اختر مینگل کے چھ نکات…
اختر مینگل نے ان نکات کو مجیب کے نکات کیوں کہا اور انھیں تسلیم نہ کرنے کی صورت میں پاکستان ٹوٹ جانے کی بات کیوں کی؟
سردارعطاء اﷲ مینگل کے صاحبزادے اختر مینگل کے ''دورۂ پنجاب'' کے بعد اب نواب اکبر بگٹی مرحوم کے صاحبزادے طلال بگٹی پنجاب کا دورہ کررہے ہیں۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے اپنے دورۂ پنجاب کے دوران بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے چھ نکات پیش کیے ہیں۔ پہلے ان پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ بلوچستان میں تمام خفیہ آپریشن بند کیے جائیں، بلوچستان میں سرگرم ڈیتھ اسکواڈ کا خاتمہ کیا جائے، لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے، بلوچ شہریوں کو اغوا اور قتل کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں، آپریشن سے متاثرہ بلوچوں کو معاوضہ دیا جائے۔ اختر مینگل نے کہا ہے کہ میرے چھ نکات کو مجیب الرحمن کے چھ نکات سمجھا جائے اگر ان نکات کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پاکستان ایک بار پھر 1971 جیسے سانحے سے دوچار ہوسکتا ہے۔
اختر مینگل کے پیش کردہ چھ نکات پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ مطالبات جائز ہیں اور ان پر عمل درآمد سے پاکستان کی سالمیت کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اختر مینگل نے ان نکات کو مجیب کے نکات کیوں کہا اور انھیں تسلیم نہ کرنے کی صورت میں پاکستان ٹوٹ جانے کی بات کیوں کی؟ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے بارے میں بھی ہمارے اس وقت کے سیاست دانوں کو کوئی خاص تحفظات نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان نکات کو تسلیم کرنے سے پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہ تھا۔
1970 میں جب مجیب الرحمن اگرتلہ سازش کیس سے چھوٹ حاصل کرکے کراچی آئے تو مرحوم عابد زبیری کی رہایش گاہ ڈیفنس میں ایک تقریب کے دوران جب میں نے مجیب الرحمن سے پوچھا کہ آپ پر الزام لگایا جارہا ہے کہ ان نکات کے ذریعے آپ ملک توڑنا چاہتے ہیں؟ ہمارے اس سوال کے جواب میں مجیب الرحمن نے بڑی سنجیدگی سے کہا، ''بھائی اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگر یہ ملک ٹوٹا تو اس کی ذمے داری چھ نکات پر نہیں ہوگی بلکہ ان طاقتوں پر ہوگی جو ہمارے جمہوری حق کو اس لیے تسلیم کرنا نہیں چاہتے کہ اس سے پاکستان پر ان کی بالادستی ختم ہوجائے گی۔'' 1970 ہی میں جب ہم نیپ کے ایک وفد کے ساتھ ڈھاکا گئے تو وہاں ہم نے بنگالی عوام کو ناراض تو دیکھا لیکن باغی نہیں پایا۔ پلٹن میدان کے ایک بڑے جلسے میں بھی علیحدگی کی کوئی بات سنائی نہ دی۔
شیخ مجیب الرحمن نے ملک توڑنے والی جن طاقتوں کی طرف اشارہ کیا تھا، کیا اختر مینگل اور طلال بگٹی سمیت بلوچ رہنما بلوچستان کے حالات کی خرابی کی ذمے داری جن طاقتوں پر ڈال رہے ہیں، کیا یہ وہی طاقتیں ہیں جن کی نشان دہی مجیب الرحمن نے کی تھی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل اس حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ان المیوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق تقسیمِ ہند سے ہے۔ کیا مسلمان ایک قوم ہیں؟ 1947 میں سامراجی طاقتوں کی سازش سے متحدہ ہندوستان میں جو فرقہ وارانہ نفرتیں پھیلائی گئی۔
اگرچہ اس تفریق نے تقسیم کا ایک جواز پیدا کیا اور ملک تقسیم ہوگیا لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے فائدے نقصان کے حوالے سے اس تقسیم کا جائزہ لینے والے آج بھی اس تقسیم کو برصغیر کے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہی کہتے ہیں۔ رہی دوسری بات کیا ہم ایک قوم ہیں؟ اور مذہب کا رشتہ ہمیں ایک دوسرے سے باندھے رکھے گا؟ اس کا جواب 1971 میں مل چکا ہے اور آج بلوچستان میں یہ سوال ایک بار پھر منہ کھولے کھڑا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم نے آج کی دنیا کو سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی، جس میں ہر رشتہ، ہر تعلق، ہر دوستی، ہر دشمنی معاشی مفادات سے شروع ہوتی ہے اور معاشی مفادات پر ہی ختم ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاست روزِ اوّل ہی سے جاگیرداروں اور فوجی بیورو کریسی کی داشتہ بنی ہوئی ہے لیکن اب اگر اس سیٹ اپ کو نہ بدلا گیا تو خاکم بدہن واقعی یہ ملک ٹوٹ کر بکھر جائے گا اور کوئی طاقت اسے اپنے انجام سے نہ بچاسکے گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زمینی حقائق کو سمجھ کر مسائل کا معروضی حل تلاش کرنے کے بجائے ہم ان ہی منفی راستوں پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں، جن کا انجام 1971 سے بدتر ہوسکتا ہے۔ معاشی ناانصافیوں، سیاسی ٹھیکے داریوں کو ختم کرنے کے بجائے ہم ان منفی طاقتوں کو میدان میں لارہے ہیں جو انسانی معاشروں میں نفرتوں کا زہر گھول کر غریبوں کو غریبوں کے قتل پر اکساتی ہیں۔
اختر مینگل کے جواب میں طلال بگٹی کا دورۂ پنجاب اور اختر مینگل پر تنقید سے بلوچستان کا ایک اور اہم مسئلہ سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ بلوچستان ابھی تک سرداروں، نوابوں کی سیاست سے باہر نہیں آسکا۔ ہندوستان کی سیاسی قیادت نے آزادی کے فوری بعد زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیرداروں، ٹھاکروں، نوابوں، سرداروں کے کلچر کا خاتمہ کردیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے حیدرآباد دکن کی ریاست کے وزیر خزانہ عبدالرحیم کو 8 نمبر کی بس میں کھڑے ہو کر سفر کرتے دیکھا۔ یہی حال دوسری سابقہ ریاستوں کے نوابین کا ہوا، اور یہ سارے غریبوں کی لاشوں کو نوچنے والے گِدھ ختم ہوگئے لیکن پاکستان میں یہ گِدھ نہ صرف موجود ہیں بلکہ اور زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں۔ کیا ان کا وجود ہی ہماری تباہیوں کا سب سے بڑا سبب نہیں؟
بلوچستان کے رہنمائوں عطاء اﷲ مینگل، اکبر بگٹی، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری سمیت بہت سارے بزرگوں نے پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن بھٹو جیسا زیرک سیاست دان بزنجو مینگل کی حکومت کو برداشت نہ کرسکا۔ فیوڈل مائنڈ سیٹ 65 برسوں سے پاکستان کی سیاست کو خوار کررہا ہے۔ جب بھی عوام اس عفریت کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں تو ان موروثی حکمرانوں کے اقتدار کو تحفظ دینے والے ''پاکستان کا مطلب کیا'' کی میٹھی اور مقدس چھری لے کر باہر نکل آتے ہیں اور عوامی تحریکوں کو سبوتاژ کردیتے ہیں۔ آج بھی جب پورا پاکستان سیاسی اور اقتصادی ناانصافیوں کے خلاف سرتاپا احتجاج بنا ہوا ہے، دہشت گردی کے ذریعے عوام کے ان حقیقی مسائل کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہم نے ابتدا میں مجیب الرحمن اور اختر مینگل کے چھ نکات کے حوالے سے جن حقائق کی نشان دہی کی ہے کہ مسئلہ نہ ماضی میں چھ نکات کا خطرناک تھا نہ آج ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ 1971 کی ٹوٹ پھوٹ کی جو طاقتیں ذمے دار تھیں، کیا وہی طاقتیں بلوچستان کی انارکی کی ذمے دار ہیں؟ اگر وہی طاقتیں آج کے حالات کی ذمے دار ہیں تو پھر ان کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ پیچھے ہٹ کر معاملات کو سنبھلنے دیں یا پھر 1971 کی تاریخ کا سامنا کریں۔ بلوچستان کی لڑائی ہو یا سندھ کی، ان سب کا ماخذ مضبوط مرکز کا فلسفہ ہے جسے اب ختم ہوجانا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ جاگیرداروں، وڈیروں، خانوں، سرداروں اور نوابوں کا نظام بھی ختم ہونا چاہیے تاکہ غریب اور مظلوم عوام کو آگے آنے کا موقع ملے۔
جب سیاست بالادست طبقات کے لٹیروں سے آزاد ہوجائے گی تو ہر صوبے کے وسائل عوام کی ملکیت میں آجائیں گے اور عوام کے مفادات اور ان کی ترقی کے لیے استعمال ہوں گے۔ بلوچستان کی علیحدگی کی بات کرنے والوں کو بھی اس کے نتائج کا ادراک ہونا چاہیے اور بلوچستان میں ہونے والی قتل و غارت میں ملوث کرداروں کے مقاصد کا بھی انھیں اندازہ ہونا چاہیے۔