آرٹ کی آگ

عمر قاضی  اتوار 15 فروری 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

روس کے تاریخی شہر سینٹ پیٹرس برگ کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ وہاں پر مصوری کی عجیب نمائش منعقد کی گئی جس میں مصور اپنی تخلیقات پیسوں کے بجائے شراب کے بدلے فروخت کرتے رہے۔ یہ خبر بہت سارے حوالوں سے مجھے بے حد اہم محسوس ہوئی اس کی پہلی اہمیت یہ ہے کے ہم اس دورکو فراموش کرچکے ہیں جب لوگ چیزوں کو پیسوں میں بیچنے کے بجائے ایک چیزکے بدلے میں دوسری چیز دیتے یا لیتے تھے۔

معاشیات کی تاریخ میں اس دورکو بارٹرسسٹم کا دورکہا جاتا ہے۔ مگر ہم اس دورکو بہت پیچھے چھوڑآئے ہیں اور روس کے فنکاروں نے اپنے شہ پاروں کے بدلے شراب کی مانگ کرکے اس دور کی یاد منائی ہے جب پیسوں کی حکمرانی نہیں بلکہ محنت کا بول بالا تھا ۔ یہ ایک عظیم دور تھا مگر ہم اس دور کو تاریخ کے اوراق میں دفن کر چکے ہیںمگر کبھی کبھی مدفون شہروں کی طرح مدفون روایات کا ظہور دل کو ایک پر سکون خوشی سے آشنا کر دیتا ہے۔ روس میں ہونے والی اس نمائش نے ہمارے دل و دماغ تاریخ کی ایک کھڑکی کھول دی ہے اور ہم اس کھڑکی سے بہت دور تک دیکھ سکتے ہیں۔اس منظر میں ہمیں سائنس کی ترقی اورآرٹ کا زوال بھی نظر آتا ہے۔

یہ بات انسان کے مفاد میں ہے یا نہیں یہ ایک قابل بحث موضوع ہے مگر یہ طے ہے کہ انسان نے آگے بڑھنے کی کوشش میں بہت کچھ گنوایا ہے۔اگر ہم اس دورکو یادکریں جس میں انسانوں کے لیے آگ جلانے کا کام بہت مشکل ہوا کرتا تھا اور اب ہمیں آگ جلانے کی تکلیف اٹھانا نہیں پڑتی کیوں کے ہم اپنے باورچی خانے میں چولہے کا صرف بٹن آن کرتے ہیں تو آگ کا شعلہ خود بہ خود نمودار ہو جاتا ہے۔آگ جلانا کبھی بہت بڑی بات ہوا کرتی تھی مگر اب سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے اس کا تصور بھی بہت مشکل ہوچکا ہے۔

وہ دن کتنے عجیب تھے جب انسان ایک دوسرے کی خبر معلوم کرنے کے لیے خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے مگر اب موبائل نیٹ ورک کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں لیکن اہم بات کہ کچھ دوریاں قربت کا سبب بنتی ہیں اورکچھ قربتیں دوریوں کا باعث بن جاتی ہیں۔تو ہم بات کر رہے تھے، اس ترقی کی جس پر تلخ طنزکرتے ہوئے فرانس کے مشہور مفکرالبرٹ کامو نے لکھا تھا کہ یہ ترقی نہیں بلکہ تنزلی ہے ۔

یہ کتنی عجیب بات ہے ہمارے فولڈرز فوٹو سے بھرے ہوئے ہیں کبھی تصویر ایک خواب ہوا کرتی تھی مگر اب ہر شخص کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل میںایک کیمرا نصب ہے بلکہ یہ دکانوں شاپنگ سینڑوں کالجز، دفاتر بلکہ شاہراہوں پر بھی ہمیں یہ اطلاع ملا کرتی ہے کہ کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔مگر ہم اس بات کو کیوں فراموش کریں کہ جب تصاویر اتنی آسانی سے نہیں بنا کرتی تھی تب انسان مصوری کیا کرتا تھا۔یہ دور پکچرز کا ہے پینٹنگز کا نہیں مگر جو بات پینٹنگز میں ہے وہ بات پکچرز میں کہاں؟

تصویر انسان کی خارجی حسن کا عکس پیش کرتی ہے جب کے پینٹنگ انسان میں داخلی جذبات اور احساسات بھی اپنا عکس پیش کرتے ہیں۔ پیکچرز ایک ادھوری تصویر ہے جب کہ پینٹنگ ایک پوری اور مکمل مورت ہوا کرتی ہے اور اس راز سے بہت کم آگاہ ہیں کہ بہت سارے مصور صورتیں تو دوسرے لوگوں کی تو اپناتے ہیں مگر ان میں اصل عکس ان کی اپنی شخصیت کا ہوا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قدیم سندھ کی رانی روماسا نے ایک سنگتراش سے کہا کہ آپ میرا مجسمہ بناؤ گے تو اس نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں دوسرے لوگوں کے مجسمے نہیں بناتا اس جواب پر روماسا نے کہا تھا کیوں جھوٹ بول رہے ہو؟

میں نے تمہیں بہت سارے لوگوں کے مجسمے بناتے دیکھا ہے اس پر اس سنگتراش نے جواب دیا کہ وہ مجسمے میرے ہوتے ہیں البتہ صورتیں ان لوگوں کی ہوا کرتی ہیں۔ مگر ہم بات تو شراب اور آرٹ کی کر رہے تھے۔ روس میں منعقد ہونے والی اس عجیب چیز کی نمائش نے ہمیں اس بات کی یاد دلائی ہے کہ ایران میں دو مصور ایک شراب خانے میں آئے اور شراب خانے کے مالک سے کہنے لگے کہ ہمیں شراب چاہیے مگر ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اس پر شراب خانے کے مالک نے کہا کہ تم مجھے شراب کے بدلے کیا دے سکتے ہو؟

مصوروں نے کہا ہم تمہیں تصویریں بنا کر دیتے ہیں۔ پھر ایک مصور نے شراب خانے کی دیوار پر انگوروں کی ایک ایسی تصویر بنائی جس کو پرندے اپنی چونچیں مارنے لگے۔ شراب خانے کے مالک نے شراب کی ایک بوتل ایک مصور کو دی اور دوسرے مصور کی طرف دیکھنے لگا۔ اور دوسرے مصور نے ایک بہت بڑے پرندے کی تصویر بنائی اور شراب خانے کے مالک سے شراب کی بوتل لی اور اپنے نقش کیے ہوئے پرندے پرسوار ہوکر اڑ گیا۔

روس کے مشہور شہر سینٹ پیٹرس برگ میں ہونے والی اس نمائش کی یہ خبر پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ ان روسی مصوروں نے ایران کا یہ عجیب افسانہ پڑھا تھا؟ اگر نہیں تو پھر انھیں اپنے آرٹ کے بدلے شراب لینے کا خیال کیسے آیا؟کیا خیالات بھی تخلیقی تصوروں کی طرح نازل ہوتے ہیں یا ایک تخلیق کارکا خیال بذات خود ایک تصور ہوا کرتا ہے؟آرٹ کی چوٹ بہت عجیب ہوا کرتی ہے۔ ہم سائنس کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں آرٹ کا احساس بلکہ آرٹ کا احساس زیاں محسوس نہیں ہوتا۔

مگر اس وقت ہم دہشت گردی کے حوالے سے حالت جنگ میں ہیں۔اس حوالے سے مجھے خیال آتا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سائنس کو بہت استعمال کیا ہے مگر ہم نے ابھی تک اپنے معاشرے کو دہشت سے محفوظ کرنے کے لیے آرٹ سے کوئی مدد نہیں لی۔اگر ہم دہشتگردی کے خلاف آرٹ کو استعمال کریں تو شاید ہمیں وہ نتائج حاصل ہوں جن کے لیے برسوں سے حیران اور پریشان ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ہم سائنس کا استعمال نہ کریں۔ ہم سائنس کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہمارے لیے سائنس کے بغیر سانس لینا بھے محال ہے۔ ہم سائنس کو بھلے سینے سے لگائے رکھیں مگر ہم آرٹ کو فراموش نہ کریں۔ کیوں کے یہ آرٹ ہی ہے جو ہمیں زندگی کی اصلیت اور امن کی اہمیت سمجھاتا ہے۔ ہم آرٹ کو بھول کر سائنس کی پر پیچ گلیوں میں بھٹک جائیں گے بلکہ ہم بھٹک چکے ہیں۔

اب ہماری حالت اس چھوٹے بچے جیسی ہے جو بندرکا کھیل دیکھتے ہوئے گھر کی گلی سے دور نکل آتا ہے جب شام کا سورج ڈھلنے لگتا ہے تب اسے اپنے گھر کی یاد ستاتی ہے۔ ہم نے بھی سائنس کے بندر کے پیچھے اپنے گھر کا راستا بھولا ہے اور اب اس دور کی شام اس دہشتگردی کی شام لہو جیسا شفق ہمیں اپنے آرٹ والے گھر کی یاد دلاتا ہے۔ وہ آرٹ صرف مصوری تک محدود نہیں بلکہ شاعری، افسانہ اور ڈرامے کے دائرے میں بھی اس آرٹ کی آگ دہک رہی ہے ۔ ہم دہشت گردی کی آگ کو آرٹ کی آگ سے بھسم کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔