پشاور:
خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کو پرانا قرار دیتے ہوئے جدید ہیلی کاپٹر کی خریداری کی تجویز دی اور کہا کہ یہ حکومت کی ضرورت ہے کیونکہ ریلیف سرگرمیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
سیلاب سے متاثرہ اضلاع کی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ کے دوران میڈیا سے گفتگو میں مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں اس بار بدترین سیلاب آیا جس سے لوگوں کی زندگی بُری طرح متاثر ہوئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کی اولین ترجیح متاثرہ عوام کی بحالی ہے۔
ہیلی کاپٹر حادثے سے متعلق بات کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ خراب موسم حادثے کی ممکنہ وجہ لگ رہی ہے، بلیک باکس مل چکا ہے اور تحقیقات مکمل ہونے پر میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی حکومت کی جانب سے اگر کوئی امداد آئی ہے تو وہ وفاق کو دی گئی، صوبے کو اس سے متعلق کچھ علم نہیں۔ ماحولیات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کلاؤڈ برسٹ اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی ماحولیاتی مسائل کو جنم دے رہے ہیں، جس پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔
افغانستان کے سفیر سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن، تجارت اور باہمی تعاون پر تبادلہ خیال ہوا۔ حکومت نے افغانستان میں کینسر اسپتال بنانے اور سرحدی علاقوں میں ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان عوام اور پاکستانی عوام کے درمیان تاریخی رشتہ ہے، جسے مزید مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
بیرسٹر سیف نے پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ مریم نواز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کبھی وہ جا رہی ہوتی ہیں، کبھی آ رہی ہوتی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت بھی بین الاقوامی معاہدے کرنے کی مکمل اہلیت رکھتی ہے۔
سیلاب سے متاثرہ اضلاع کی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ
قبل ازیں، پشاور میں بیرسٹر سیف اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے سیلاب سے متاثرہ اضلاع کی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے اسفندیار کے مطابق اب تک 393 افراد جاں بحق، 737 زخمی جبکہ 15 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ سیلاب کے باعث 1711 مکانات کو نقصان پہنچا جن میں سے مکمل تباہ شدہ مکانات کے لیے 10 لاکھ روپے اور جزوی متاثرہ مکانات کے لیے 5 لاکھ روپے فی گھرانہ امدادی پیکج کا اعلان کیا گیا ہے۔
پی ڈی ایم اے کو مجموعی طور پر 2 ارب 40 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں تاکہ متاثرین کو بروقت ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
ڈی جی ریسکیو 1122 ڈاکٹر طیب نے بتایا کہ اس قدرتی آفت کے دوران اب تک 5055 افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔ بونیر کو اس بار صوبے کا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ قرار دیا گیا، جہاں صوبے کا سب سے بڑا سیلاب آیا۔
انہوں نے کہا کہ ریسکیو اہلکاروں نے فوری طور پر میڈیکل کیمپس قائم کیے اور زخمیوں کو طبی امداد دی۔ لوگوں کو شدید نفسیاتی دباؤ کا سامنا ہے، اسی لیے ماہرینِ نفسیات کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں بھیجی جا رہی ہیں۔