نوجوانوں کی بھی خبر لیجیے

ایک زمانہ تھا جب ہم کئی کھیلوں میں پہلے نمبر پر تھے اور اسپورٹس کے میدانوں پر ہمارا پرچم لہراتا تھا


Abdul Qadir Hassan April 23, 2015
[email protected]

ایک زمانہ تھا جب ہم کئی کھیلوں میں پہلے نمبر پر تھے اور اسپورٹس کے میدانوں پر ہمارا پرچم لہراتا تھا مگر یہ زمانہ گزر گیا ایک خواب کی طرح اب تو اس گزرے زمانے کا خواب دیکھنے کی ہمت بھی نہیں پڑتی، اپنے آج کو سامنے رکھ کر اس شاندار کل سے شرم آتی ہے یقین نہیں آتا کہ وہ ہم ہی تھے جو کرکٹ، ہاکی، اسنوکر اور نہ جانے کتنے کھیلوں میں سرفہرست تھے بلکہ چیمپیئن تھے دنیا ہمیں تسلیم کرتی تھی ہماری کھیلوں کی برتری سب پر واضح اور مسلم تھی لیکن پھر کیا ہوا اور کیوں ہوا اس پر سخت حیرت ہوتی ہے۔

میرے جیسا پاکستانی جو اسپورٹس کی دنیا سے دور رہتا ہے اور صرف کسی میچ کے نتیجے تک اپنی دلچسپی محدود رکھتا ہے اسے یہ معلوم نہیں کہ کھیل کی دنیا میں یہ زوال کیسے آیا کہ ہار جیت تو دور کی بات ہے ہم تو سرے سے کسی کھیل سے بھی دستبردار ہو گئے۔ ہاکی جیسے قومی کھیل کے بارے میں اطلاع ملی کہ چونکہ معمول کا خرچہ بھی نہیں ہے اس لیے ہاکی کو ختم کیا جا رہا ہے۔

اب ہمارے عالمی شہرت کے کھلاڑی اگر اداس اور مایوس ہوں تو گھر کے صحن میں یا قریب کے کسی پارک میں دوستوں کے ساتھ ہاکی کھیل لیں اور اپنی اداسی دورکر لیں کیونکہ ہاکی کے کسی میچ میں مسلسل ہارنے سے بہتر ہے کہ کھیلنا ہی ختم کر دیں اور اس سبکی سے بچیں جو ماضی کے چیمپئن کو اب اس کھیل میں ملے گی۔

میں کھیلوں کے زوال پر ماتم کرنے پر یوں مجبور ہوا کہ ہماری کرکٹ ٹیم ایک عام سی ٹیم سے بڑی ہی بد صورتی سے ہار گئی ہے بلکہ بالکل ہی ہار گئی ہے۔ ہم سے جیتنے والی یہ ٹیم ہمارے ماضی کے مشرقی پاکستان اور اب بنگلہ دیش کی ٹیم ہے۔

ماضی کے کئی کھلاڑیوں کو میں کرکٹ نہیں کسی اور وجہ سے جانتا تھا اور اگر وہ اب موجود ہوتے تو میں ان سے گلہ کر سکتا تھا لیکن اب جو نئے لوگ ہیں میں ان سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بس خود ہی اپنے آپ سے شرما سکتا ہوں اور شرما رہا ہوں۔ ہماری حکومت کیا نہیں کررہی وہ کسی بھی کھیل کو زندہ کرنے کے اسباب رکھتی ہے۔

ہمارے ورلڈ چیمپیئن کھلاڑی بھی اس ملک اور قوم سے تھے اور ہم ان کی عزت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عمران خان کو لیجیے ہم نے اس کو سیاست کی اجنبی دنیا میں ایک بلند مقام دے دیا ہے جب کہ وہ اپنی پوری زندگی میں کچھ بھی تھا سیاستدان نہیں تھا مگر ہم نے اس کی پروا نہیں کی اور اسے سیاست کے بلند اسٹیج پر کھڑا کر دیا ہے۔

جہاں سے وہ ہر نئے پرانے سیاستدان کو للکار رہا ہے اور ہم اس پر تالیاں بجا رہے ہیں۔ اس ایک مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کھیل اور کھلاڑی کو کس قدر پسند کرتے ہیں اور اسے وہ کچھ دے دیتے ہیں جس کا وہ کسی طور بھی حقدار نہیں ہوتا۔ ایک کرکٹر کاکیا اور سیاست کا کیا۔ دونوں میں کوئی رشتہ نہیں مگر ہم نے اس مصنوعی رشتے کو بھی قبول کر لیا ہے۔

میں کئی بار حکمرانوں کی توجہ نوجوانوں کے صحت مند مشاغل کی طرف دلا چکا ہوں کہ وہ بے کار اور مایوسی کی زندگی سے نکل کر کسی صحت مند مصروفیت کو اختیار کر سکیں۔ پاکستان میں نوجوانوں کے لیے تفریح کے ہر راستے بند ہیں ہمارے خاندانی بزرگ اور دینی لوگ ان راستوں پر بیٹھے ہیں۔ ان کی شامیں اداس اور بے رونق رہتی ہیں۔ آج کے جدید زمانے میں ہر جگہ نوجوانوں کے لیے ان کی شاموں کو دلچسپ اور مصروف بنانے کے لیے کئی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔

نوجوان ناچنا گانا اور کھیلنا کودنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ان کے جوان جسموں اور گرم خون کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تھکا سکیں لیکن کوئی صحت مند مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ون ویلنگ جیسے مہلک کھیل شروع کر دیتے ہیں۔ اب تو کُشتیوں کے اکھاڑے بھی نہیں ہیں جہاں خالص دیسی طریقے سے ورزش کی جا سکتی ہے اور جس سے تعلق پر ہمارے کسی بہت بڑے کو کالج میں داخلہ ملا تھا۔

پولیس کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا ورنہ نوجوان اگر باہر نکل کر کھیل تماشے کریں تو پکڑے جاتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے لیے کرکٹ ہاکی جیسے مسلم قومی کھیل ہیں جن میں وہ حصہ لے سکتے ہیں اور اس میں آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن ہم جو ان کے بزرگ ہیں لاکھوں کروڑوں کے خرچ سے سیاست کر سکتے ہیں سیاسی اکھاڑے آباد کر سکتے ہیں مگر ہمارے پاس اتنی سی رقم بھی نہیں بچتی کہ ہم کسی کھیل کو معمولی خرچ سے ہی زندہ رکھ سکیں اور کسی دن اس خبر کو نہ سنیں کہ ہاکی جیسا کھیل بند کر دیا گیا ہے کہ کھلاڑیوں اور کھیل کے لیے معمولی خرچ بھی نہیں ہے۔

میری زندگی سیاست پر لکھتے گزر گئی ہے لیکن سب بے سود رہا ہے سیاست نہ بھی ہو تو زندگی گزر سکتی ہے مگر نوجوانوں کے کھیل کود نہ ہوں تو قوم آگے نہیں بڑھ سکتی اس کی پیش قدمی رک پاتی ہے اس لیے یہ قومی تقاضا ہے کہ ہمارے حکمران نوجوانوں کی فلاح پر بھی توجہ دیں ورنہ وہ ایک مایوس اور بکھری ہوئی قوم کی کیا قیادت کریں گے۔ یہی نوجوان ہیں جو ان کی سیاست چلاتے ہیں مگر ان نوجوانوں کو زندہ اور متحرک رکھنا لازم ہے۔ ہمارے معزز مہمانوں نے ہمیں جو خواب دکھائے ہیں وہ نوجوان ہی پورے کر سکتے ہیں۔

مقبول خبریں