اردو میں لسانی تحقیق وتدوین

خرم سہیل  منگل 19 اگست 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

مہذب معاشروں میں اظہار خیال کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ،بشرطیکہ آپ حروف کو برتنے کے فن سے آشنا ہوں۔علمی وادبی شعبوں میں اس فن پر دسترس حاصل کرنے کے لیے دانش ور اپنی پوری زندگی وقف کردیتے ہیں، پھر کہیں جاکر حروف خیالات کی روح میں ڈھلتے ہیں ،سماعت کی زمین سیراب ہوتی ہے اوریہ قارئین کے دل میں اترتے ہیں۔اپنی زبان سے محبت ایک فطری عمل ہے،اس محبت کو بیان کرنے کے لیے کوئی علمی پیمانہ وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہواکرتی۔

دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والوں کو اپنی زبانوں سے قدرتی طورپر محبت ہے۔ہم اپنی مادری اورقومی زبانوں کو شعوری طور پر نہیں سیکھتے ،بلکہ طلب اورچاہت کے شگوفے پھوٹ کر اظہار کی کلیوں میں تبدیل ہوتے ہیں ،ان کی خوشبو صرف طالب ہی نہیں مخاطب بھی محسوس کرتاہے،کیونکہ لفظوں کا اپنا مخصوص رومان ہوتا ہے،جس کی شناسائی اس رشتے سے ہوجائے،وہ پھر معنویت کے ان گہرے سمندروں کے سفر پر نکل پڑتا ہے،جہاں تک جانے کی سعی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتی ۔یہ دیوانگی کسی کسی کے حصے میں آیاکرتی ہے۔

عہد جدید میں دنیا سمٹ کر کائناتی گاؤں میں تبدیل ہوگئی ہے،مگر اس کے باوجود زبان کے معاملے میں اقوام بہت حساس ہیں۔اپنی زبان پر کسی دوسری زبان کو ترجیح نہیں دی جاتی،کیونکہ اپنی زبان کو سرفہرست چاہنے کا عمل فطری ہے۔یورپی،افریقی،لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ ساتھ ایشیائی ممالک،جن میں بالخصوص، چین، جاپان، جنوبی کوریا، ایران اوردیگر ممالک اپنی قومی زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے،کئی دہائیوں پرانا ہندی اردو تنازعہ اپنی زبان کو پہچان دلوانے کی ایک کوشش ہے۔بنگلہ دیش بننے کے پیچھے جن تنازعات کا وجود تھا،ان میں سے ایک تنازعہ زبان بھی تھی۔

قیام پاکستان کے وقت سے موجودہ دور تک کتابیں شایع ہونے کی تعداد میں پچاس فیصد کمی آئی ہے۔شروع کی دہائیوں میں چھپنے والی کتابوں کی تعداد دیکھ لیں ،ایک کتاب کی اشاعت کئی ہزار ہواکرتی تھی،اب پہلی اشاعت پانچ سو بھی چھپ جائے،تو غنیمت ہے اوربہت تیر ماریں، تو ایک ہزار کے ہندسے تک بات پہنچتی ہے۔مجموعی صورت حال یہی ہے،البتہ انفرادی حیثیت میں کچھ کتابوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوجائے، تو الگ بات ہے،لیکن ایسی کتابوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

اس بات کو بیان کرنے کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ ہمارے ہاں کتابیں شایع نہیں ہورہیں،ان کی تعداد ایک ہزار یاپانچ سو ضرور ہوتی ہے ،مگر کتابیں لکھنے والوں کی تعداد بے شمار ہوگئی ہے،جنھیں ردی کا ڈھیر لگانے سے فرصت نہیں۔ناشرین کو گاہک سے مطلب ہے اور مصنفین کو شہرت سے واسطہ،علم کا فروغ اکثریت کی ترجیح نہیں ہے۔اسی لیے بے شمار کتابیں شایع ہونے کے باوجود معاشرے میں علمی رویے دم توڑ رہے ہیں۔معیاری کام کی حیثیت ثانوی رہ گئی ہے،جب کہ سطحی کام کرنے والوں کے ناموں پر سڑکوں کے نام رکھے جا رہے ہیں،ایسی بہت ساری مثالیں ہیں،جن کا تذکرہ کرکے میں اپنا اورآپ کا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا۔

اس صورت حال کے باوجود معیاری کام بھی ہو رہاہے۔اچھے موضوعات پر کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ ایسے حروف رقم کیے جارہے ہیں،جن کی معنویت میں اظہار خیال کا حسن ہے اورعلمی گہرائی بھی۔ایسی ہی ایک معیاری کتاب ’’اردو میں لسانی تحقیق وتدوین‘‘کا یہاںتذکرہ کرنا مقصود ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر رئوف پاریکھ ہیں،جن کی اردوزبان سے گہری وابستگی اردو زبان کی خوش قسمتی ہے۔زیرنظر کتاب اردو زبان کے تناظر میں لسانی تحقیق اورتدوین کا محاکمہ کرتی ہے۔لسانیات کے موضوع پر یہ کتاب آسان زبان میں دقیق موضوعات پر بحث کرتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی سلیس اردو نے لسانیات جیسے مشکل سمجھنے جانے والے موضوع کو انتہائی دلچسپ بنا دیا ہے۔

یہ کتاب مجموعی طورپر 13مرکزی ابواب بمعہ ذیلی سرخیوں کے متن کو بیان کرتی ہے۔یہ سرخیاں ہمیں کتاب کی اہمیت سے آشنا کرواتی ہیں۔ان کا مطالعہ کرکے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عصری لسانی معاملات کیا ہیں اورعلمی سطح پر ان کے ساتھ کیسے برتا جا سکتا ہے۔کتاب کی زینت بننے والی ان سرخیوں کی ترتیب میںاردو زبان،اکیسویں صدی میں:صورت حال اورتقاضے،اردو زبان سے متعلق تحقیقی ،تنقیدی اورتدوینی کاوشیں، لسانیات،اردو زبان کے آغاز کے نظریات، معیار اور صحت زبان،تحقیق الفاظ،اردو املا اور رسم الخط، ہندی اردو تنازع،بھارت میں اردو،بیان وبدیع وعروض و تلمیحات، اردو اصطلاحات،اردو کی تدریس اوراردو بطورذریعہ تعلیم اورلسانی جائزے جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

کتاب میں زبان اس کے قواعد اوران کے استعمال پر بھی بات کی گئی ہے، بالخصوص ذرایع ابلاغ جس طرح کی زبان کواپنائے ہوئے ہیں، اس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں لسانیات کے موضوع پر ہونے والے تحقیقی کام کے متعلق جتنی اہم کتابیں شایع ہوئی ہیں ،ان کا تذکرہ بھی اس کتاب میں موجود ہے ،صرف یہی نہیں بلکہ لغات، فرہنگیں،ضرب الامثال اورلفظیات کے مدون کام پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔

ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے زبان کے رسم الخط کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے’’افسوس کہ ہم میں سے اکثر اس صورت حال کی ہولناکی کا ادراک نہیں رکھتے جوکسی زبان کے رسم الخط کے فنا ہونے کی صورت میں پیش آتی ہے۔تحریر کے لیے اپنی زبان کے رسم الخط کوچھوڑ کر کوئی اور رسم الخط استعمال کرنا ایک طرح سے اپنی زبان کو روح سے محروم کرنے کے مترادف ہے کیونکہ رسم الخط ہی اصل میں زبان ہوتا ہے۔‘‘یہاں ان کا اشارہ برقی ڈاک،موبائل کے پیغامات اورذرایع ابلاغ میں اردو زبان کو رومن میں لکھنے کا بڑھتا ہوئے رجحان کی طرف ہے، ڈاکٹر صاحب کو یہ اندیشہ ہے، کہیں ہماری یہ سہل نگاری اردو کے وجود ہی کوخطرے میں نہ ڈال دے۔

اردو زبان کو عہد جدید کے مطابق ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جن لوگوں کی خدمات رہیں،ان کے کام کا مختصرجائزہ لیا اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے،ان میں اردو زبان کے سافٹ ویئر’’نوری نستعلیق‘‘ کے خالق جمیل احمد مرزا،مطلوب الحسن سرفہرست ہیں۔ان کے علاوہ ماہرلسانیات شان الحق حقی،ڈاکٹر سرمد حسین،عطش درانی،حافظ صفوان چوہان اورعلیم احمد شامل ہیں ،جب کہ دو نوجوان جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اردو زبان کو مزید وسعت دے رہے ہیں ،ان میں ڈاکٹر تفسیر احمد اور ڈاکٹر بدرسمیع شامل ہیں۔اس کتاب کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان کے لیے بالخصوص لسانی پہلوئوں سے کتنا کام ہو رہا ہے۔

اس کتاب میں اردو زبان کے ساتھ روا رکھے گئے رویوں کا درد بھی بین السطور میں موجود ہے، بلکہ کہیں کہیں تو ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے صاف الفاظ میں بھی اس کا اظہار کیا ہے۔مثال کے طور پر ایک جگہ لکھتے ہیں،’’امید ہے کہ یہ تحقیق کے طالب علموں کے لیے بطورخاص مفید مقالہ ہوگا اور اگر جامعات کے کچھ اساتذہ ٔ کرام بھی اسے پڑھ لیں توکوئی حرج تو نہیں؟‘‘اس سوالیہ نشان میں تدریس سے وابستہ اساتذہ کی اکثریت نے زبان کا کیا حشر کیا ہے،اس کا احوال درج ہے۔

زبان درست لکھنا اور بولنا تو دور کی بات ،پاکستانی جامعات میں پڑھانے والے اکثر اساتذہ کی اکثریت کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتی۔ان کے شعبے سے متعلق نئی تحقیق کیاہورہی ہے،اس موضوع پر کس طرح کی کتابیں شایع ہو رہی ہیں،وہ اس سے بے خبر اپنے مادی فوائد سمیٹنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں،اسی لیے تو زبان کی موجودہ صورت حال اتنی خراب ہوگئی ہے۔

ڈاکٹر رئوف پاریکھ جامعہ کراچی میں شعبہ ٔ اردو کے استاد ہیں ۔ایک موقرانگریزی اخبار میں ادبی کالم لکھتے ہیں۔اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے ساتھ لغت نویس کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔انجمن ترقی اردو،غالب لائبریری اوردیگر کئی ادبی اداروں سے بھی ان کی وابستگی ہے۔ان سے گفتگو کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ درست زبان کیسے بولی جاتی ہے۔غنیمت ہے کہ ابھی ہمارے درمیان ایسے صاحبان علم موجود ہیں،جن کی وجہ سے ہماری تہذیب اور زبان محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔