قدیم زمانوں میں طبّی علم اور سائنس آج کی طرح ترقی یافتہ نہیں تھی۔ اس وجہ سے جب کسی کو بیماری ہوتی، تو لوگ اسے خداؤں یا الٰہی طاقتوں کی ناراضگی کا نتیجہ سمجھتے تھے۔
یہ خیال تقریباً ہر قدیم تہذیب میں پایا جاتا تھا جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
1. میسوپوٹیمیا اور عراق
ان خطوں یہ عقیدہ تھا کہ بیماری انسان کے گناہوں یا کسی بدروح کے اثر کی وجہ سے آتی ہے۔علاج کے لیے پجاری تعویذ، دعائیں اور جادوئی عمل کرتے تھے۔
2. قدیم مصر
مصری لوگ بیماری کو خداؤں کی ناراضگی یا “شیطانی روحوں” کا حملہ مانتے تھے۔ علاج میں دعائیں، جادوئی منتر اور ساتھ ہی جڑی بوٹیوں کا استعمال شامل ہوتا تھا۔
3. یونان
شروع میں یونانی بھی بیماری کو خداؤں کی ناراضگی سمجھتے تھے، مثلاً ان بیماریوں کو اپالو خدا یا اسکلپیئس (صحت کے دیوتا) سے منسلک کرتے تھے۔ لیکن بعد میں بقراط نے پہلی بار کہا کہ بیماریوں کی وجہ فطری عناصر اور جسمانی توازن میں بگاڑ ہے، نہ کہ خداؤں کا غصہ۔
4. برصغیر (ہند)
ویدک زمانے میں بیماری کو بداعمالی یا دیوی دیوتاؤں کی ناراضگی کا نتیجہ مانا جاتا تھا۔ علاج میں منتر اور قربانی اہم کردار ادا کرتے تھے۔
5. یورپ – قرونِ وسطیٰ
مغربی دنیا میں طاعون اور دیگر وبائیں اکثر “خدا کی سزا” یا “گناہوں کی وجہ” سمجھی جاتی رہی ہیں۔ اسی لیے توبہ، دعا، اور گناہوں سے پاکیزگی کو علاج کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے سائنس اور طب آگے بڑھی، خاص طور پر جراثیم کے نظریے کے بعد، تو یہ سمجھ آیا کہ بیماری کی اصل وجہ بیکٹیریا، وائرس، صفائی کی کمی، خوراک اور ماحول ہوتے ہیں۔