اکتوبر 2005 زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی ساتویں برسی

7 سال گزرنے کے باوجود متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کا کام مکمل نہیں ہو سکا


Editorial October 09, 2012
آزاد کشمیر کے زلزلے سے متاثرہ 5 اضلاع مظفر آباد‘ وادی نیلم‘ باغ‘ راولا کوٹ اور سدھانوتی میں تعمیر نو اور بحالی کا صرف 60 فیصد کام مکمل ہو سکا ہے. فوٹو: ایکسپریس ٹریبیون/ فائل

آٹھ اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی ساتویں برسی پیر کو ملک بھر میں منائی گئی۔

اس زلزلے نے آزاد کشمیر اور ہزارہ ڈویژن میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی جس میں ہزاروں افراد جاں بحق' سیکڑوں مکان اور اسکول تباہ ہو گئے تھے۔ بالا کوٹ جو وادی کاغان کا دروازہ کہلاتا ہے' میں زلزلے سے 12 یونین کونسلیں تہ و بالا ہو گئی تھیں۔ اس قیامت خیز زلزلے کے بعد حکومت نے متاثرین کی آباد کاری اور تعمیر نو کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی قائم کی۔ اندرون و بیرون ممالک سے ڈونرز کی جانب سے خطیر رقم فراہم کی گئی۔ اخباری خبر کے مطابق ڈی جی ایرا پلاننگ کا کہنا ہے کہ زلزلے کے بعد تقریباً 2.5 ارب ڈالر کی امداد آئی۔ اس وقت کے حکمرانوں نے دعویٰ کیا کہ متاثرین زلزلہ کی بحالی کوئی مشکل امر نہیں حکومت کے پاس فنڈز موجود ہیں۔

7 سال گزرنے کے باوجود متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔ آج بھی آزاد کشمیر کے زلزلے سے متاثرہ 5 اضلاع مظفر آباد' وادی نیلم' باغ' راولا کوٹ اور سدھانوتی میں تعمیر نو اور بحالی کا صرف 60 فیصد کام مکمل ہو سکا ہے اور 40 فیصد متاثرین بے یارو مدد گار پڑے ہیں۔ اسی طرح بالاکوٹ ریڈ زون کے رہائشی 50 ہزار افراد آج بھی عارضی گھروں میں سسک رہے ہیں۔ضلع ایبٹ آباد میں زلزلے سے 579 اسکولوں کی عمارتیں مٹی کا ڈھیر بنیں جن میں سے صرف 268 تعمیر ہو سکیں ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت کے پاس اتنی خطیر رقم امداد کی صورت میں آئی وہ کہاں گئی؟ ٹھیکیداروں نے فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث تعمیراتی کام روک رکھا ہے۔

سات سال گزر گئے، اس عرصے میں ملک میں سیلاب بھی آئے جنھوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی مگر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ امسال سندھ اور بلوچستان میں آنے والے سیلاب کا پانی ابھی تک متعدد علاقوں میں کھڑا ہے اور بے گھر ہونے والے سیکڑوں متاثرین حکومتی امداد کی راہ تک رہے ہیں۔حکومتی محکموں کے ملازمین تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے کے سوا کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ سیلاب ہر سال آنے کا امکان رہتا ہے اور مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث یہ ہر بار بڑے پیمانے پر تباہی مچاتا ہے ۔

آیندہ سال بھی سیلاب آنے کا خدشہ موجود ہے مگر حکومتی اداروں میں ایسی کوئی پالیسی یا سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی کہ متاثرین کی امداد کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی گئی ہو۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ متاثرین زلزلہ ہوں یا سیلاب حکمرانوں کی بے حسی کی منہ بولتی تصویر بنے رہیں گے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حکومت کے اس عزم کا اعادہ تو کر دیا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی مکمل تعمیر نو اور دوبارہ آباد کاری تک کام جاری رہے گا۔ صرف عزم کا اظہار کرنے سے بات نہیں بنے گی جب عالمی برادری نے فراخدلانہ امداد کی جس کا اعتراف ہمارے حکمران بھی کر رہے ہیں تو متاثرین زلزلہ اور سیلاب کی امداد اور بحالی میں کیا امر مانع ہے۔ حکمران اپنے عزم کو شرمندہ تعبیر بھی کریں یہی وقت کی آواز ہے۔

مقبول خبریں