وزیراعظم شہبازشریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے خیبر پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سوات، بونیر، شانگلہ اور صوابی کا دورہ کیا۔
آرمی چیف نے امدادی سرگرمیوں میں مصروف پاک فوج کے جوانوں، پولیس وسول انتظامیہ کے اہلکاروں سے بات چیت کی اور ان کی خدمات کو سراہا۔ وزیراعظم نے شدید بارشوں کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان کا ذمے دار تجاوزات اور ٹمبر مافیا کو قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کا حکم جاری کردیا۔
وزیراعظم اور آرمی چیف کا سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ اور وہاں موجود ہونا کسی محض رسمی دورے یا عوامی تاثر حاصل کرنے کی مہم نہ تھا، بلکہ ایک عملی اور جذباتی پیغام تھا کہ ریاست نے عوام کی ہمدردی، ان کی جان و مال کے تحفظ اور مشکل وقت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کو اپنا فرض و عہد قرار دیا ہوا ہے۔
ایک جانب سیلاب کی تباہ کاری نے عوام کو ماحول، قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے روبروکردیا ہے، تو دوسری جانب وزیراعظم کا اس بحران کو تجاوزات اور ٹمبر مافیا سے جوڑنا، ایک انتباہ سے زیادہ عمل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
خیبر پختو نخوا کے شمالی اضلاع میں کلاؤڈ برسٹ اور سیلابی صورتحال نے تباہی مچا دی ہے۔ مالی نقصان اور انفرا اسٹرکچر کی تباہی تو الگ موضوع ہے۔ اس وقت تمام ادارے اپنے اپنے طور پر متاثرین کی مدد اور بحالی کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں جب کہ نجی شعبے کے مختلف امدادی گروپ بھی سرگرم عمل ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قدرتی آفات کے باعث بار بار اس طرح کی تباہی پیدا ہونے کے اسباب و عوامل کو کیوں نہیں ڈھونڈا جاتا اور ٹمبر مافیا، تجاوزات مافیا اور ایسے دیگر مافیاز کے خلاف کارروائیاں کیوں نہیں کی جاتیں، جن کے باعث نہ صرف بار بار سیلاب آتے ہیں بلکہ نقصانات کی شدت بھی بڑھ جاتی ہے۔
تلخ حقائق تو یہ ہیں کہ ہمارے متعلقہ سول ادارے نہ صرف ایسے واقعات کے براہ راست ذمے دار ہیں بلکہ یہ ان مافیاز کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ سوات سانحہ کے بعد مختلف اضلاع میں تجاوزات کے خلاف کارروائیاں شروع کردی گئیں مگر ان مافیاز کے دباؤ کے باعث یہ سلسلہ روکنا پڑا۔ حالیہ تباہی میں ٹمبر مافیا کے ان ’’مراکز‘‘ نے بنیادی کردار ادا کیا جہاں بہت بڑی مقدار میں بھاری لکڑی (سلیپر) رکھی گئی تھی اور کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں یہ مراکز پانی میں بہہ گئے۔
عالمی معیار کے مطابق پاکستان کے 25 فی صد رقبے پر جنگلات کا ہونا لازمی ہے مگر دستیاب ڈیٹا اور ماہرین کے مطابق پاکستان میں صرف 5 فی صد رقبے پر جنگلات موجود ہیں اور یہ شرح بھی ٹمبر مافیا کی بے دریغ کٹائی اور اسمگلنگ کے باعث ہر سال کم ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح قبضہ مافیاز پر بھی ہاتھ ڈالنے سے گریزکی پالیسی اختیارکی گئی جس کے باعث پانی کے قدرتی بہاؤ کا سلسلہ یا تو رک جاتا ہے یا جگہ کم پڑ جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہر سیلاب اس نوعیت کی تباہی لے آتا ہے۔
درحقیقت خیبر پختون خوا میں ہوٹل مافیاز نے طاقت اور دولت کے زور پر قوانین کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ ماضی میں جن بیوروکریٹس نے سفارش، دباؤ یا رشوت کے نتیجے میں درجنوں ہوٹلز اور بلڈنگز کو این او سیز جاری کیے ہیں ان پر مضبوط ہاتھ ڈالا جائے اور ساتھ میں ٹمبر مافیا اورکرش مافیا کو بھی نشان عبرت بنادیا جائے کیونکہ یہ تمام عناصر خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے اور یہ سب معصوم سیاحوں کے ’’ قاتل‘‘ ہیں موجودہ صوبائی حکومت کی نااہلی اور غفلت اپنی جگہ اور ذمے داران کا تعین بہت ضروری مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مافیاز کو کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے کیونکہ ان لوگوں نے سیاحت کے اس بڑے مرکز کو برباد اور بدنام کرکے رکھ دیا ہے اور یہ عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
مشاہدے میں آرہا ہے کہ ہوٹلز ایسوسی ایشن اور بعض دیگر بلیک میلرز کے ذریعے جاری مہم کے خلاف کاروبار کے دفاع کے نام پر بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں، تاہم ان تمام کوششوں اور ہتھکنڈوں کو خاطر میں لائے بغیر آپریشن جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس مہم کے دوران حکومت کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا مافیاز کو کنٹرول کرنے اور سیاحت، سیاحوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے اب ناگزیر ہوگیا ہے۔
پچھلی چند دہائیوں کی غفلت اور حکومتوں کی سازباز کے نتیجے میں یہ مافیا صوبائی نظام میں گہرائی تک پہنچ گیا ہے۔ سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریٹ تک، شعبہ جنگلات کے افسران سے لے کر ٹمبر ٹھیکیداروں تک اور کتنے ہی لوگ ذاتی مفادات کے لیے ٹمبر کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں۔
یہ واضح تھا کہ جب تک اس مافیا سے نہ نمٹا گیا، قدرتی جنگلات کی تجدید کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ جنگلات کی کٹائی، اسمگلنگ کی وجہ سے بڑھ گئی ہے، جو ماحولیات کے لیے شدید طویل مدتی سنگین نتائج کا حامل ہے۔ درختوں کو ہٹانے سے رہائش گاہوں کی تباہی، مٹی کی تباہی اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھتا ہے، ایسے مسائل جو خطے میں پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
درحقیقت جنگلات کا نقصان قدرتی پانی کو برقرار رکھنے کی صلاحیتوں کو کمزور کر دیتا ہے، جس سے مقامی کمیونٹیزکے لیے میٹھے پانی کے وسائل کی دستیابی کم ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ ماحولیاتی چیلنجز نہ صرف مقامی ماحولیاتی نظام کو بلکہ ان لوگوں کی روزی روٹی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں جو ایندھن، پناہ گاہ اور خوراک کے لیے ان جنگلات پر انحصار کرتے ہیں۔
ٹمبر مافیا قیمتی لکڑیوں کی اعلیٰ مارکیٹ ویلیوکا فائدہ اٹھاتا ہے، اسمگل شدہ لکڑیاں منڈیوں میں نمایاں منافع کے مارجن پر فروخت ہوتی ہیں۔ یہ غیر قانونی تجارت اچھی طرح سے منظم ہے، مختلف رپورٹس کے مطابق، اسمگلر چوکیوں سے گزرنے کے عوض جنگلات کے اہلکاروں کو بھاری رشوت دیتے ہیں، جس سے سرکاری اہلکاروں کو موثر طریقے سے غیر قانونی تجارت کے سہولت کاروں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ آیندہ دریا کے اطراف اور بہاؤ کے راستے میں تعمیرات کو روک دیا جائے۔ یہ بیان محض ایک بیان نہیں بلکہ مستقبل کے خطرات سے بچاؤ کی ایک کلید ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ دریاؤں کے کنارے تجاوزات ہمیشہ تباہی کی وجوہات میں شامل رہی ہیں۔
بسا اوقات تجاوزات کی وجہ سے نہ صرف پانی کا بہاؤ بدل جاتا ہے بلکہ قدرتی راستوں پر غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جو بعد میں عوامی املاک اور جان و مال کو خطرے میں ڈالتی ہیں، لہٰذا دریا کنارے تعمیرات روک کر اور مناسب پلاننگ کے تحت انتظام کو مربوط انداز سے منظم کرکے مستقبل میں ہونے والے نقصانات کم سے کم کیے جاسکتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں پتھر اور کٹاؤ کے خلاف جنگ میں شجرکاری اور مون سون سپورٹنگ پلانٹس کی کاشت اہم ہے۔ ایسے درخت اور پودے، جو مٹی کو تحفظ دیتے ہیں اور پانی کا بہاؤ سست کرتے ہیں، ان کا انتخاب علمی بنیاد پر کیا جائے۔ یہ نہ صرف ماحول کو مستحکم رکھتا ہے بلکہ سیلاب کے بعد بحالی کا عمل بھی سہل ہوتا ہے۔
ایک سنجیدہ منصوبہ سازی میں سرکاری فنڈز، امدادی فنڈز اور نجی این جی اوز کے وسائل کا مربوط استعمال یقینی بنانا چاہیے تاکہ ضرورت کے وقت ماحول دوست، مؤثر اور شفاف امداد فراہم کی جا سکے، اور فضول خرچی سے بچا جا سکے۔ جب ہم اس تمام پلاننگ و حکمت عملی کو ذہن میں رکھتے ہیں، تو یہ احساس ابھرتا ہے کہ صرف جب تباہی واقع ہو جائے، تب ہی فیصلہ سازی کے بعد کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔
بلکہ ایک چوکنا، مربوط اور علمی بنیاد پر مبنی حکومتی نظم کی ضرورت ہے جو خطرات کو پہلے شناخت کرے، وسائل کو پہلے تیار کرے اور عوامی سطح پر ہنگامی کارروائی کے ساتھ ساتھ، اس سے بچنے کے انتظامات کو معمول کا حصہ بنا دے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ وقتی جذبات یا محکمانہ جذباتیت کی بنیاد پر کیے جانے والے اقدام وقتی اثر تو دکھا سکتے ہیں، مگر ترقی و تحفظ کی راہ میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے ہمیں منظم منصوبہ بندی، شفاف فنڈنگ، عوامی شمولیت، ڈیجیٹل ٹریکنگ، اور ماحولیاتی تحفظ کو مستقل بنیادوں پر اپنانا ہوگا۔ اس میں حکومت، سول سوسائٹی، اور عوام کے درمیان مربوط حکمت عملی ہی ہمیں مالی و جانی نقصانات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
اب موقع ہے کہ وہ ایک سالانہ، مربوط اور نتیجہ خیز حکمت عملی کی صورت میں عملی جامہ پہنائے۔ اس طرح، پاکستان آیندہ سیلابوں، طغیانیوں، اور بارش سے ہونے والے نقصانات کے خلاف زیادہ مستحکم، باخبر اور خود کفیل بن جائے گا۔