یہ ہماری زندگی ہے

فرح ناز  ہفتہ 11 اکتوبر 2014

الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ایک اسلامی ریاست کا حصہ ہیں۔ ہم پاکستان میں رہتے ہیں اور اس پاکستان کے عظیم اور عالیشان ہونے کے خواب دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر جب ہم مائیں اپنے بچوں کے بارے میں سوچتی ہیں تو وہ ایک مثبت سوچ ہوتی ہے۔ سب ماؤں کا خواب ہے کہ ان کے بچے تعلیم یافتہ ہوں، اعلیٰ، بڑے عہدوں تک پہنچیں ، عزت اور خیر کی زندگی گزاریں۔ اس خواب کے ساتھ اس مثبت سوچ کے ساتھ بڑی ذمے داریاں بھی ہماری خواتین پر عائد ہوجاتی ہیں۔ اس معاشرے میں جس میں آج ہم رہ رہے ہیں ایک ہنگامہ خیزی کی زندگی گزار رہے ہیں، چاروں طرف افراتفری کا عالم ہمیں نظر آتا ہے۔ ہماری روایتیں دم توڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بڑوں اور چھوٹوں سے عزت اور پیار ایک بناوٹی حصہ بنتا نظر آتا ہے۔

لالچ، لوٹ و مار، زیادہ سے زیادہ آسانی سے حاصل ہوجانے کا جذبہ چاروں طرف نظر آتا ہے اور اسی طرح کی بے شمار ایسی چیزیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہی ہیں، اسی زمانے میں، اسی دور میں بڑی سخت ذمے داریاں بھی خواتین کے کاندھوں پر آن پڑی ہیں۔

بچوں کی نشوونما، ان کی تعلیم و تربیت اب کسی بھی جہاد سے کم نہیں۔ ہم نے اپنے ماں باپ سے سچ بولنا سیکھا، ایمانداری سیکھی، ایک دوسرے کے کام آنا سیکھا، ایک دوسرے کی مدد کرنا سیکھا، استادوں کی عزت کرنا ان سے علم حاصل کرنا سیکھا اور اسی طرح کی بے شمار خوبصورت اور بہتر زندگی گزارنے کے سلیقے سیکھے۔مگر اس وقت اور اس معاشرے میں رہتے ہوئے کتنا مشکل ہوگیا ہے یہ سب کچھ اپنے بچوں کو سکھانا، کتنی بے بسی محسوس ہوتی ہے جب بڑے بڑے اسکولوں میں ہم اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں اور اپنے ہی علم سے اپنے ہی کلچر سے وہ لاعلم ہوتے ہیں، مغرب کے Writer پڑھاتے جاتے ہیں اور ان کو Promote کیا جاتا ہے۔ ہمارے خاندانوں کا Joint System دم توڑ گیا، ہمارے بزرگ ہم پر بوجھ بن گئے، والدین صرف بچوں کو اچھا مستقبل دینے کا باعث بن گئے ہیں، ’’یہ ہماری زندگی ہے‘‘ کا نعرہ ہمیں اپنے بچوں کے زبانوں پر نظر آتا ہے۔ اور اپنی بے بسی!

اور ان ہی تمام غلط روایتوں سے، ان ہی تمام غلط سوچوں سے ہمیں اپنے بچوں کو نکالنا ہوگا، وہ تمام خواتین جو تعلیم و تربیت میں لگی ہوئی ہیں اپنی نسل کی، ان کو بہت سوچ و سمجھ کر اپنے قدم آگے بڑھانے ہونگے۔ اپنے آپ کو بھی رول ماڈل بنانا ہوگا۔ اپنی خواہشات کو مارنا ہوگا اور اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اپنے آپ کو بھی بہتر سے بہتر بنانا ہوگا۔ اللہ پاک نے قرآن مجید اور دیگر الہامی کتابوں کے ذریعے تو ہمیں کئی صدیاں پہلے سے ہی زندگی گزارنے کے طریقے بتا دیے ہیں، رسول پاکؐ کی زندگی سے اعلیٰ کوئی اور نمونہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو ایک امانت سمجھیں اور کیونکہ یہ ایک امانت کی طرح ہمارے پاس ہیں تو یقینا اس میں خیانت نہیں کرنی ہوگی۔ شروع سے ہمیں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے سادہ زندگی منتخب کرنی ہوگی۔ اچھی صحت کے ساتھ بہترین علم ہماری زندگیوں کے لیے بہترین ایندھن ہوگا۔

سچ بولنا، جھوٹ سے نفرت، چوری ایک بڑا گناہ حق کسی کا مارنا یا کسی کے ساتھ زیادتی کرنا ایک بڑا گناہ جو خدا کو سخت ناپسند ہے، سمجھانا ہوگا، بچوں کو ابتدائی زندگی سے ہی سہی اور غلط بتانا ہوگا، بڑوں کی عزت اور خدمت کا احساس ، تربیت سے ان کے دل و دماغ میں ڈالنا ہوگا اور خود کو بھی ماڈل بنانا ہوگا۔ اگر آپ خود اپنے والدین کی عزت نہیں کریں گے تو کیسے اپنے بچوں سے اپنی عزت کی توقع رکھ سکیں گے۔ بیٹا ہو یا بیٹی، دونوں سے ایک جیسا سلوک اور رویہ بہت ضروری ہوگا اور دونوں کو ایک جیسے طریقے سے تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہوگا۔ والد نے کماکر کمائی آپ کے ہاتھوں میں دے دی اب ان تمام خواتین کو بہترین طریقے سے تمام امور کو انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو بہترین بنانا ہوگا۔ اپنا وقت، پڑوسیوں سے گپ شپ میں یا رشتے داروں کی ٹوہ میں بالکل برباد نہیں کریں۔

بے تحاشا فضول شاپنگ یا صرف دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے اپنی رقم اور اپنے وقت کو برباد نہیں کیجیے۔کچھ گھرانوں میں 2014 میں بھی لڑکے اور لڑکی پر تفریق کی جاتی ہے۔ یہ میں گاؤں یا دیہاتوں کی بات نہیں کر رہی بلکہ بڑے بڑے شہروں کی بات کر رہی ہوں، جہاں اپنے آپ کو بہت ہی تعلیم یافتہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ مگر اپنی ہی اولاد میں لڑکے اور لڑکی ہونے پر تفریق کی جاتی ہے۔ تعلیم ہو یا غیر نصابی سرگرمیاں۔ ان گھرانوں میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ان کے لیے تمام سہولتوں کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے بلکہ بہتر سے بہتر آسائشیں دی جاتی ہیں اور لڑکیوں کے لیے بالکل بھی برابری کا سلوک نہیں۔

حالانکہ اللہ کے حکم کے مطابق لڑکی تو والدین کے لیے جنت کے دروازے کھولنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ میں تو تمام والدین سے یہ ضرور کہوں گی کہ چاہے آپ لڑکے کے والدین ہیں یا لڑکی کے، ان دونوں کی تعلیم و تربیت میں کسی بھی طرح کی کوتاہی کے آپ ہی جواب دہ ہوں گے۔ بہت بڑی ذمے داری ہے صاحب اولاد ہونا اور اس سے بڑی ذمے داری ہے ان ذمے داریوں کو احسن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچانا۔

گھر کی ذمے داریاں ہوں یا اولاد کی ایک سمجھدار ماں ان تمام امور کو جوکہ ان تمام لوگوں کی زندگیوں سے وابستہ ہیں اور خود اس کی زندگی سے وابستہ ہے بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہے۔ بس تھوڑی سی توجہ آپ کو کرنی پڑے گی ایک راہ عمل ضرور ڈیزائن کیجیے کہ کس طرح کا Life Style آپ اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے بہتر سمجھتی ہیں۔

ہمارے ارد گرد تو بے حساب، بے شمار طریقے کار زندگی نظر آتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کی طرح بنا لیا ہے۔ بہت ہی معمولی دنیاوی رسم و رواج ہمارے لیے بہت اہم ہوگئے ہیں، وہ آپ کے کھانے سے لے کر شادی بیاہ تک نظر آتے ہیں۔ اپنے Comfort سے زیادہ ہم دنیا والوں کو دکھانے میں زیادہ مگن نظر آتے ہیں۔ چاہے وہ روزمرہ کا جوڑا ہو یا پھر Grocerry خریدے جانے کا طریقہ کار۔

ہم تو وہ خوش قسمت امتی ہیں کہ تمام زندگی کے طریقہ کار ہمارے لیے بہت پہلے سے وضع کر دیے گئے ہیں جس میں ہمارے لیے بے انتہا بھلائی ہے دنیا کے لیے بھی اور آخرت کے لیے بھی ۔ بس ذرا سا ہمیں ان تمام طریقوں کو سمجھنا ہے اور شروع سے ہی اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی میں شامل کرنا ہے۔

خدا کا شکر ادا کریں کہ آپ صاحب اولاد ہیں اور اللہ نے آپ کو اس لائق سمجھا کہ آپ یہ ذمے داریاں پوری کرسکیں ۔ تو اس کو اپنے لیے اللہ کا احسان جانیے اور لگ جائیے اللہ کے آگے سرخرو ہونے کے لیے آپ اس مرتبے پر فائز ہیں جہاں آپ کو دین اور دنیا دونوں مل سکتے ہیں۔ اور ایک ایسی نسل کی پرورش کیجیے جو آگے جاکر بہترین اولاد، بہترین والدین، بہترین دوست، بہترین ساتھی، بہترین حکمران بن سکیں ۔ خلفائے راشدین کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اس کو پڑھیے بچوں کو ان میں دلچسپی ڈالیے۔ وہ تمام رہنما پاکستان جنھوں نے آزادی کے لیے ایک الگ اسلامی ریاست کے لیے شب و روز جدوجہد کی ان کو کبھی نہ بھولیں ۔ ایک بہترین ماں ہی ایک بہترین معاشرہ بنا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔