کمیاب ہوتا آب، پانی کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹ

محمد عاطف شیخ  اتوار 22 مارچ 2015
 پانی کی بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات اور غیر دانشمندانہ استعمال کی وجہ سے دنیا کے اکثر خطوں میں کمیاب ہوتا جا رہا ہے ۔فوٹو: فائل

پانی کی بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات اور غیر دانشمندانہ استعمال کی وجہ سے دنیا کے اکثر خطوں میں کمیاب ہوتا جا رہا ہے ۔فوٹو: فائل

کرہ ارض پر بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات نے قدرتی وسائل کو جہاں شدید دباؤ کا شکار کیا وہیں انسان کی بعض وسائل کے استعمال میں فیاضی کی روش نے ان وسائل کو معدومی کے خطرے کی طرف دھکیلنا شروع کردیا ہے۔

پانی کا شمار بھی ان ہی قدرتی وسائل میں ہوتا ہے جو بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات اور غیر دانشمندانہ استعمال کی وجہ سے دنیا کے اکثر خطوں میں کمیاب ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں 1.2 ارب افراد ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں آب کمیاب ہے اور دنیا کے 43 ممالک کے 70 کروڑ افراد پانی کی قلت (Water Scarcity) یعنی 1000 کیوبک میٹر فی کس سالانہ سے کم پانی کی دستیابی کا شکار ہیں۔ Meplecroft نامی بین الاقوامی ادارے کے واٹر سکیورٹی ریسک انڈکس 2010 کے مطابق (Least secure supplies of water) کے حامل دنیا کے پہلے 10ممالک میںصومالیہ پہلے اور شام دسویں نمبر پر ہے ۔ پاکستان اس انڈکس میں ساتویں نمبر ہے۔ اقوام متحدہ نے اس امر کی پیشن گوئی کی ہے کہ 2025 تک 1.8 ارب افراد ایسے ممالک یا خطوں میں آباد ہوں گے جہاں پانی کی سنگین قلت (Absolute Water Scarcity) ہوگی جبکہ دنیا کی دوتہائی آبادی پانی کی کمی کے دباؤ (Under Stress Conditions)کے شکنجے میں جکڑی ہوگی۔

اس صورتحال میں ماہرین نے پانی کو ـ ’’نیلے سونے‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اور اس امر کی پیشن گوئی کی ہے کہ مستقبل قریب میں کاروبار اور جنگوں کی بنیادی وجہ پانی ہوگا۔اس لئے پانی کے دانشمندانہ استعمال، اس سے متعلقہ بہتر پالیسیوں، قوانین اور اقدامات کے عمل کو تقویت دینے کی غرض سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن کسی خاص عنوان کے تحت منایا جاتا ہے۔ اِمسال یہ دن ’’ پانی اورپائیدار ترقی‘‘  کے عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے۔کیونکہ اس وقت دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے خوراک کی اضافی پیداوار کے واسطے پانی کی ضرورت، توانائی کے اضافی ذرائع کے لئے پانی اور پانی کے حصول کے لئے توانائی کے اضافی ذرائع کی ضرورت، پھیلتے ہوئے شہروں کی اضافی پانی کی ضروریات،صحت کے لئے پینے کے صاف پانی کی باآسانی دستیابی، صفائی ستھرائی کے لئے پانی کی اضافی طلب اور وسعت اختیار کرتی ہوئی صنعتوں کے لئے پانی کی وافر دستیابی بڑے چیلنجز ہیں۔ جن کی شدت کا کچھ اندازہ اقوام متحدہ کی تیسری ورلڈ واٹر ڈویلپمنٹ رپورٹ 2009 کے ان حقائق سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ دنیا کی آبادی میں ہر سال 8 کروڑ (80 ملین) افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جنہیں ہر سال 64 ارب کیوبک میٹر اضافی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

اور اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل فنڈ برائے زرعی ترقی (IFAD)کا کہنا ہے کہ 2025 تک دنیا کے پانی کے وسائل کو ایسے زرعی نظام کی معاونت کرنا ہوگی جو اضافی 2.7 ارب افراد کی خوراک اور دیگر ضروریات کو پورا کرسکے۔کیونکہ ماہرین کے مطابق ایک شخص کی یومیہ پینے کے لئے پانی کی ضرورت 2 سے 4 لٹر ہے لیکن ایک فرد کی روزانہ کی خوراک کی پیداوار کے لئے 2000 سے5000 لٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ اور 500 گرام پلاسٹک کی تیاری کے لئے 91 لٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا میں پانی کا 70 فیصد زراعت، 22 فیصد صنعت اور 8 فیصد گھریلو استعمال میں آرہا ہے اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق دنیا میں قابلِ استعمال تازہ پانی کی کل مقدار 2 لاکھ مربع کلومیٹرز ہے۔ جو تازہ پانی کے وسائل کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ جس کا 54 فیصد انسانی استعمال میں آرہا ہے۔

دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے فی کس پانی کی دستیابی میں 50 سالوں کے دوران 60 فیصد کمی آئی ہے۔ جی سی یو نیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق ’’ 1950 میں دنیا میں فی کس پانی کی دستیابی 16800 کیوبک میٹر تھی جو 2000 تک کم ہوکر 6800 کیوبک میٹر ہو چکی تھی اور کمی کا یہ تسلسل تا حال جاری ہے‘‘۔ انسانی دباؤ، ماحولیاتی عوامل اور پانی کے غیر دانشمندانہ استعمال کے باوجود آج بھی دنیا میں اتنی خوراک پیدا کی جا رہی ہے جو ہر کسی کے لئے کافی ہے کیونکہ دنیا کی زراعت 30 سال پہلے کے مقابلے میں آج 17 فیصد زائد کیلوریز فی کس پیدا کر رہی ہے۔ یہ دنیا میں ہر کسی کے لئے اتنی ہے کہ انھیں کم ازکم 2720 کیلوریز روزانہ مہیا کی جاسکیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں اکثر لوگوں کے پاس کاشت کاری کے لئے مناسب زمین اور ضرورت کے مطابق خوراک کی خریداری کے لئے رقم نہیں ہوتی اورخوراک کی قیمتوں میں اضافہ صورتحال کو سنگینی کی جانب لے جا رہا ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق 2011 تک دنیا میں ایک ارب سے کچھ زائدافراد کی روزانہ آمدن 1.25 ڈالر یا اس سے کم تھی جس کی وجہ سے وہ صرف اتنی ہی خوراک حاصل کر پاتے ہیں جو اُن کی روح اور جسم کے رشتے کو قائم رکھ سکے۔ اس صورتحال کی وضاحت اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (FAO) نے یو ں کی ہے کہ 2012-14 تک دنیامیں 80 کروڑ 50 لاکھ افراد کو کھانے کو کم ملتا ہے۔ اگر دنیا کی 7.3 ارب آبادی کے تناظر میں دیکھیں تو دنیا کے 11.3 فیصد افراد بھوک(Hungry) کا شکار ہیں یعنی ہر 9 میں سے ایک شخص یومیہ 1800 کیلوریز سے کم حاصل کر پاتا ہے۔ بھوک کے شکار ان افراد کا دوتہائی (65 فیصد) صرف سات ممالک انڈیا، چین، عوامی جمہوریہ کانگو، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، پاکستان اور ایتھوپیا میں موجود ہیں۔

دنیا میں زراعت کے شعبے میں استعمال ہونے والے70 فیصد پانی سے ایف اے او کے مطابق 27 کروڑ 70 لاکھ ہیکٹر رقبے (Irrigated Land)کو سیراب کیا جا رہا ہے جو دنیا میں زیر کاشت کا 20 فیصد ہے اور دنیا میں خوراک کی پیداوار کا 40 فیصد شراکت دار ہے جبکہ بقایا 80 فیصد زیر کاشت رقبہ بارش کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائیمٹ چینج نے پیشن گوئی کی ہے کہ بارانی کاشت کی پیداوار میں 2020 تک 50 فیصد کمی ہو سکتی ہے جس کی بنیادی وجہ موسم اور بارشوں کے نظام میں تبدیلی یا کمی ہے اور اس سے دنیا میں غربت اور بھوک کے شکار افراد کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ اس کے علاوہ زراعت کو ایک چیلنج سیم وتھور کا بھی ہے کیونکہ آبپاشی کے فرسودہ نظام اورغیر موزوں طریقوں سے ایک طرف پانی کا ضیاع ہو رہا ہے تو دوسری جانب زمین اپنی پیداواری صلاحیتیں کھو رہی ہے۔ ورلڈ واٹر اسیسمنٹ پروگرام کے مطابق دنیا کا 10 فیصد زیر آبپاش رقبہ سیم وتھور کا شکار ہو چکا ہے۔

ماہرین کے مطابق خوراک کی اضافی پیداوار کے لئے پانی کی بڑھتی ضروریات، آبپاشی کا غیر موزوں نظام و طریقہ کار اور کلائیمیٹ چینج اس وقت دنیا میں فوڈ سکیورٹی کے حصول کی راہ میں بنیادی اور اہم چلینجز ہیں اور ان چیلنجز کا شکار بہت سے ممالک فی الوقت فوڈ سکیورٹی کے خطرات کا شکار ہو چکے ہیں ۔ Meplecroft کے فوڈ سکیورٹی ریسک انڈکس کے مطابق دنیا کے 163 ممالک میں سے افغانستان سب سے زیادہ فوڈ سکیورٹی ریسک کا شکار ملک ہے جس کے بعد عوامی جمہوریہ کانگو اور پھر برانڈی ہے۔ پاکستان کا اس انڈکس میں 30 واں نمبر ہے۔ ماہرین اس با ت کی پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان آنے والے وقت میں اس ریسک انڈکس میں شروع کے درجوں پر بھی آسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان جو اس وقت دنیا میں آبادی کے حوالے سے چھٹا بڑا ملک ہے 2050 تک چوتھی بڑی آبادی کا حامل ملک بن جائے گا۔

اکنامک سروے آف پاکستان 2013-14 کے مطابق پاکستان کی آبادی 2014 تک 18 کروڑ 80 لاکھ ہو چکی ہے اور اس میں 1.95 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے ( پاکستان کی آبادی میں ہر سال 35 لاکھ 30 ہزار (3.35 ملین) افراد کا خالص اضافہ ہو رہا ہے ) 2030 تک اس میں36.67 فیصداضافہ متوقع ہے اور یہ بڑھ کر 24 کروڑ ہو جائے گی ۔ اور اُن 7 کروڑ اضافی افراد کی خوراک ، پینے کے پانی اور روزمرہ زندگی کے افعال کے لئے ہمیں اضافی پانی کی ضرورت ہو گی ۔ لیکن وطن عزیز کا پانی کا منظر نامہ (Water Scenario) کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔ واپڈا کی ایک دستاویز ’’ ہائیڈرو پوٹینشل ان پاکستان ‘‘ کے مطابق پاکستان میں 1951 میں فی کس پانی کی دستیابی 5260 کیوبک میٹر سالانہ تھی جو کہ 2012 تک کم ہو کر 1000 کیوبک میٹر فی کس کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔

یوں پاکستان کا شمار پانی کی قلت (Water Scarcity) کے حامل ممالک میں ہونے لگا ہے۔ اور ایسا صرف ملک میں پانی کے ایشو ز پر اتفاق کے فقدان کے باعث ہے جس کی وجہ سے ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر عرصہ دراز سے التواء کا شکار رہی اور پرانی آبی ذخیرہ گاہوں میں پانی کی سٹوریج وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ جب تربیلا، منگلا اور چشمہ ڈیمز بنائے گئے تو اس وقت پاکستان میں پانی کی سٹوریج کی گنجائش 15.74ملین ایکڑ فٹ تھی جو واپڈا کے مطابق 2010 تک کم ہوکر 12.10 ملین ایکڑ فٹ تک آچکی تھی اور 2025 تک یہ ڈیمز 37 فیصد اپنی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کھو دیں گے۔ یعنی 6.27 ملین ایکڑ فٹ پانی کم سٹور کر سکیں گے۔

پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 20.4 فیصد اور 41.33 فیصد لیبر فورس اس شعبے سے وابستہ ہے۔ اس لئے پاکستان میں پانی کا 69 فیصد حصہ زراعت کے شعبے میں استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں 23 فیصد پانی صنعت اور 8 فیصد گھریلو استعمال میں آتا ہے۔ واپڈا کی دستاویز کے مطابق اس وقت پاکستان میں قابلِ کاشت رقبہ 72.70 ملین ایکڑ ہے جس میں سے 52.31 ملین ایکڑ زیر کاشت ہے اور اس میں سے 47.62 ملین ایکڑ رقبہ تمام طرح کے ذرائع سے سیراب کیا جا رہا ہے۔ جبکہ نہری نظام سے27 ملین ایکڑ رقبہ مستفید ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سطح زمین پر دستیاب 155 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے ہر سال 105 ملین ایکڑ فٹ پانی آبپاشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 48 ملین ایکڑ فٹ پانی ٹیوب ویلوں کے ذریعے زمین سے نکالا جاتا ہے، فصلوں کو دیئے جانے والے پانی کا 15 فیصد سے کم حصہ براہ راست بارشوں سے حاصل ہوتا ہے۔

قدرت کی اس بھرپور فیاضی کے باوجود سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کے نہری نظام میں ہر سال تقریباً 65 ملین ایکڑ فٹ پانی یعنی 62 فیصد نہری پانی فصلوں تک پہنچنے سے پہلے ہی سسٹم میں ضائع ہو جاتا ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ فصلوں کو پانی دینے کے فرسودہ طریقے اور ایسی فصلوں کی کاشت جو زیادہ پانی کی مقدار کی متقاضی ہوں ، رہی سہی کسر پوری کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا میں اُن 10 ممالک میں ہوتا ہے جو اقوام متحدہ کی ورلڈ واٹر ڈویلپمنٹ رپورٹ 2009 کے مطابق مقدار کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں۔ ( پاکستان کے علاوہ ان ممالک میں انڈیا، چین، امریکا، جاپان، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، میکسیکو اور روس شامل ہیں) پاکستان کا واٹر پرنٹ جنوب ایشیاء کے چھ ممالک ( جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں) میں دوسرے نمبر پر ہے۔

پہلے نمبر پر مالدیپ پھر پاکستان اور اس کے بعد سری لنکا، نیپال، انڈیا اور بنگلہ دیش ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے انسٹی ٹیوٹ فار واٹر ایجوکیشن کے نیشنل واٹر فٹ پرنٹ اکاؤنٹس 2011 کے مطابق پاکستان کا واٹر فٹ پرنٹ1331 کیوبک میٹر فی کس سالانہ ہے جبکہ دنیا کا واٹر فٹ پرنٹ 1385 کیوبک میٹر فی کس سالانہ ہے۔ اس صورتحال میں پانی کی قلت کا شکار ملک اس طرح پانی کے ضیاع کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ یقینا نہیں لیکن ہم اپنے ہی پاؤ ں پر خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں ۔

اگرچہ ملک میں فی کس روزانہ دستیاب کیلوریز کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے اور یہ اکنامک سروے آف پاکستان 2013-14 کے مطابق1949-50 میں 2078 سے بڑھ کر 2013-14 تک 2450 کیلوریز فی کس روزانہ ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد غذائیت کی کمی اور خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے جس کی وجہ فوڈ سکیورٹی ریسک انڈکس پاکستان میں افراطِ زر، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور غربت کو قرار دیتاہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ 2014 کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 21.4 فیصد آبادی کی روزانہ آمدن محض 1.25 ڈالر یا اس سے کم ہے۔ اتنی قلیل آمدن میں مہنگی خوراک کتنی اور کیسی لی جائے گی اس صورتحال کی منظر کشی پاکستان نیشنل نیوٹریشن سروے 2011 کے ان حقائق سے ہوتی ہے کہ ’’ پاکستان کی 60 فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے اور گزشتہ عشرے کے دوران لوگوں کی غذائیت کی حیثیت (Nutritional Status) میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور ایف اے او کی ’’ دی اسٹیٹ آف فوڈ ان سکیورٹی ان دی ورلڈ 2014 ‘‘کے مطابق پاکستان کی 39.6 فیصد آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔

اس تمام صورتحال میں پاکستان کو انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مرتب کردہ گلوبل ہنگر انڈکس 2014 میں 76ممالک جن کا سکور 5 سے زائد ہے میں19.1 کے سکور کی وجہ سے 57 واں نمبر ملا ہے ۔ انسٹی ٹیوٹ نے بھوک کی شدت کا ماپنے کے لئے جو پیمانہ مقرر کیا ہے اس میں 4.9 تک کے سکور کو(Low)، 5 سے9.9 تک کے سکور کو (Moderate)،10 سے 19.9 تک کے سکور کو (Serious)، 20 سے 29.9 تک کو (Alarming) اور 30 اور اس زائد کو (Extreme Alarming) کیٹگریز میں تقسیم کیا ہے۔ پاکستان اپنے سکور کے حوالے سے (Serious) کیٹگری میں آرہا ہے۔ پاکستان کے پانی اور فوڈ سکیورٹی کے اس منظر نامہ میں آنے والے وقت میں مزید سنگینی آسکتی ہے کیونکہ ایف اے او کے مطابق ہمالیہ پر موجود برف جو ایشیاء میں زراعت کے لئے وسیع مقدار میں پانی مہیا کرتی ہے۔ برف کے ان ذخائر میں 2030 تک 20 فیصد کمی واقع ہوگی ۔ لہذا ہمیں باخبر ہونے اور رہنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کی ممکنہ صورتحال سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے اور یہی ہماری ترقی کا بنیادی نقطہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔