افغانستان ہمارے مفروضے کہاں گئے

جو لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ افغانستان میں جمہوریت کا قائم ہونا تقریباً ناممکن ہے، وہ لوگ آج اپنے سر پکڑے بیٹھے ہیں۔


Zahida Hina October 05, 2014
[email protected]

افغانستان میں 30 ستمبر 2014ء کو ایک نئی تاریخ رقم ہوئی جب اس ملک میں پہلی مرتبہ پُر امن طور پر ایک منتخب جمہوری صدر حامد کرزئی نے نو منتخب صدر اشرف غنی کو اقتدار منتقل کیا۔ 40 برسوں سے جنگوں کے شکار ملک کے لیے یہ ایک انہونی تھی۔21 ویں صدی انہونیوں کی صدی ہے جس میں ہر وہ واقعہ رونما ہو رہا ہے جس کا پچھلی صدی میں تصور ممکن نہیں تھا۔ دور کیوں جائیں اپنے گھر کی مثال لیں۔

1999ء کے فوجی انقلاب کے بعد سب نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ پرویز مشرف پورے طمطراق سے حکمرانی کے مزے لوٹ رہے تھے پھر ایک انہونی ہوئی' پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ''نہیں'' نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ وکلاء اور سیاسی کارکنوں نے مل کر ایسی تحریک چلائی کہ صدر صاحب کو وردی سے جدائی اختیار کرنا پڑی'2008ء کے انتخابات کرانے پڑے اور اس کے بعد استعفیٰ دے کر اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت جس روز اقتدار میں آئی اسی روز سے اس کی رخصتی کی تاریخ دی جانے لگی۔

پانچ سال تک ایک مصنوعی بحران قائم رکھا گیا لیکن ہر چال اُلٹ گئی اور پاکستان میں بھی ایک نئی تاریخ اس وقت رقم ہوئی جب 2013ء کے عام انتخابات کے بعد ایک پارلیمنٹ نے دوسری نو منتخب پارلیمنٹ' ایک وزیر اعظم نے دوسرے وزیر اعظم اور ایک صدر نے دوسرے صدر کو اقتدار منتقل کیا۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس دن سے نواز شریف نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالا ہے اس کے فوراً بعد سے ان کی روانگی کی بھی تاریخیں دی جا رہی ہیں۔ ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ عید سے پہلے قوم کو عید کی خوشی ملے گی' یہ تمنا پوری نہ ہوئی' شرمندہ ہوئے بغیر بتایا گیا کہ عید قرباں سے پہلے وزیر اعظم کی قربانی ہو گی۔

اس خواہش کے پوری ہونے کا جب کوئی امکان نظر نہیں آیا تو کہا گیا کہ اگلا سال انتخابات کا سال ہو گا۔ دھرنوں اور انقلاب کا سلسلہ شروع ہوا تو 48 اور 72 گھنٹوں کے اندر حکومت کی رخصتی کا مژدہ سنایا گیا' ہر طرح کا دباؤ ڈالا گیا لیکن تمام متعلقہ اداروں نے کمال ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری عمل میں رخنہ اندازی سے گریز کیا۔ آپ انسانوں سے لڑ کر انھیں زیر کر سکتے ہیں لیکن تاریخ سے لڑنا اور اُسے ہرانا' انسان کے بس میں نہ پہلے تھا اور نہ آج ہے۔ اس لیے اُمید نہیں یقین کیا جانا چاہیے کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت سے ''جان چھڑانی'' تقریباً نا ممکن ہے۔

بات افغانستان سے شروع ہوئی تھی۔ اس ملک کے بارے میں بھی ہمارے دانشور' تجزیہ نگار اور دفاعی ماہر کیا کچھ نہیں کہتے تھے۔ ان کی باتیں سُن کر یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی آزاد ملک کے بارے میں نہیں بلکہ اپنی نو آبادی کے حوالے سے تجزیے فرما رہے ہوں۔ کیسے کیسے مفروضے قائم نہ کیے گئے۔ ایک مفروضہ یہ تھا کہ تاریخ میں کوئی حملہ آور افغانستان پر قبضہ نہیں جما سکا لہٰذا امریکا بھی ایسا نہیں کر سکے گا۔ کسی نے یہ سوچنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ہندوستان' چین اور امریکا سمیت تین چوتھائی دنیا دو اور ایک صدی پہلے تک چند سامراجی ملکوں کی غلامی میں تھی تو کیا یہ اس لیے ہوا کہ یہ مقبوضہ اقوام بزدل اور ڈرپوک تھیں؟ یقیناً ایسا نہیں تھا۔

افغانستان کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ یہاں کی معیشت گلہ بانوں اور خانہ بدوشوں پر قائم تھی' زراعت نہ ہونے کے برابر تھی اور ایسی ''زائد پیداوار'' یا قدرتی وسائل موجود ہی نہیں تھے جن پر قبضہ کر کے لوٹا جاتا۔ لہٰذا کسی سامراجی ملک کو افغانستان پر مستقل قبضے میں کوئی مالی یا معاشی فائدہ نظر نہیں آیا اور وہ بچا رہا۔ ہمارے عالی دماغ تجزیہ کار یہ بھی کہتے تھے کہ طالبان امریکا کو افغانستان سے نکال باہر کریں گے۔ لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ امریکا نے افغانستان کی افواج اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مذہبی شدت پسندوں کو افغانستان کے مغربی سرحدی صوبوں کے کچھ حصوں تک محدود کر دیا ہے۔

پاکستان میں طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات میں 55 ہزار شہریوں اور اعلی افسروں سمیت ساڑھے پانچ ہزار فوجیوں نے اپنی جان گنوائی' ملک کے اندر سیکڑوں خود کش حملے اور دہشتگرد کارروائیاں ہوئیں، اس کے برعکس افغانستان جہاں 9/11 کے بعد طالبان کی حکومت تھی وہاں پاکستان کے مقابلے میں 20 فیصد بھی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔ کیا یہ صورتحال اس بات کی علامت نہیں ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی پر پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں قابو پایا گیا۔

افغانستان کے بارے میں یہ مفروضہ بھی تھا کہ اس ملک میں نسلی' لسانی اور قبائلی تقسیم اور آویزش اتنی زیادہ ہے کہ یہاں کسی منظم قومی فوج کی تشکیل ممکن نہیں۔ صدر اشرف غنی نے حکومت سنبھالنے کے 24 گھنٹوں کے اندر امریکا کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے تحت ملک میں موجود 24000 ہزار امریکی فوج کی تعداد 9800 تک محدود ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ چند برس پہلے تک افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ امریکی اور نیٹو فوجی جنگی کارروائیوں میں مصروف تھے۔ اب جو امریکی اور نیٹو فوجی موجود ہوں گے وہ کسی جنگ یا فوجی آپریشن میں حصہ نہیں لیں گے۔

یہ کام افغانستان کی اپنی فوج کرے گی جس کی تعداد اس وقت تین لاکھ پچاس ہزار ہے۔ ان فوجیوں میں پشتو' تاجک' ازبک' فارسی' دری غرض افغانستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں بولنے والے مختلف قومیتوں اور قبیلوں کے جوان شامل ہیں۔ کیا یہ اہم بات نہیں ہے کہ جس ملک کے پاس کل تک اپنی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی وہاں یہ ادارہ منظم شکل اختیار کر چکا ہے۔

وہ افغانستان جو دنیا میں پسماندگی کی علامت تھا۔ جہاں بادشاہت تھی لیکن بادشاہ کی عمل داری دارالحکومت کے آس پاس تک محدود تھی' جو کہنے کو ایک ملک تھا لیکن اس کے مشرقی' شمالی اور جنوبی علاقے عملاً خود مختار تھے' آج وہی افغانستان پوری دنیا کو حیران کر رہا ہے۔ جو لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ افغانستان میں جمہوریت کا قائم ہونا تقریباً ناممکن ہے، وہ لوگ آج اپنے سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ وہاں کے عوام نے جس پشتون کو اپنا نیا صدر منتخب کیا ہے اس نے بیروت کی مایہ ناز امریکی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے علم بشریات میں ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کی۔

اس کا سفر یہیں نہیں تھما۔ اشرف غنی نے ورلڈ بینک میں 10 سال کام کیا اور اعلیٰ پائے کے معیشت دان کا مرتبہ پایا۔ افغانستان کا یہ نو منتخب صدر ایک نہیں متعدد اہم کتابوں کا مصنف ہے۔ ''ناکام ریاستوں'' کے موضوع پر اس کی تحقیق کو بہت وقعت دی جاتی ہے۔ 9/11 سے پہلے تک عملی سیاست میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شاندار تعلیمی پس منظر اور ورلڈ بینک جیسے عالمی ادارے میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے کے بعد اس نے حامد کرزئی کی حکومت میں وزیر خزانہ کا منصب سنبھالا اور آج وہ اپنے ملک کا منتخب صدر ہے۔ صدر اشرف غنی نے جس چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی کی ہے اس کا نام ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہے۔ یہ پاکستان میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں اور اپنے ملک کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ انھوں نے کابل یونیورسٹی سے طب کی ڈگری لی ہے۔ ایک دو نہیں بلکہ 40 برسوں سے خانہ جنگی اور شورش میں گھرے ملک میں' اتنی غیر معمولی تبدیلی کا آنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ21 ویں صدی میں جنگ' محاذ آرائی' دہشت گردی اور آمریت کی کوئی گنجائش نہیں' یہ جمہوریت' آزادی اور حقوق انسانی کے احترام کی صدی ہے۔

افغانستان میں جس نوعیت کی جمہوری تبدیلی آئی ہے اس کے ایک روشن پہلو کو پاکستان میں لازماً اجاگر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ افغانستان کی خاتون اول ایک لبنانی نژاد امریکی عیسائی ہیں۔ ان کا نام رولا ہے۔ اشرف غنی اور رولا دونوں 1970ء کی دہائی میں بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ رولا غنی نے اپنے شوہر کی انتخابی مہم میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا اور کابل میں خواتین کا ایک بڑا جلسہ منعقد کیا اور انھیں افغانستان کے انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کی۔ یہ ان کا کارنامہ تھا جس کی وجہ سے افغان خواتین کی بھاری تعداد نے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالے اور صدر اشرف غنی کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان اور افغانستان' دونوں ملکوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پُر امن جمہوری انتقال اقتدار کا ''معجزہ'' رونما ہوا ہے۔ اب اس معجزے کو ایک مضبوط حقیقت میں ڈھالنا پاکستان کے عوام' جمہوری طاقتوں اور محب وطن قوتوں کا اولین فریضہ ہے۔ صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں پاکستان کے صدر جناب ممنون حسین' محمود خان اچکزئی' اسفند یار ولی اور آفتاب شیر پاؤ کی شمولیت ایک نہایت اہم اور روشن پیشرفت ہے۔ یہ اس امر کی غماز ہے کہ نواز شریف حکومت نے افغانستان کے حوالے سے محاذ آرائی پر مبنی ماضی کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے۔ افغانستان کی طرح ایک نیا پاکستان بھی دنیا کے نقشے پر ابھر رہا ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کے پُر فریب نعروں کی آڑ میں اس عمل کو رکنا نہیں چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں