حقوق انسانی اور غربت

انسانوں میں شناخت کے حوالے سے جو فرق اور تفریق موجود ہے اس بنا پر کسی کو کمتر یا دوسرے کو برتر قرار نہیں دینا چاہیے۔


Zahida Hina November 09, 2014
[email protected]

حقوق انسانی، اس انسانی خواب کا نام ہے جس کے مطابق ہر انسان دوسرے انسان کے برابر ہے ۔ رنگ ، نسل، مذہب، قومیت، مسلک ، صنف، جنسی شناخت سمیت ہر امتیاز سے بالاتر ہو کر اس اصول کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

یہ نہیں ہوسکتا کہ تفریق اور امتیاز کا فوری طور پر مکمل خاتمہ ہو سکے ۔ کرہ ارض پر رہنے والے انسان ایک نہیں درجنوں اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ یہ تنوع کا دوسرا نام ہے ۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ انسانوں میں شناخت کے حوالے سے جو فرق اور تفریق موجود ہے اس بنا پر کسی کو کمتر یا دوسرے کو برتر قرار نہیں دینا چاہیے۔ انسانی حقوق بلا امتیاز مساوی ہونے چاہئیں ۔

چند دن پہلے کی بات ہے جب کوٹ رادھا کشن میں ایک نوجوان جوڑے کو تشدد کر کے جاں بہ لب کر دیا گیا اور جب اس پر بھی تسکین نہ ہوئی تو دونوں کو اینٹوں کے لیے دہکائے جانے والے بھٹے میں پھینک کر خاکستر کر ڈالا گیا۔ یہ مسیحی جوڑا غریب تھا ۔ بھٹا مالک اجرت روکے بیٹھا تھا، اصرار کیا گیا تو مقدس اوراق کی بے حرمتی کا الزام لگا کر ان پر تشدد کیا گیا، مسجد سے اعلانات کرائے گئے، مشتعل دیہاتیوں کا ہجوم جمع ہو گیا ۔ سیکڑوں لوگوں نے اس ''کار خیر'' میں حصہ لے کر ''ثواب دارین'' حاصل کیا۔ جو براہ راست اس ''نیک کام'' میں شریک نہ ہوسکے انھوں نے تائیدی نعرے لگائے اور محض ایک الزام کی بنا پر اس جوڑے کو جلا کر مارنے والوں کی دل کھول کر پذیرائی کی گئی۔

اس بھیانک واقعے میں 56 لوگوں کو براہ راست نامزد کیا گیا ہے اور 600 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ بہت سی گرفتاریاں بھی ہوئیں، حکمرانوں، سیاست دانوں، مذہبی اور سماجی رہنماؤں، حقوق انسانی اور اقلیتوں کی تنظیموں نے اس گھناؤنے جرم کے خلاف زور دار بیانات دیے ۔ تحقیقات ہوں گی، مقدمہ چلے گا اور وقت کے ساتھ ہم اس سانحے کو ماضی کے دیگر سانحوں کی طرح فراموش کر دیں گے۔ پھر اس سے بھی بھیانک کوئی واقعہ کہیں اور رونما ہو گا اور ہم ایسا ہی ردعمل پھر دیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

اس واقعے کو بنیاد بنا کر ہم غربت اور انسانی حقوق کے معاملے پر غور کرتے ہیں۔ مقتولین کا غریب ہونا یا محنت کش طبقہ سے تعلق رکھنا اس ہولناک واقعے کا صرف ایک پہلو ہے، واحد پہلو نہیں ہے۔ سلمان تاثیر نہ غریب تھے اور نہ غیر مسلم، ان کو کیوں قتل کیا گیا؟ ایسا کرنے والا آج بھی بہت سے لوگوں کی نظر میں ہیرو ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر اس کی تعریف بھی اکثر سننے کو ملتی ہے۔ ذرائع ابلاغ بھی اس حوالے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غربت، حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا ایک سبب ضرور بنتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ غریب کو اس کے انسانی حق سے محروم کرنے والے صرف بالادست طبقات ہوں یا ریاست ہو۔ جس مسیحی جوڑے کو دہکتے ہوئے شعلوں کی نذر کر دیا گیا اس کی مثال سامنے رکھیں تو معلوم ہو گا کہ بھٹے کے مالک نے واجب الادا رقم ادا نہ کرنے کے لیے مبینہ طور پر یہ ڈراما رچایا لیکن اس پورے عمل میں جو سیکڑوں لوگ فعال یا غیر فعال طور پر حصہ لے رہے تھے کیا وہ غریب نہیں تھے؟ غریبوں کے ہجوم نے ایک غریب اور محنت کش میاں بیوی کو سفاکانہ انداز میں ہلاک کر دیا۔ اس مظہر کو کیا نام دیا جائے گا؟

بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک غربت جو کہ محرومی کی ایک بدترین شکل ہے وہ باقی رہے گی، اس وقت تک لوگ اپنی ضرورتوں کی تکمیل اور محرومی کو دور کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کو نفرت، جبر اور تشدد کا نشانہ بناتے رہیں گے۔ انسانی تاریخ میں جتنی خانہ جنگیاں، شورشیں، نسلی، مذہبی اور لسانی فسادات ہوئے اور جن میں کروڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے ان سب کے پس پشت احساس محرومی ہی کارفرما تھا۔ فاشزم کا ابھار، ملکوں کی تقسیم، خونیں انقلابات کا وقوع پذیر ہونا، ان سب کے پیچھے محرومی کا جذبہ اور یہ شکایت کارفرما ہے کہ دوسروں نے ہمارا حق مارا ہے۔ طیش اور جنون اس بات کا ہوتا ہے کہ ہمارے ہر عذاب کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جو رنگ، نسل، مذہب، مسلک، قوم یا کسی دوسرے حوالے سے ہم سے مختلف ہیں۔ ان لڑائیوں، جنگوں، شورشوں، خانہ جنگیوں اور فسادات میں مارنے والے بھی غریب تھے اور مرنے والے بھی غریب۔ یہ کہہ کر ذمے داری اور جواب دہی سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ ڈوری کوئی اور ہلا رہا تھا اور عوام کو تقسیم کرنے والے استحصالی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ حیلہ سازی نہیں چلے گی۔ ہمیں سچ کا سامنا کرنا ہو گا ۔

جب تک ملکوں اور گروہوں میں محرومی رہے گی، غربت اور پسماندگی کا دور دورہ ہو گا، اس وقت تک حقوق انسانی محض آئین، معاہدے اور میثاق کی دستاویزات میں لکھے رہیں گے۔ ان پر عمل نہیں ہو گا۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر معاشی اور سماجی محرومی کو کسی حد تک ختم کر دیا جائے تو شہری اور ریاست دونوں حقوق انسانی کا احترام کرنے لگیں گے۔ گویا انھیں اس کی خلاف ورزی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ تاریخ میں یہ طریقہ بھی آزما کر دیکھا جا چکا ہے۔

ایک وقت تھا کہ دنیا کے درجنوں ملکوں میں سیکولر سوشلسٹ نظام موجود تھے۔ انسان کی بنیادی ضروریات پوری کی جا رہی تھیں اور اس کام میں کوئی تفریق یا امتیاز بھی روا نہیں رکھا جاتا تھا۔ لوگوں کے پاس گھر تھے، تعلیم مفت تھی، روزگار کی فراہمی، علاج معالجہ، غرض ہر ضرورت کی تکمیل ریاست کی ذمے داری تھی۔ لیکن اس تجربے سے کیا حقیقت سامنے آئی؟

معلوم یہ ہوا کہ محض معاشی غربت کو ختم کر دینے سے حقوق انسانی کا تحفظ ممکن نہیں اور اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ برابری اور مساوات کو جبراً نافذ کرنے کی کوشش میں ان گنت دیگر انسانی حقوق پامال ہوئے۔ لوگوں سے اظہار رائے کی آزادی، انجمن سازی کا حق لے لیا گیا، احتجاج، انحراف اور اختلاف کے بنیادی انسانی حقوق سے انھیں محروم کر دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ رہن سہن، عبادت، سفر اور ثقافتی حقوق تک پامال کر دیے گئے۔ ان تمام انسانی حقوق کی پامالی سے ایک ظاہری برابری اور مساوات پیدا ہوگئی، یہ بھی محسوس ہوا کہ انسانوں کی معاشی محرومیاں اور غربت ختم کر دی گئی ہے لیکن یہ سارا عمل پائیدار ثابت نہ ہو سکا۔ تجربہ سے ثابت ہوا کہ انسانی حقوق صرف معاشی نوعیت کے ہی نہیں ہوتے ۔ انسان کو ہر طرح سے یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ آزاد ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ انسان غریب تو رہ سکتا ہے لیکن غلام نہیں رہ سکتا ۔

ارتقاء کے عمل کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 1948ء میں اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کا جو عالمی منشور جاری کیا تھا، جس پر دستخط کرنے والوں میں پاکستان بھی شامل ہے، اس میں اب متعدد نئے انسانی حقوق کو شامل کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ اصل نقطہ ہے ''آزادی''، ''آزادی'' اور ''آزادی''۔ میں آپ کی رائے کا احترام کروں آپ میری بات تحمل سے سنیں۔ آپ مجھ سے اختلاف کریں لیکن مجھے بھی اختلاف اور تنقید کا حق عطا کریں۔ میں آپ کے عقیدے، نجی زندگی اور ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کروں گی اور نہ کوئی دوسرا میرے ساتھ اس نوعیت کا سلوک روا رکھے۔ نتیجہ اخذ کیجیے تو یہی سچ سامنے آتا ہے کہ تنوع کا احترام اور آزادی کا احترام حقوق انسانی کا اصل جوہر اور وصف ہے ۔

یہ دونوں کام کیسے ہو سکتے ہیں؟ جبر سے؟ ہرگز نہیں۔ مذہبی اور سیکولر آمریتوں، مذہبی ریاستوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے نظاموں میں مالی اور معاشی تقاضوں کو پورا کیا گیا لیکن انسانوں کی آزادی چھین لی گئی۔ ثابت ہوا کہ محض غربت کا خاتمہ، حقوق انسانی کے احترام کو یقینی بنانے کا واحد ذریعہ نہیں ہے ۔

تو پھر کیا ہونا چاہیے، کیا کچھ کیا جانا چاہیے؟

میرے خیال میں ہمیں ، جو حقوق انسانی کی جدوجہد میں خود کو پیش پیش سمجھتے ہیں، ایک منصفانہ اور مہذب سماج کے قیام کے لیے شعور اور آگاہی کو بیدار کرنا ہو گا ، اس کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ منصفانہ سماج ہو گا تو ممکن ہے کہ غربت اور محرومی رہے، معاشی پسماندگی بھی نظر آئے لیکن انسانوں کو یہ یقین ہو کہ یہ سماج، یہ ملک اور یہ دنیا ہم سب کی ہے اور اس میں کسی کے ساتھ کسی بھی نوعیت کی ناانصافی نہیں ہو گی۔ سماج منصفانہ ہو گا تو رفتہ رفتہ وہ مہذب بھی ہوتا چلا جائے گا۔ انسان ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں گے۔

تنوع اور سماج کی رنگا رنگی ان کو اچھی لگے گی، وہ اس کا احترام کریں گے، اس پر فخر کریں گے۔ ہزاروں برسوں کی محرومی اور غربت ایک منصفانہ سماج میں راتوں رات ختم نہیں ہو گی لیکن کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ انسانوں میں بہتر اور مزید بہتر دنیا کی ایک امید پیدا ہو جائے گی۔ جب ایسا ہو گا تو حقوق انسانی میثاقوں، معاہدوں، آئینی دستاویزوں اور قانون کی بھاری بھرکم کتابوں میں مقید نہیں رہیں گے بلکہ وہ آزاد ہو کر ہر ذہن اور دل میں بسیرا کر لیں گے جو ان کا اصل مسکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں