اوائل نومبر میں اپنے پیارے دوست، سیاح اور فوٹوگرافر طلحہ ظفر کی شادی میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا پڑا تو میرے پاس ایک دن بالکل خالی تھا۔ میں نے سوچا کہ اس بار پہاڑوں اور ٹریلز کی بجائے اسلام آباد کے ادبی چہرے کو کھوجا جائے۔
خوش قسمتی سے واٹس ایپ اسٹیٹس کے ذریعے معلوم ہوا کہ احسان لالا بھی اسلام آباد میں ہیں تو سوچا اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور ان سے ملاقات کی جائے کیوںکہ حالات و واقعات کی وجہ سے ان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان تو نہ جانے کب جانا ہو۔
باتوں سے خوشبو آئے
احسان لالا عرف احسان لاشاری، ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سیاح، افسانہ نگار اور ریڈیو پریزینٹر ہونے کے علاوہ شوقیہ طور پہ موسم کا حال بھی بتاتے ہیں۔ ادب کا بہترین ذوق رکھتے ہیں اور قریبی دوستوں کوتو قسمت کا حال بھی بتاتے پائے گئے ہیں۔
لگ بھگ چار یا پانچ سال سے آپ ہمارے سوشل میڈیائی دوست ہیں لیکن اس سے پہلے میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی حالانکہ ہمارے مزاج کافی حد تک ملتے ہیں۔
ان کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ ان کا گرویدہ بنایا وہ ان کا سرائیکی بولنے کا انداز اور لب و لہجہ ہے۔ زبان تو بہت لوگ بول لیتے ہیں لیکن اسے برتتا کوئی کوئی ہے۔
احسان بھائی سے پاکستان اکادمی ادویات میں ملاقات طے ہوئی اور ہم یعنی میں اور میرا دوست احمد صبح گیارہ بجے وہاں جا پہنچے۔ ہماری ملاقات کی بھلا اس سے اچھی جگہ اور کیا ہوسکتی تھی؟
وہ ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں کچھ عرصے سے یہاں مقیم ہیں۔
ایک پرجوش سی جپھی کے بعد گرما گرم چائے پر ڈھیر ساری باتیں ہوئیں جن میں سیروسیاحت، ادب، زبان دانی، سرائیکی ثقافت اور کھانے، ڈیرہ اسماعیل خان میں امن و امان کی صورت حال، پاکستان کا تاریخی ورثہ، مذہبی سیاحت اور احسان لالا کا ہمارے پسندیدہ سیاح، سید مہدی بخاری کے ساتھ حال ہی میں کیا گیا شمال کا خزاں ٹور شامل تھا۔
گپ شپ کے بعد انہیں اپنی کتاب شاہنامہ پیش کی اور ان کی معیت میں وہاں موجود پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر کا دورہ کیا۔
پھر انہوں نے وہاں مشہور شاعروں اور ادیبوں کی یاد میں بنائے گئے حال آف فیم کا کمرا دکھایا جس کے بعد ہم نے ان سے اجازت چاہی۔
اس وعدے پر کہ زندگی رہی تو دور کسی وادی یا صحرا کی خاک مل کے چھانیں گے۔
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکیں اگر تو آئے
اکادمی ادبیات پاکستان
اکادمی ادبیات پاکستان ادب کی اشاعت اور پاکستانی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم شدہ ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں پطرس بخاری روڈ پر واقع ہے۔
یہ ادارہ، محکمۂ اطلاعات، نشریات اور قومی ورثہ کے ماتحت کام کرتا ہے، جِسے جولائی 1976 میں پاکستان کے نامور ادیبوں، شاعروں مضمون نگاروں، ڈرامہ نگاروں اور مترجمین کے ایک گروپ نے اکیڈمی فرانس سے متاثر ہو کر بنایا تھا جس کا افتتاح اس وقت کے صدر پاکستان، جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہوا۔
ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان میں ادب کا پرچار، ادب سے متعلق مباحثوں کا فروغ اور مختلف زبانوں میں ادبی کام کی اشاعت تھا۔ اکادمی ادبیات کی موجودہ صدر پروفیسر نجیبہ عارف صاحبہ ہیں۔
اکادمی نے اب تک ادب کے فروغ کے سلسلے میں مختلف موضوعات پر بہت سی ادبی اور تحقیقی کتب شائع کی ہیں ترجمہ شدہ کتب اس کے علاوہ ہیں جن میں پاکستان اور پاکستان سے باہر رہنے والے بہت سے ادیبوں کا تحقیقی اور تخلیقی کام شامل ہے۔
یہاں کا کتب خانہ 40 ہزار سے زائد ذخیرۂ کتب پر مشتمل ہے۔
پاکستان اکادمی ادبیات کی عمارت میں بہت سی زبردست جگہیں واقع ہیں جن میں پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر، ادیبوں کا ہال آف فیم، میٹنگ روم، کانفرنس ہال، دفاتر، دالان اور خوب صورت لان شامل ہیں۔ کتاب سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے یہ جگہ ایک جنت سے کم نہیں ہے۔
مشہور شاعر احمد فراز اس ادارے کے سب سے پہلے ڈائریکٹر تھے۔
اردو کے علاوہ ادارے میں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچی، انگریزی اور دوسری پاکستانی زبانوں کے حوالے سے بھی مختلف ادبی و تحقیقی کام کیا جاتا ہے۔
اکادمی ادویات پاکستان کے تحت ہر سال مختلف ایوارڈز بھی دیے جاتے ہیں جنہیں ’’قومی ادبی ایوارڈز‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ایوارڈز پاکستان کی تمام مرکزی زبانوں میں لکھی گئی مختلف کتابوں کو دیے جاتے ہیں جس میں مصنف کے لیئے ایک لاکھ روپے کی انعامی رقم بھی شامل ہے (جسے 2016 میں بڑھا کر دو لاکھ تک کر دیا گیا ہے)۔
ادارے کا ایک اور مرکزی ایوارڈ ’’کمالِ فن ایوارڈ‘‘ ہے جسے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے 1997 میں لانچ کیا گیا تھا جس کی انعامی رقم پانچ لاکھ روپیتھی (جسے 2016 میں بڑھا کر 10 لاکھ روپے تک کر دیا گیا ہے)۔
اس ادارے کی خدمات کے پیش نظر 24 ستمبر 2023 میں پاکستان پوسٹ نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی شائع کیا تھا۔
ملک پاکستان میں ادب کی بقاء اور مصنفین کی فلاح و بہبود کے لیے اس ادارے کی مضبوطی اور مزید ایسے اداروں کا قیام بہت ضروری ہے۔
اس ادارے میں کچھ دل چسپ جگہیں ہیں آئینے دیکھتے ہیں۔
چِنگ ہو یا حرف و صوت
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چِنگ ہو یا حرف و صوت
علامہ محمد اقبال کا یہ شعر اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر دفتر میں بڑی خوب صورتی سے لکھا گیا ہے، اس طرح کہ چھجے کی چھت پہ لکھے شعر کا سایہ دھوپ میں زمین پر پڑتا ہے۔
یہ ان کی نظم مَسجدِ قُرطبہ سے لیا گیا ہے جو ہسپانیہ کی سرزمین، بالخصوص مشہور شہر قرطبہ میں لِکھّی گئی تھی۔
مکمل نظم تو کافی طویل ہے اس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں؛
عشق خود اک سَیل ہے، سَیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِرواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مِضراب سے نغمۂ تارِحیات
عشق سے نُورحیات، عشق سے نارِحیات
اے حَرمِ قُرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چِنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خُونِ جگر سے نمود
ہال آف فیم
اکادمی کے اندر ایک اور دل چسپ جگہ ہال آف فیم ہے جہاں ایک روشنی سے نہائے ہال میں مختلف مصنفوں، افسانہ نگاروں اور شاعروں کا تعارف ان کی تصاویر کے ساتھ لگایا گیا ہے۔
یہاں چند ایک ادیب ایسے ہیں جو ابھی حیات ہیں جبکہ بیشتر اب ہم میں نہیں رہے۔

ہال آف فیم میں آپ بلوچستان، خیبر پختون خواہ، سندھ اور پنجاب سمیت وفاقی دارالحکومت سے تعلق رکھنے والے مشہور ادیبوں کا کام دیکھ سکتے ہیں ان میں سے کچھ گمنام بھی ہیں جنہیں آج کی نسل نہیں جانتی۔
ان مشاہیر میں جوش ملیح آبادی، بانو قدسیہ، منیر نیازی، حفیظ جالندھری، ناصر کاظمی، امجد اسلام امجد، بپسی سِدھوا، حبیب جالب، استاد دامن، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، عبداللّہ جان جمالدینی، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، عبداللّہ حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، مختار مسعود، پروین شاکر، امیر حمزہ خان شنواری، ن م راشد، شیخ ایاز، احمد فراز، میر گل خان نصیر، انتظار حسین، خان عبدالغنی خان، فہمیدہ ریاض، افتخارعارف، مشتاق احمد یوسفی، منیر احمد بادینی، سوبھوگیان چندانی، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض اور علامہ محمد اقبال جیسی ہستیاں شامل ہیں۔
نئی نسل اور طباء کو اپنے ادیبوں اور مشاہیر سے لوگوں کو روشناس کرانے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر
اکادمی ادبیات کے دفتر میں پاکستانی زبانوں کا ادبی عجائب گھر کا بورڈ دیکھ کے میری تو باچھیں کھل گئیں۔ زبانوں کے بارے پڑھنا مجھے شروع سے ہی پسند رہا ہے اور ایسے کسی عجائب گھر کا تو میں پاکستان میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس طرح کے کسی عجائب گھر کی وطنِ عزیز کو اشد ضرورت تھی۔
پاکستان کی چھوٹی اور معدوم ہوتی زبانوں پر میں نے بہت پہلے کام کیا تھا جو 2018 میں شائع ہونے والی میری کتاب شاہنامہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
احسان لالہ ہمیں لے کر عمارت کے تہہ خانے میں پہنچے جہاں ایک کانفرنس ہال کو پار کرنے کے بعد گلاس ڈور دھکیل کر ہم اس دنیا میں داخل ہو گئے جہاں مختلف زبانیں، اپنے بولنے والوں کی طرح دست و گریباں نہیں تھیں بلکہ باہم شیر و شکر ایک چھت تلے محبت سے رہ رہی تھیں۔
زبانوں کے اس عجائب گھر میں ہر وہ زبان موجود تھی جو پاکستان کے کسی نا کسی علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، براہوی اور اردو کا یہاں ہونا تو عام سی بات تھی۔۔۔۔ زیادہ خوشی مجھے تب ہوئی جب ان میں کئی ایسی چھوٹی مقامی زبانیں شامل تھیں جن کا ذکر میری کتاب میں موجود ہے جیسے پالولہ، یدغا، وخئی، کالاشہ، سانسی، انڈس کوہستانی، گجراتی۔
لیکن وہیں کچھ ایسی زبانیں بھی تھیں جن کا نام بھی میں پہلی بار سن رہا تھا۔ ان میں مدک لشٹی، لوارکی، گاؤری، کتہ وری، جنڈاوڑہ، بشگالی وار، چلیسو، ودھیاری کولی، کمویری اور دیواری شامل تھیں۔
یہاں مختلف بورڈز پر تمام بڑی چھوٹی زبانوں کا تعارف، تاریخ، خِطہ اور اردو و انگریزی سمیت ان زبانوں کے اپنے رسم الخط (جن کا رسم الخط موجود ہے) میں پیش کیا گیا تھا۔
اس عجائب گھر کا افتتاح بھی ’’مادری زبانوں کے عالمی دن‘‘ یعنی 12 فروری 2025 کو کیا گیا تھا۔
احسان لاشاری صاحب نے اس عجائب گھر کے حوالے سے بتایا کہ اس پراجیکٹ پر 2024 سے کام چل رہا تھا اور عجائب گھر کے لیے انگریزی سمیت پاکستان میں بولنے والی چوہتر زبانوں کی نمائندگی یہاں موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے اسکالر و طلباء یہاں آتے ہیں جن میں سے چند ایک نے ہمیں کچھ نئی زبانوں کا بھی بتایا ہے جو اس ذخیرے میں شامل کی جا سکتی ہیں لیکن زبانوں کے لیے ہمارے کچھ اصول ہیں۔
جیسے وہ زبان جس کی نمائندگی یہاں ہے وہ کسی مخصوص علاقے میں بولی جاتی ہو، بولنے والوں کی ایک واضح تعداد ہو، اس کا رسم الخط ہو یا نہیں ہے تو اس زبان میں لکھی کوئی کتاب (یا تحریر) ضرور موجود ہو۔ تو ان پر جو زبان پوری اترتی ہے وہ یہاں موجود ہے لیکن پھر بھی یہ فہرست حتمی نہیں ہے، اس میں اضافے کے امکانات موجود ہیں۔
زبانوں سے محبت کرنے والوں کو میری کتاب اور اس عجائب گھر دونوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ پاکستان کے وسیع اور زرخیز ثقافت سے ہوسکیں۔
یہاں سے نکلے تو احمد اپنے ایک پروفیسر سے ملنے چلا گیا جب کہ میں اسی سڑک پہ آگے کو چل دیا۔ کچھ آگے ادارہ فروغ قومی زبان کا بورڈ نظر آیا تو میں نے اس کا دورہ کرنے کا سوچا اور ادارے کے اندر چلا گیا۔
ادارہ فروغ قومی زبان
مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد میں واقع ایک خودمختار ادارہ ہے جو حکومت پاکستان کابینہ ڈویژن کے زیرانتظام 4 اکتوبر 1979 کو نفاذِاردو کی ضروری تیاری کے لیے وجود میں آیا۔
اس ادارے کی ذمے داری قومی زبان کے نفاذ کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرنا اور ساتھ ہی قومی زبان کو انگریزی کی جگہ لینے کے لیے تیار کرنا ہے۔
ادارے کی موجودہ عمارت کا سنگِ بنیاد 1992 میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے رکھا جبکہ چوبیس مارچ 1998 کو ادارے کے دفاتر اس عمارت میں منتقل کردیے گئے۔ ادارے میں ایک کتب خانہ، چند دفاتر، خطاطی سکھانے کی جگہ اور ایک کتاب گھر ہے جہاں سے آپ ادارے کی مطبوعات انتہائی سستے داموں خرید سکتے ہیں۔
زبان دانی پر یہاں بہت سی کتب موجود تھیں جن میں سے میں نے اپنی پسند کی کتب خریدیں۔ سستی قیمت کے باوجود بل کی کل رقم پر بھی33 فی صد رعایت دی گئی۔ اساتذہ و طلباء کے لیے رعایت کی شرع پچاس فیصد ہے۔
یہ ادارہ نفاذ اردو کی کوششوں کے علاوہ مندرجہ ذیل شعبوں میں خدمات انجام دے رہا ہے۔
دار الترجمہ دستاویزات
یہ شعبہ اردو میں قواعد و ضوابط اور قوانین کے ترجمے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
دارالترجمہ لغات و اصطلاحات:
یہ شعبہ لغات کی ترتیب و تدوین اور علم اصطلاحات سازی میں جدید تحقیق کو سامنے لانے کا کام انجام دیتا ہے۔
درسیات
یہ شعبہ جامعاتی سطح پر ایم اے، ایم ایس سی کے طلبہ کے لیے اہم موضوعات پر درسی کتب کی تیاری کا کام انجام دے رہا ہے۔
دارالتصنیف:
یہ شعبہ قومی زبان کے فروغ اور اس سے متعلق مطالعاتی مواد۔
کی تصنیف و تالیف کے سلسلے میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
ادارے نے اپنے مقاصد کی بجا آوری کے لیے اب تک سات سو کے قریب عنوانات پر کتب شائع کی ہیں جن میں ایک سو سے زائد لغات، فراہنگ اور کشاف شامل ہیں۔
قومی انگریزی اردو لغت، قانونی انگریزی اردو لغت، فرہنگ تلفظ، اردو چینی لغت وغیرہ قابل ذکر مذکورہ لغات کے علاوہ چار درجن سے زائد کتابیں ادارے کی ویب سائیٹ پر آن لائن موجود ہیں۔
یہ ادارہ 1981 ء سے ایک جریدہ بھی شائع کرتا آ رہا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر اس ادارے کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ہیں۔
یہاں سے خریدی گئی کتب کا بوجھ اٹھائے میں نے اِن ڈرائیو بُک کی اور لوک ورثہ کے پاس کیفے 1969 کو چل دیا جہاں ایک قیمتی ہستی میرے انتظار میں تھیں۔
1969 کیفے
کیفے پہنچا تو جناب پروفیسر جاوید صاحب کو اندر ہال میں اپنا منتظر پایا۔ ان سے بغل گیر ہوا تو مانو برسوں کی ’’مونجھ‘‘ اتر گئی۔
شکرپڑیاں میں واقع 1969 ریستوراں ایک منفرد جگہ ہے جو پاکستان میں 60 کی دہائی کے سنہری دور کی یادگار ہے۔
اس کیفے میں داخل ہونے سے آپ کو اس کے تاریخی ماحول کا جادو محسوس ہوتا ہے۔ مسحورکن ذوق ساتھ دلکش سجاوٹ اور پرانی لالی وڈ فلموں کے پوسٹر دیکھ کے یوں لگتا ہے جیسے یہ کسی سنیما گھر کا حصہ ہے۔
یہ ریستوراں 2010 میں قائم کیا گیا تھا جس کا بیرونی حصہ قدیم پتھروں سے بنی نایاب عمارت جیسا لگتا ہے۔
اپنی بناوٹ اور سروس کی وجہ سے یہ جگہ بہت مشہور ہے لیکن ساتھ ساتھ جیب پر بھاری بھی ہے۔
پروفیسر جاوید حیدر سید صاحب قائد اعظم یونیورسٹی سے بطور تاریخ کے پروفیسر ریٹائر ہوئے اور اب اسلام آباد میں ہی قیام پذیر ہیں۔ بنیادی تعلق پاکپتن جبکہ ابتدائی تعلیم مخدوم پور پہوڑاں اور ملتان سے ہے۔
دہائیوں سے پاکستان اسٹڈیز اور تاریخ پڑھا رہے ہیں۔ جامعہ بلوچستان کوئٹہ میں شعبئہ تاریخ کی بنیاد آپ ہی نے رکھی تھی۔ پروفیسر اقبال چاولہ جیسے سنیئر ترین اساتذہ آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں۔
اس عمر میں تیز یادداشت کے ساتھ آپ ایک بہت ہی عاجز اور مہربان انسان ہیں اور اللہ کا اس سے زیادہ کیا کرم ہو گا مجھ پر کہ ناچیز کی تحریریں آپ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔
میں نے انہیں اپنی پہلی کتاب شاہنامہ پیش کی کیوںکہ وہ تاریخ، جغرافیہ، فن اور سفر کے دلدادہ ہیں اور دعاؤں کے ساتھ ان سے رُخصت چاہی۔
لوک ورثہ پر احمد نیدوبارہ جوائن کیا اور ہم نے وہاں سے کچھ سندھی دست کاریوں کی خریداری کی۔ گرما گرم چائے کے بعد ہم نے اس جگہ کو خیرباد کہا اور میں نے رات کو خان پور کا لمبا سفر کرنے کے لیے خود کو تیار کیا، کہ اگلے دن نوکری پر بھی جانا تھا۔۔۔۔آہ یہ ملازمت کی بیڑیاں۔۔۔۔