مقتول رہنما عثمان ہادی کی میت بنگلادیش پہنچ گئی؛ نماز جنازہ کہاں ہوگی؟ بڑا اعلان

عبوری حکومت کے سربراہ نے نماز جنازہ کے مقام کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا


ویب ڈیسک December 19, 2025
عثمان ہادی کو ایک انتخابی مہم کے دوران موٹر سائیکل سواروں نے قتل کیا

سابق آمر وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے طویل دور حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والی طلبا تحریک کے سرکردہ رہنما عثمان ہادی قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ہادی عثمان کی جان کو بچانے کے لیے ڈھاکا سے انھیں سنگاپور لے جایا گیا لیکن وہ دوران علاج چل بسے۔

بنگلادیش کے پرچم میں لپٹی اُن کی میت آج ڈھاکا واپس لائی گئی جس کا استقبال لاکھوں طلبا نے ایئرپورٹ پر کیا۔ اس موقع پر عبوری حکومت کے وزرا بھی موجود تھے۔

عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے اعلان کیا کہ عثمان ہادی کی نماز جنازہ کل دوپہر 2 بجے بنگلادیشی پارلیمنٹ کے ساؤتھ پلازا میں ادا کی جائے گی۔

سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر حکام نے اعلان کیا ہے کہ جنازے میں شرکت کرنے والے کوئی بیگ یا بھاری اشیا ساتھ نہ لائیں۔

علاوہ ازیں پارلیمنٹ ہاؤس اور اس کے گرد و نواح میں ڈرون اڑانے پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے شریف عثمان ہادی کے انتقال پر ہفتے کے روز ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

اس موقع پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا اور سرکاری تقریبات محدود رکھی جائیں گی۔

یاد رہے کہ شریف عثمان ہادی 12 دسمبر کو ڈھاکا کے علاقے پرانا پلٹن میں انتخابی مہم کے دوران فائرنگ کے ایک حملے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔

حملہ آوروں کی گولی ان کے سر پر لگی تھی جس کے باعث وہ بے ہوش ہوگئے تھے۔ ابتدائی طور پر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال اور پھر ایور کیئر اسپتال منتقل کیا گیا۔

حالت میں بہتری نہ آنے پر عثمان ہادی کو 15 دسمبر کو سنگاپور کے ایک جدید اور بڑے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز کی ماہر ٹیم نے معائنہ کیا۔

 تاہم وہ جمعرات کی شب سنگاپور جنرل اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ جس کے بعد ڈھاکا میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔

ان ہنگاموں میں طلبا نے سابق حکمراں جماعت عوامی لیگ کے دفاتر کو آگ لگادی اور کارکنان کے گھروں پر حملے ہوئے۔

بنگلادیش کے معروف طلبا رہنما اور سیاسی پلیٹ فارم ’’انقلاب منچہ‘‘ کے ترجمان شریف عثمان ہادی کو نامعلوم افراد موٹر سائیکل سواروں نے قتل کیا تھا۔

حملہ آور اس کارروائی کے بعد بھارت فرار ہوگئے تھے جہاں پہلے ہی شیخ حسینہ واجد اپنی معزولی کے بعد سے پناہ لیے ہوئے ہیں۔

طلبا تنظیموں اور سیاسی حلقوں نے عثمان ہادی کے قتل کو جمہوری آواز دبانے کی سازش قرار دیا۔

 

مقبول خبریں