دھرنے اور لڑنے کی سیاست چھوڑیں

حکومت اور سیاست، وحشت سے نہیں حکمت سے کی جاتی ہے، یہ بچوں کا کھیل نہیں سنجیدہ کام ہے۔


Zahida Hina November 11, 2014
[email protected]

حکومت اور سیاست، وحشت سے نہیں حکمت سے کی جاتی ہے، یہ بچوں کا کھیل نہیں سنجیدہ کام ہے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہر عمل تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ غلط عمل کو چھوٹ اور استثنیٰ نہیں ملتا، جمہوری نظام میں عوام ناپسندیدہ حکمرانوں کو ووٹ کے ذریعے فارغ کرتے ہیں، آمریت ہو تو آمر کو رسوا ہوکر رخصت ہونا پڑتا ہے ۔

پاکستان کے آمروں اور بیشتر سیاستدانوں کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔ 34 سال فوجی آمر ملک پر مسلط رہے، ان کے دور میں کیا کیا المیے، سانحے اور رسوائیاں نہیں ہوئیں ۔ سیاسی حکومتیں اقتدار میں آئی نہیں لائی گئیں، لانے والے ان کی ڈوریاں ہلاتے تھے، جب ان میں سے کسی نے کٹھ پتلی بننے سے انکار کیا تو اسے نکال باہر کیا گیا اور تمام ناکامیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔

پچھلے6 برسوں میں حالات تبدیل ہوئے،منتخب حکومتوں نے اپنے قدم جمانے شروع کیے اور ڈوریاں ہلانے والوں نے بھی احتیاط سے کام لینا شروع کیا۔ یوں لگا جیسے پاکستان 6 دہائیوں بعد بالآخر جمہوری راستے پر گامزن ہو گیا ہے لیکن جلد ہی یہ خوش فہمی دور ہو گئی۔ اس مرتبہ سیاسی عدم استحکام کسی اور نے نہیں بلکہ ان سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے پیدا کر دیا جن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں۔

ابتدا میں بہت سے لوگوں کو یہ گمان گزرا کہ ان انقلابی رہنماؤں کے ہاتھوں میں واقعی جادو کی چھڑی آ گئی ہے اور وہ راتوں رات پاکستان کا مقدر بدل کر رکھ دیں گے، لیکن بعض واقعات ایسے رونما ہوئے جن سے یہ خوش گمانی ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گئی۔

حکومت اور ریاست میں فرق کا خیال نہ رکھا جائے تو نقصان ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف اور ان کی حکومت سے دشمنی کی نفسیاتی کیفیت بہت سنگین ہو گئی ہے ۔ بغیر کسی ثبوت کے تواتر سے الزامات لگانا اور انھیں مسلسل دہراتے رہنا ایک ایسا عمل بن چکا ہے جس کا سیاسی فائدہ الٹا نواز شریف کو پہنچ رہا ہے۔ وزیر اعظم کو ہدف بنائے رکھنا اور اپنی ضد میں ہر حد کو پار کر لینا یقیناً کوئی بہت مستحسن بات نہیں ہے، کیونکہ قانون کا راستہ اختیار کیے بغیر کسی ملک کے منتخب جمہوری وزیر اعظم کی کردار کشی سے ملک کی نیک نامی مجروح ہوتی ہے۔

ہر اس ادارے، شخصیت اور سیاسی جماعت کو بدترین تنقید کا نشانہ بنانا جو آپ کے خیالات سے اتفاق نہ کرے، مہذب سیاست میں ایک غیر شائشہ اور غیر ذمے دارانہ طرز عمل تصور ہوتا ہے۔ ایسا کرنے والوں کی قدر و منزلت اور مقولیت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ذہین سیاستدان ایسا انداز اختیار نہیں کرتے کیونکہ یہ رویہ ان تمام لوگوں کو متحد کر دیتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں لیکن مشترکہ طور پر سنگین حملوں اور الزامات کی زد میں آنے کے باعث یکجا ہو جاتے ہیں ۔

اس کا دوسرا منفی پہلو یہ ہوتا ہے کہ نفرت، طیش اور بلا ثبوت الزامات کی رٹ لگانے سے لوگ بیزار ہونے لگتے ہیں اور سیاسی گراف گرنے لگتا ہے تو آپ کے سیاسی حلیف بھی سیاسی نقصان سے بچنے کے لیے اپنا راستہ رفتہ رفتہ الگ کرنے لگتے ہیں جیسا کہ حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔

جماعت اسلامی ایک تجربہ کار اور پرانی سیاسی جماعت ہے، اپنا نفع نقصان اچھی طرح جانتی ہے۔ جماعت کے امیر سراج الحق کو لانگ مارچ کے آغاز سے بخوبی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ملکی، علاقائی اور عالمی حالات پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور تبدیلی کے حق میں قطعی نہیں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے پہلے لانگ مارچ اور دھرنوں کا حصہ بننے سے انکار کیا، پھر خود کو اس سیاسی مہم جوئی سے الگ کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ سراج الحق جیسے سینئر اور سنجیدہ دوستوں کا اشاروں کنایوں میں کیا گیا اختلاف بھی برداشت نہیں کیا گیا اور ایک پرجوش تقریر میں انھیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے طنزاً کہا گیا کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کر دیں ۔

یہ ہدایت ان لوگوں کی جانب سے آ رہی تھی جو جمہوری قواعد اور ضوابط، سیاسی اور ذاتی اخلاقیات اور مہذب سیاست کے تمام اصولوں کی دھجیاں اڑا کر سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس رویے سے تنگ آ کر جماعت کے امیر کا تازہ ترین بیان یہ سامنے آیا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے فیصلوں میں بالکل آزاد ہیں اور ہمارا اتحاد صرف کے پی کے تک محدود ہے۔

مہم جوئی، انتہا پسندی اور اپنے سوا سب کو غلط اور باطل سمجھنے کے خطرناک رویے سے نہ صرف سیاسی مخالفین کو اپنے خلاف متحد کر دیا گیا ہے بلکہ آفتاب شیر پاؤ اور سراج الحق جیسے متوازن حلیفوں اور دوستوں کی حمایت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ سیاسی خودکشی پر مبنی اس دھرنے اور لڑنے کی اس سیاست کے نتائج دیکھ کر پارٹی کے بہت سے رکن قومی اسمبلی بھی گھبرا گئے اور ان دنوں مستعفی ہونے سے دامن بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

دھرنے اور لڑنے کی سیاست، صرف داخلی سطح تک محدود رہتی تب بھی غنیمت تھا۔ جس ملک کے بارے میں یہ تاثر ملا کہ وہ نواز شریف کی جمہوری حکومت کی معزولی کا حامی نہیں ہے اس کے بارے میں غیر محتاط الفاظ استعمال کیے گئے۔ اس انتہا پسندانہ سیاست کی حمایت کا زور اس وقت ٹوٹنا شروع ہوا جب چینی صدر کو اپنا دورہ پاکستان دھرنوں کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا ۔ وقت کے ساتھ حقائق سامنے آتے جا رہے ہیں ۔

یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے اور دھرنا شروع کرنے کے وقت تک چین کے صدر کا یہ اہم ترین دورہ ملتوی نہیں ہوا تھا۔ اطلاعات مظہر ہیں کہ جب اربوں ڈالر کے مجوزہ معاہدوں کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک چینی وفد اسلام آباد پہنچا تو دھرنے والے اچانک پہلے سے طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہو گئے اور ایسا پرخطر ماحول پیدا ہوگیا کہ اس چینی وفد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ائیرپورٹ پہنچانا پڑا۔ نواز شریف پسند نہیں، پارلیمنٹ جعلی ہے، مینڈیٹ چرایا گیا ہے ۔

الیکشن کمیشن سمیت تمام اداروں نے نواز شریف سے گٹھ جوڑ کر لیا تھا، کسی پر اعتبار نہیں، کوئی ثالث قبول نہیں، یہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن اس کا یہ مطلب کہاں ہو گیا کہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جائے اور چین جیسے عظیم دوست ملک سے ہونے والے بڑے بڑے منصوبوں کے معاہدوں کو خطرے سے دوچار کر دیا جائے۔ کم سے کم پاک چین تعلقات کا خیال رکھا جاتا، یہ سوچا جاتا کہ یہ سرمایہ کاری پاکستان میں ہو رہی ہے، کارخانے، بجلی گھر اور شاہراہیں پاکستان میں بنیں گی۔ نواز شریف پسند نہیں تو کیا ملک میں سرمائے کو آنے سے روک دیا جائے؟ ان تمام باتوں پر ذرہ برابر غور نہیں کیا گیا اور کنٹینر پر نمودار ہو کر وہ کچھ کہا گیا جو ملک کے لیے نقصان دہ تھا۔

حکومت اور ریاست میں فرق نہ کرنے والے ملک کیسے چلائیں گے؟ لوگوں نے یہ سوچا اور دھرنے اور لڑنے کی سیاست کو مسترد کرنا شروع کر دیا۔ اس مہم کا زور ٹوٹا ، علامہ صاحب نے بھی بستر سمیٹا اور کینیڈا کے ریسٹورنٹ میں برگر نوش فرماتے ہوئے کسی ٹی وی اسکرین پر دیکھے گئے، جاوید ہاشمی پہلے ہی سازش بے نقاب کر چکے تھے، سراج الحق صاحب نے اعلان کیا کہ ''لندن پلان ناکام'' ہو گیا ہے تو ملکی حالات میں استحکام پیدا ہونے لگا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا قصد کیا تا کہ وقت اور اعتماد کا جو نقصان ہوگیا ہے اس کی فوری تلافی کی جائے۔ چین کی حکومت نے بھی بڑے دل اور ظرف کا مظاہرہ کیا، اس ظرف اور بڑے پن کا مظاہرہ جو ہمارے اپنے کرنے میں ناکام ہوئے تھے۔ چینیوں نے وزیر اعظم پاکستان کو ایپک کانفرنس میں شرکت کی خصوصی دعوت دی اور ان کی موجودگی میں40 ارب ڈالر کے 19 معاہدوں پر دستخط کر دیے۔ کچھ معاہدوں پر دستخط اس وقت کے لیے اٹھا رکھے گئے جب چینی صدر پاکستان کا دورہ کریں گے۔

ایک طرف چین نے پاکستان دوستی کا یہ اعلیٰ مظاہرہ کیا اور دوسری طرف ہمارے ''قومی رہنما'' ہیں جنہوں نے ٹھیک اس دن جب اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہو رہے تھے کنٹینر پر کھڑے ہو کر خوشی کے ماحول کو مکدر کیا اور الزام لگایا کہ وقت بتائے گا کہ '' نواز شریف چین کیوں گیا ہے، پاکستان کی معیشت گر رہی ہے اور نواز شریف کا کاروبار اوپر جا رہا ہے''۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان معاشی بحرانوں سے نکلنے، دہشت گردی کو ختم کر کے ملک میں استحکام لانے کی جنگ میں مصروف ہے تو کیا اس نوعیت کی تقریر کی جانی چاہیے تھی؟ اس سے دنیا کو کیا یہ پیغام نہیں جائے گا کہ جس ملک میں چین جیسے دوست ملک کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو کیا وہاں ہمیں اپنا سرمایہ لگانا چاہیے؟

ان رہنماؤں سے گزارش ہے کہ آپ اپنے دوستوں کی سنیں، پارٹی کے اندر اور باہر اپنے بہی خواہوں کے مشوروں پر کان دھریں اور اب دھرنے اور لڑنے کی سیاست چھوڑ دیں اور اگر یہ نہیں کرنا تو دھرنا حکومت کے خلاف دیں، لیکن ملک اور اس کی معیشت کو تو بخش دیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں