پاکستان خطرات کی نسبت مواقع زیادہ

شریف حکومت نے 2013 کےعام انتخابات میں(قومی اسمبلی کی342میں سے189سیٹوں کے ساتھ)کامیابی حاصل کرتے ہوئےحکومت سنبھالی تھی۔



1983 میں سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد سے پاکستان اور کوریا کے درمیان تعلقات دھیمے چلے آ رہے تھے کیوں کہ 31 برسوں کے دوران کوریا کی چوٹی کی قیادت کی جانب سے کوئی دورہ نہیں کیا گیا۔ قابل احترام اسپیکر قومی اسمبلی جناب کانگ چانگ ہی نے 29-30 جنوری 2014 کو پاکستان کے دورے پر حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ کی ایک ٹیم کی قیادت کی اور قابل احترام وزیر اعظم چنگ ہونگ وون نے افسران اور کاروباری افراد کے ایک بڑے وفد کے ساتھ 13-16 اپریل کو پاکستان کا دورہ کیا۔

قابل احترام وزیر اعظم کا یہ دورہ بڑا بر وقت تھا جسے وزیر اعظم جناب نواز شریف کی حکومت کی تمام تر کوششوں کے بعد بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے دلچسپی کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، کیوں کہ وہ قومی معیشت کے احیاء کے لیے کوشش میں مصروف ہیں۔اعلیٰ درجے کے افسران کے دورے نے جمہوریہ کوریا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی جانب قدم بڑھانے والی کورین کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم، پاکستان میں دہشت گردی اور سیاسی بے چینی جیسے عناصر موجود ہیں جو اس کام کو مشکل بنا رہے ہیں۔

دہشت گردی کے واقعات افغانستان کے ساتھ شمال مغربی سرحد اور ایران کے ساتھ جنوب مغربی سرحدوں پر وقفوں وقفوں سے جاری ہیں۔ 20ملین سے زائد آبادی کے ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے کچھ حصوں میں دہشت گردی کے شاذونادر کیسوں کے ساتھ گینگ وار کے مسلسل واقعات پیش آرہے ہیں۔شریف حکومت نے 2013 کے عام انتخابات میں (قومی اسمبلی کی 342 میں سے 189 سیٹوں کے ساتھ) کامیابی حاصل کرتے ہوئے حکومت سنبھالی تھی، اور تب سے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم، پاکستان تحریک انصاف (قومی اسمبلی کی 34 سیٹوں کے ساتھ) ووٹوں کے حوالے سے دوسری بڑی سیاسی پارٹی ہے، جس نے وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے کیوں کہ 2013 کے انتخابات میں شدید دھاندلی ہوئی تھی۔

سیکولرازم پر زور کے ساتھ سماجی مہم کے ایک گروپ، پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن (14 جون کو پولیس نے PAT کے 14 حامیوں کو گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا تھا) کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔PTI اور PAT کے لاکھوں حامیوں نے اسلام آبادسے 400 کلومیٹر دور لاہور سے احتجاج کا آغاز کیا تھا اور 19 اگست کو ریڈ زون پہنچ گئے تھے جہاں پارلیمنٹ ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر، سپریم کورٹ آف پاکستان اور بہت سے ممالک کے سفارت خانوں سمیت اہم سرکاری عمارتیں واقع ہیں، اور وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔

دھرنوں کے دوران احتجاج کرنیوالوں اور پولیس کے درمیان لڑائی ہوئی، جس کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے پارٹی قائدین نے دونوں اطراف کو مذاکرات کی طرف راغب کرنے کی کوششیں شروع کردیں تاکہ سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ نکالا جا سکے تاہم، سیاسی تعطل اب تک قائم ہے۔لوگ دہشت گردی اور عارضی سیاسی تناؤ کی وجہ سے پاکستان کی صلاحیتوں کونظر انداز کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی صلاحیتوں کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔ اول، پاکستان کے بارے میں اکثریت کا وژن مثبت ہے۔ BRICS کو دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی حیثیت سے اعلان کرتے ہوئے، گولڈ مین سیکز نے پاکستان کو اس گروپ میں شامل کر لیا تھا جو ان کا تعاقب کرے گا۔

26 فروری کو، امریکی ریاستی سیکریٹری جان کیری نے وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی تحفظ اور خارجہ امور سرتاج عزیز سے کہا تھاکہ پاکستان میں مستقبل میں ایشیاء کا ٹائیگر بننے کی صلاحیت موجود ہے۔دوئم، پاکستان کے پاس کوئلے، گیس ، تانبے، سونے، خام لوہے اور بہت کچھ کے بے پناہ معدنی وسائل ، اور 18 سے 40 سال کی عمر کے درمیان 100 ملین کم تنخواہ دار کارکنان ہیں (ماہانہ کم سے کم تنخواہ: 120 ڈالر)۔ یہ لوگ کل آبادی کا 57 فی صد ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے انجینئرز اور ٹیکنیشنز بھی ہیں جو اچھی طرح تربیت یافتہ ہیں اور انگریزی اور کمپیوٹر پر پوری دسترس رکھتے ہیں۔

زرعی پیداوار کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں کپاس میں چوتھے، دودھ میں چوتھے، گندم میں چھٹے، گنے میں چھٹے اور چاول کی پیداوار میں بارہویں نمبر پر ہے جو اس کی پیداواری صلاحیتوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔سوئم، پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہمیت کا حامل ہے، جو جنوب مغربی ایشیاء، وسطی ایشیاء، چین اور مشرق وسطیٰ کے آپس میں ملانے کا گیٹ وے ہے۔ اس کی آبادی 190 ملین ہے جو دنیامیں چھٹی سب سے بڑی آبادی اور کورین جزیرہ نماکی نسبت 3.6 گنا ہے، جو اسے صارفین کی ایک بڑی منڈی بناتا ہے۔چہارم، اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کو جاری دھرنوں کی وجہ سے معیشت کے ہلکے اشاروں جیسے مسائل کا سامنا ہے، اس کی پوری معاشی حالت بہتری ظاہر کر رہی ہے۔

2013-14 کے مالی سال کے دوران جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 4.14 ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک ڈالر کے مقابلے میں ایکس چینج کی شرح 98-99 روپے پر قائم ہے۔ مالی سال 2013-14 کے دوران کراچی اسٹاک ایکس چینج 37.6 فی صد اوپر گیا ہے۔ امریکا میں قائم سروے انسٹی ٹیوٹ، PEW ریسرچ کی جانب سے پیش کردہ تصور کیمطابق، پاکستان کی صلاحیتوں میں 17 فی صد سے 37 فی صد اضافہ ہوا ہے (جب ہم جمہوریہ کوریا کی صلاحیتوں کی افزائش کی بات کرتے ہیں اس میں 20 فی صد سے 33 فی صد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے)۔

ان صلاحیتوں کے علاوہ، سب سے زیادہ اہم عنصر جسے ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پاکستان، جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات کا سرگرمی سے فروغ چاہتا ہے، اور اس حقیقت کی انتہائی تعریف کرتا ہے کہ جنوبی کوریا ایک مختصر مدت میں ایک وصول کرنے والے ملک سے اب ڈونر ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ چنانچہ کورین کمپنیاں الیکٹرانک، کیمیکل، کنفیکشنری، زیادہ تر اسٹیل، ریل کی پٹری، بندرگاہ اور سڑک کے تعمیر کے شعبوں میں انفراسٹرکچر میں اپنی سرمایہ کاری کو وسعت دے سکتی ہیں۔

جس بات کو کچھ لوگ بحران تصور کرتے ہیں، دیگر لوگ اسے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ 1992 میں چین کے ساتھ دوطرفہ سفارتی تعلقات کے قیام سے قبل، کورین کمپنیاں اس کی صلاحیتوں کو محسوس کرتے ہوئے اس حقیقت کے باوجود چینی منڈی میں داخل ہو ئی تھیں کہ اس وقت بند کمیونسٹ چین کمائے گئے منافع کو اپنے ملک بھیجنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس ہی انداز میں، مزید کورین کمپنیوں کو پاکستان آنا چاہیے۔

جہاں اس حقیقت کے باوجود کم ازکم 100 فی صد منافع اپنے ملک بھیجنے کی اجازت ہے کہ پاکستان کو دہشتگردی اور سیاسی بے چینی کا سامنا ہے۔اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ 66 فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے، پاکستان میں دیہی معیشت کی ترقی حاصل کرنے کے لیے کوریا کی ''نئی دیہاتی مہم'' اپنانے کی ایک بڑی صلاحیت موجود ہے جو کوریا نے 1960 سے 1970 کے درمیان حاصل کی تھی۔

اعلی عہدے پر فائز افسران کے 2014 کے پہلے نصف حصے میں کیے گئے دوروں نے دونوں دوست ممالک کے درمیان قریبی اور خوش گوار ماحول پیدا کیا ہے، جو ان کے دو طرفہ تعلقات کی 31 سالہ تاریخ میں بہترین ہے۔ اگر کوریا کی تکنیکی مہارتیں پاکستان کے بے پناہ انسانی اور قدرتی وسائل کے ساتھ مل جائیں تو، یہ نہ صرف پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گی بلکہ کوریا کے لیے بھی ایک بڑی منڈی کا راستہ کھول دیں گی۔

( مضمون نگار، پاکستان میں جمہوریہ کوریا کے سفیر ہیں)

مقبول خبریں