اردو یونیورسٹی؛ سینیٹ کے ایجنڈے سے وائس چانسلر کی تنخواہ سے متعلق دو اہم خطوط غائب 

ایچ ای سی نے مالی بے قاعدگیوں پر تحقیقاتی کمیٹی بنادی ، خط جاری 


صفدر رضوی August 31, 2025

وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا ایجنڈا وائس چانسلر کی تنخواہ کے تعین سے متعلق دو سرکاری اداروں کی اہم دستاویزات کو پوشیدہ رکھتے ہوئے جاری کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

سینیٹ کے 3 ستمبر کو ہونے والے اس اجلاس کا ایجنڈا یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہوا ہے
جس میں اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان اور وفاقی وزارت تعلیم کی ان اہم یا غیر معمولی ایڈوائسز کو دانستہ طور پر ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے جو بظاہر جامعہ اردو کے وائس چانسلر کو موجودہ وصول کی جانے والی تنخواہ سے روکتی ہیں۔

تاہم سابق رجسٹرار اور ٹریژرار کی جانب سے ان دستاویز میں موجود ایڈوائز کے برعکس جامعہ اردو کے وائس چانسلر کو 8 لاکھ روپے کے لگ بھگ تنخواہ کا اجرا pay protection کے رائج اصول کی بنیاد پر ٹی ٹی ایس پروفیسر کے مساوی آخری تنخواہ سرٹیفکیٹ کی عوض دیا جارہا ہے لیکن یہ آخری پے سرٹیفکیٹ کی حامل تنخواہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت 2019 میں لے رہے تھے جبکہ بحیثیت وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری نے اردو یونیورسٹی کی سربراہی کی ذمے داریاں مارچ 2024 میں سنبھالی ہیں۔

واضح رہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے ایچ ای سی اور وزارت تعلیم کی اس سلسلے کے دو خطوط کو پوشیدہ رکھتے ہوئے سینیٹ کے اجلاس کا ایجنڈا ایسی صورتحال میں جاری کیا ہے۔

وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے اردو یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف مالی بے ضابطگیوں سے متعلق باقاعدہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ ایچ ای سی اور وزرت تعلیم کے روکے جانے کے باوجود وائس چانسلر اردو یونیورسٹی 8 لاکھ روپے کے لگ بھگ اپنی ماہانہ تنخواہ ایک ایسے وقت میں لے رہے ہیں جب یونیورسٹی کے تدریسی و غیرتدریسی ملازمین کی تنخواہوں میں سے ہائوس سیلنگ الائونس قریب 1 سال سے رکا ہوا ہے اورحاضر سروس ملازمین کو تنخواہ جبکہ ریٹائرڈ کو پینشنز کی ادائیگیاں دو سے تین ماہ کی تاخیر سے کی جارہی ہیں۔

"ایکسپریس" کو معلوم ہوا ہے کہ سینٹ کے ایجنڈا میں ڈرافٹ لگایا ہے جس میں حقائق کو چھپا کر تنخواہ کی منظوری سینٹ سے لینے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ وفاقی یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر کا تقرر چانسلر (صدر مملکت) کرتے ہے اور appointment authority ہی تنخواہ کا تعین کرتی ہے اسی وجہ سے ایچ ای سی نے اپنے خط میں واضح لکھا ہے کہ تنخواہ کے معاملے میں چانسلر آفس سے رابطہ کریں۔

تاہم سینٹ کو منسٹری اور ایچ ای سی کے خط سے لا علم رکھا گیا ہے،  یہاں اب وزارت تعلیم کو اس بات کا علم بھی ہوا ہے کہ چانسلر سے منظوری لیے بغیر ہی یونیورسٹی وائس چانسلر کو18 ماہ سے دو گنی تنخواہ دے رہی ہے۔

وزارت تعلیم کے ایک افسر نے "ایکسپریس " کو بتایا کہ سال 2024 میں ہی وزارت اور اعلیٰ تعلیم کمیشن کی دو باضابطہ ہدایات میں وائس چانسلر کی تنخواہ کے تعین پر واضح اعتراضات اٹھائے گئے تھے، جسے یک طرفہ طور پر 6,07,230 روپے بنیادی تنخواہ (TTS اسکیل کے گیارہویں درجے کے مساوی) پر مقرر کیا گیا۔

یہ اقدام ایچ ای سی کے ضوابط اور سول سروس کے مالی قواعد کی خلاف ورزی تھا جبکہ ایچ ای سی نے واضح طور پر کہا تھا کہ ڈاکٹر ضبطہ خان شنواری 2 مارچ 2019 کو ملازمت سے ریٹائر ہو چکے تھےان کی بطور وائس چانسلر تعیناتی 2024 میں ہوئی لہٰذا وہ تعیناتی کے وقت ٹی ٹی ایس پر حاضر سروس ملازم نہیں تھے۔

لہذا معاملہ چانسلر (صدرِ پاکستان) کو باضابطہ منظوری کے لیے بھیجا جانا چاہیے تھا، تاہم ان ہدایات کے باوجود نہ تو اعتراضات دور کیے گئے اور نہ ہی معاملہ چانسلر سیکرٹریٹ کو بھیجا گیا۔ 

یاد ریے کہ اس سے قبل ایک قائم مقام وائس چانسلر کو بغیر سینیٹ کی منظوری کے تنخواہ لینے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا رجسٹرار کو اس وقت چانسلر کی جانب سے وضاحتی نوٹس بھی جاری ہوا۔

واضح ریے کہ اس معاملے سمیت دیگر بے قاعدگیوں پر ایچ ای سی نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کردی ہے جبکہ ایچ ای سی کے چیئرمین کا چارج اس وقت وفاقی سیکریٹری تعلیم ہی کے پاس یے۔

تحقیقاتی کمیٹی کے حوالے سے جاری خط کا عنوان "اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی  اسلام آباد اور کراچی کیمپس میں مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں سے متعلق متعدد شکایات موصول ہونے پر کمیٹی کا قیام" ہے۔

کمیٹی کے کنوینر ایچ ای سی کے انجینئر رضا چوہان ایڈوائزر ایچ آر ڈی ہیں جبکہ آفتاب رشید سینئر جوائنٹ سیکریٹری وفاقی وزارت تعلیم ، نذیر حسین ڈائریکٹر جنرل ایچ ای سی کراچی ریجنل اور حماد بن سیف اسسٹنٹ ڈائریکٹر (کوارڈینیشن) ایچ ای سی شامل ہیں۔

کمیٹی ایسے معاملات کی چھان بین کرے گی جہاں اختیارات سے تجاوز، اختیارات کے ناجائز استعمال، خصوصاً ہراسانی، امتیاز اور اساتذہ و عملے کے خلاف انتقامی کارروائی کے شواہد موجود ہوں۔

" ایکسپریس" نے اس معاملے پر یونیورسٹی کے ٹریژرار دانش احسان سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطے کی بارہا کوشش کی ان میسج بھی کیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

 

مقبول خبریں