گڑوی والیاں

عمر قاضی  پير 23 فروری 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

جی ہاں! میں گڑوی کا ذکر کر رہا ہوں جن کو وہ عورتیں سکے کے ساتھ بجاتی تھیں اور ایسے گیت گاتی تھیں جو پردیسی پرندوں کی طرح نہ معلوم کس پارچلے گئے۔ مجھے افسوس اس بات کا نہیں کہ اب وہ عورتیں موجود نہیں جن کانوں میں چاندی کے جھمکے جھولا کرتے تھے۔ مگر مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ وہ گیت نہیں رہے جنہیں گمنام شاعر لکھا کرتے تھے۔

جی ہاں! میں ان لوک گیتوں کی بات کر رہا ہوں جنہیں پیسوں کے لیے نہیں لکھا جاتا تھا۔ وہ گیت پیارکے لیے لکھے جاتے تھے۔ جب بھی پانچ دریاؤں کی دھرتی پر کسی نوجوان کے دل میں محبت سیلاب بن جاتی تھی تو وہ سروں کی لہروں پر وہ گیت امڈ آتے تھے جن گیتوں میں ایک معصومیت تھی۔ ان گیتوں میں تھا تو پیار مگر وہ پیار بہت شرمیلا ہوا کرتا تھا۔ اس پیار کی باتوں میں جدائی کی ایک میٹھی میٹھی آگ جلا کرتی تھی اور ہم اس آگ کو اپنے اندر سما کراس جھوٹ کو جلا دیتے تھے جو جھوٹ ہمارے اندر یہ زمانہ بھرتا تھا۔ اب تو زمانہ زیادہ جھوٹا ہو گیا ہے مگر وہ گیت نہیں جو ہمارے دل کو صاف کر سکیں۔

فیض صاحب نے لکھا ہے کہ:

’’بیتا دید امید کا موسم خاک اڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل کب برکھا برساؤ گے؟‘‘

واقعی اس دید اور اس امید کا موسم توکب کا بیت چکا۔ اب تو ہماری آنکھوں میں خاک سی اڑتی ہے مگر اس خاک کو دھونے کے لیے ہم اگر رونا چاہیں تو وہ آنسو کس طرح امڈیں جو صرف پیار کی باتوں کی وجہ سے آنکھوں میں بھر آتے تھے۔

’’یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گذرا
کہ اس نے حال جو پوچھا تو آنکھ بھر آئی‘‘

اب لوگ حال پوچھتے ہیں تو انسان اداکاری کے ساتھ جواب دیتا ہے۔ مگر جب محبت ہوتی تو انسان اداکاری نہیں کرتا۔ اس وقت بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر اشک رواں ہوجاتے ہیں۔ محبت کا موسم ساون کا موسم ہوتا ہے۔ اب تو ہمارے دل میں سوکھا ہے۔ روح کے ریگستان پر صرف خاک اڑتی ہے۔ اب محبت ایک اداکاری بن چکی ہے۔ اس میں وہ معصومیت نہیں رہی جس کے لیے انسان جیتا بھی تھا اور مرتا بھی تھا۔

لوگ اب بھی محبت کرتے ہیں اور ٹھنڈی سانسیں بھی بھرتے ہیں مگر اس کا دورانیہ ایک فلم جتنا ہوا کرتا ہے۔ فلم ختم ہوئی اور انسان بھول بھی گیا۔ اب ہم بھول کی دھول میں زندہ رہنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ مگر اس دور میں جوانی کی تو کیا وہ بچپن کی محبت میں یاد رہا کرتی تھی جس بچپن میں انسان کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ محبت کس پرندے کا نام ہے۔ مگر دل میں ایک بے چینی اور آنکھوں میں نمی دیکھ کر لوگ سمجھ جاتے تھے کہ اس کے ساتھ پیار کا معاملہ ہے۔ اب پیار صرف ایک بات ہے اور بہت معمولی بات! مگر اس دور میں پیار ایک داستان ہوا کرتی تھی۔ سردی کی راتیں اپنے سارے الاؤ جلا کر ختم ہو جایا کرتی تھیں مگر پیارکی وہ داستان ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ اس پیار میں ہم نے چین اور سکون کھو کر کیا کیا نہ پایا تھا۔

اب بھی ہمارے پاس نہ چین ہے نہ سکون مگر محبت بھی نہیں۔ اب ہم کل کے مقابلے میں کنگال ہیں۔ ہم اپنا دل کس کو دکھائیں جس میں یادوں کی چتائیں جلتی ہیں اور جن میں ہم مسلسل سلگتے رہتے ہیں ۔ ہم جو اس ماضی کو کبھی نہیں بھول سکتے جو ہماری یادوں میں ایک ایسی تمنا کا عکس بن کر لہراتا ہے جس تمنا کی تلاش میں ہمارے بال سفید ہوگئے مگر ہم نے اس تمنا کا اب تک پیچھا نہیں چھوڑا اور ہمیں جب بھی کسی نے یہ نصیحت کی کہ اس محبت میں کیا رکھا ہے؟ اس کو بھول جاؤ! تو ہم نے ہمیشہ یہ سوچا ہے کہ اس زمانے میں کیا رکھا ہے؟اس کو کیوں یاد رکھا جائے؟

اور جب ہم محبت کرتے تھے تب پورا ماحول ہمارا ساتھ دیا کرتا تھا۔ میں نے بہت سارے برسوں سے چاند کو چاندنی میںجلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مگر جب محبت کا دور تھا تب چاند اپنی چاندنی میں جلتا بھی تھا اور ان عاشقوں کے ساتھ چلتا بھی تھا جنہیں محبت کے بعد گھر راس نہیں آیا کرتے تھے۔ وہ عاشق ہمیشہ ہواؤں کے معرفت اپنے محبوب کو پیار کا پیغام بھیجا کرتے تھے۔ وہ ہوائیں نہ معلوم کہاں کھو گئیں؟ اب تو صرف ایک گھٹن ہے۔ وہ دورکتنا خوبصورت تھا جب ہم جس طرف دیکھا کرتے تھے ہمیں محبت نظر آتی تھی اور ہم جس آواز کو سنا کرتے تھے اس میں محبت کے سر پھوٹتے تھے۔ وہ محبتوں کا دور تھا۔ وہ تمناؤں کا دور تھا۔ کیوں کہ وہ معصومیت کا دور تھا۔ اس دور میں حسن اس قدر چالاک نہ تھا اور نہ عشق عیار تھا۔ جس طرح علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ:

’’نہ وہ عشق میں رہی گرمیاں نہ وہ حسن میں رہی شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں!‘‘

اب محبت مردہ پھولوں کی سیمفنی بن چکی ہے۔ مگر ایک دور ایسا تھا جب محبت کے گلاب ہر رخ میں کھلا کرتے تھے اور ہمیں ہر راہ پر محبوب ملا کرتے تھے۔ اب نہ وہ سفر ہے اور نہ محبت کی وہ منزل! اب تو سب کچھ سراب کی طرح نظر آتا ہے۔ اس لیے ہم محبت کو فراموش کرکے اب دنیاداری کا پتہ پوچھتے ہیں۔ مگر اس دنیا کی راہوں پر جب ہم چلتے چلتے تھک جاتے ہیں تب ہمیں اپنے ماضی سے وہ خوبصورت آوازیں آتی ہیں جن میں پیار کی ایک پکار ہوا کرتی تھی اور پیار کی ان پکاروں میں ایک خوبصورت سی صدا وہ بھی تھی جو ان گڑوی والی عورتوں کے ہونٹوں سے نکلتی تھیں جن گڑوی والی عورتوں میں سے وہ عظیم گلوکارہ بھی نکلی جس کو ریشماں کے نام سے پوری دنیا نے پیار اور عزت دی۔ وہ ریشماں موسیقی کے کسی مکتب سے نہیں آئی۔ مگر وہ اس دنیا سے آئی جو بنجاروں کی دنیا تھی اور اس ریشماں نے جب اپنی آنکھیں موند کر یہ لوک گیت گایا کہ:

’’نی میں چوری چوری تیرے نال
لا لیاں انکھاں وے
نی میں چوری چوری‘‘

تب سننے والوں کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے دل کی صدا سن رہے ہیں۔ کیوں کہ ایک تو گڑوی والیوں کی آوازوں میں معصومیت تھی اور دوسرا یہ کہ وہ جن شاعروں کے کلام گایا کرتی تھیں ان میں ان گیتوں میں محبت کی ایک ایسی امانت تھی جس میں کبھی خیانت کا خیال تک نہیں آیا۔اب ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں صرف نقالی ہے اور ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے خوبصورت کلچر کو کمرشلائزیشن نے کھوکھلا کردیا ہے۔ یہ کاروباریت ایک دیمک ہے اور اس نے صرف معصومیت کو ہی نہیں بلکہ اس محبت کو بھی چاٹ لیا ہے جس سے گیت جنم لیتے تھے۔

گڑوی والیاں تو اب بھی ہیں مگر اب وہ گیت نہیں جو ایک مخصوص کیفیت پیدا کرتے تھے۔ اب وہ گڑوی والیاں انڈین اور انگلش گیت گاتی ہیں اور پنجابی موسیقی پر وہ گیت سماعتوں پر ظلم کرتے ہیں۔

کون کہتا ہے کہ ہم نے ترقی کی ہے؟ ہم ان گیتوں سے بچھڑ گئے ہیں جن گیتوں کو گڑوی والیاں ہمیں سنایا کرتی تھیں تو ہمارے چہرے پر پرکشش اداسی چھاجاتی تھی اور اب جب ہم گڑوی والیوں کے ہونٹوں پر انڈین اور انگلش گیت سجے دیکھتے ہیں تو ہمیں ہنسی آجاتی ہے۔

محبت کو مذاق بنانے والی تبدیلی کو آپ ترقی کہیں تو کہیں۔ میں تو اب بھی ماضی کے جھرونکوں سے وہ صدائیں سن رہا ہوں ہمیں بے حد معصومیت سے بھاتی تھیں کہ:

’’نی میں چوری چوری تیرے نال
لا لیاں انکھاں وے
نی میں چوری چوری‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔