٹ‘‘ بھی آجاتا ہے، جیسے یہ تازہ ٹویسٹ جو کرکٹ کے راستے اسپتال سے ہوتا ہوا۔

 ریاست مدینہ تک پہنچا ہے۔اس میں اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے غور کی زحمت گوارا کریں جو آپ کی عادت تو نہیں لیکن پھر بھی۔کہ اس نے بے شمار سیاسی پھولوں کو دوبارہ بناکر مرجھا یا مرجا ڈالا ہے۔اگر آپ کو یاد ہو تو اس کا پہلا شکارجاوید ہاشمی تھا جو بڑا کھلا ہوا سیاسی پھول تھا، طالب علمی کے زمانے سے کھلتا اور کھلکھلاتا ہوا بہت بڑا پھول بن چکا تھا لیکن گرم ہواؤں نے پہلے غنچہ بنایا اور پھر پتی پتی کرکے نہ جانے کہاں اڑادیا۔

مگر غبار ہوئے’’پر‘‘ ہوا اڑالے جائے

وگرنہ تاب وتواں بال وپر میں خاک نہیں

دوسرے غنچوں اور پھولوں اور غبار ہوئے پروں کا ذکر کرنے سے پہلے ایک بوڑھے شیرکا قصہ۔وہ شیر جب بوڑھا ہوکر’’شکار‘‘ کے قابل نہیں رہا۔تو غارنشین ہوگیا اور جنگل میں خبر اڑادی کہ راجہ صاحب بیمار ہوگئے ہیں، جانور عیادت کو آنے لگے تو ایک دن بی لومڑی نے بھی عیادت کا ارادہ کرلیا لیکن وہ غار کے باہر ہی سے راجہ کی طبعیت کے بارے پوچھنے لگی۔

بوڑھے شیر نے اندر سے کہا کہ باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آجاؤ، لومڑی نے باہر سے کہا، حضور میں اندر ہی آرہی تھیں لیکن پھر میرا دھیان قدموں کے نشانوں پر گیا۔غار کے اندر جانے والوں کے نشان تو بہت ہیں لیکن واپس باہر آنے والوں کا ایک بھی نشان موجود نہیں۔اس ’’غار‘‘ کے دہانے پر جاوید ہاشمی کے بعد ایک ریٹائرڈ جسٹس کے نشان بھی ہیں اور وہاں وہ ریحام اور عائشہ گلالئی۔ریحام تو پھر بھی دو دن بہارجاں فزا بنی رہی لیکن گلالئی؟

وے صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں

اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

اور وہ معاونہ اطلاعات جو ڈاکٹر بھی تھیں، فردوس بھی ، عاشق بھی اور اعوان بھی۔جب اس کی تصویر اور بیان کے بغیر کوئی اخبار چھپتا نہیں تھا

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں

بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی

آخری خبروں کے مطابق اس بہترین ترین کے ساتھ استحکام پاکستان کی تلاش میں نہ جانے کہاں غیر مستحکم ہوگئیں ۔اور ہاں جناب بہترین ترین کے بارے میں کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ ’’اتھاہ ترین‘‘ ہوجائیں؟

دکھاتا ہے رنگ یہ جہاں کیسے کیسے

زمیں ہوگئے ’’آسماں‘‘ کیسے کیسے

زیادہ دکھ ہمیں جناب شیخ رشید کے’’غنچے‘‘ پر ہے۔ایک عرصے تک سہ کالمی، چار کالمی رہ کر آدمی سینگل کالم ہوجائے اور وہ بھی ہفتہ وار تو کتنا دکھ ہوتاہے، یہ جناب شیخ سے جاکر پوچھیے جن کے بیانوں سے باغوں میں بہار تھی، پھولوں پر نکھار تھا اور اخباری دنیا گل وگلزار تھی، قصہ پارینہ بنتے جارہے ہیں۔

نالہ جاتا پرے عرش سے میرا اور اب

لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے

اور ہاں گجراتی چوہدریوں کی آخری شمع چوہدری پرویز الہی تو ابھی پوری طرح چہچہائے بھی نہیں تھے کہ طوفان کی زد میں آگئے۔

پنہاں تھا دام سخت قریب اشیان کے

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

اور عائشہ گلائی کی نعم البدل زرتاج گل۔جس کی جگہ مشعال یوسفزئی لے چکی ہے، دیکھیے کون؟ کہاںَ؟ کب؟اور اصل ہوا یہ کہ اس ’’غار‘‘ سے کچھ لوگوں نے بہت کچھ پایا تھا، پاچکے تھے اور پارہے ہیں، اس لیے ہر پرندے کا رُخ اس طرف ہوگیا تھا لیکن

ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں

کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی

لیکن کچھ مزار ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن پر ’’نے چراغے نے گلے نے پروانہ سوز،نے صدائے بلبلے۔ رحمان بابا نے کہا ہے کہ

ہر’’ زندہ ‘‘ جب کسی’’مردہ‘‘ کی قبر سے گزرے تو اس سے بڑی نصیحت اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔

مقبول خبریں