برما میں مسلمانوں کی نسل کشی!!عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  جمعـء 12 جون 2015
حکومتی، مذہبی و سماجی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو,فوٹو : فائل

حکومتی، مذہبی و سماجی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو,فوٹو : فائل

برما کی حکومت کی جانب سے وہاں پر مقیم مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور ان کی نسل کشی کی جارہی ہے جس پر پورے عالم اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

مسلمانوں کی بستیوں کو آگ لگادی گئی ، ان کا قتل عام کیا جارہا ہے جبکہ ہزاروں مسلمان جوجان بچانے میں کامیاب ہوگئے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اوروہ کشتیوں میں سوار ہوکر سمندر میں بھٹک رہے ہیں۔ ان کے سر پر چھت ہے نہ ان کے نیچے زمین۔ ان کے پاس کھانے کے لیے خوراک ہے نہ پینے کے لیے پانی اور موت تو جیسے ان کے لیے گھات لگائے بیٹھی ہے۔ ان مظلوم مسلمانوں کی یہ حالت زار انسانی حقوق کے علمبردارمغربی ممالک کے منہ پر طمانچہ ہے اور ان کی مسلسل چُپ ان کے دہرے معیار اور اسلام دشمنی کی عکاس ہے۔

برما پر ہونے والے ظلم و ستم پر پاکستانی عوا م بھی تشویش میں مبتلا ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔’’برما کے مسلمانوں کی حالت زار اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی ، مذہبی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

خلیل طاہر سندھو
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)


برما میں بدھوں نے اپنے پیشوا کی ساری تعلیمات کو بھلا کر جو ظلم ڈھایا ہے میرے نزدیک اس سے بڑا دہشت گردی اور بربریت کا کوئی دوسرا واقعہ نہیں ہوسکتا۔ برما کے مسلمان بھوکے پیاسے ہیں ، کھلے سمندر میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ منظر دل کو دہلا دینے والا ہے اوران کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ میرے نزدیک ان بے یارو مددگار لوگوں کے لیے آواز اٹھانا عملی جہاد ہے۔

برما میں مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہورہا ہے لیکن اس مسئلے پر اقوام متحدہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور یہ اس کا دہرا معیار ہے۔ اس وقت دنیا میں 54اسلامی ممالک ہیں، انہیں چاہیے تھا کہ وہ فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے لیے درخواست دیتے اور او آئی سی بھی اس میٹنگ کے لیے اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالتی اور اگر ایسا کیا جاتا تو فوری طور پر میٹنگ بلائی جاسکتی تھی لیکن افسوس ہے کہ ان کی جانب سے ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا۔

ان 54اسلامی ممالک میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کا دنیا میں اثرو رسوخ ہے لیکن انہوں نے بھی اس حوالے سے کوئی آواز بلند نہیں کی۔ عالمی قانون یہ کہتا ہے کہ نزدیک ترین ممالک مظلوم لوگوں کو پناہ دیں گو کہ یہ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے لیکن انہیں پناہ دینے کے بعد اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کی جانی چاہیے تھی ۔ اس وقت پوری دنیا میں نسلی اقلیتوں کو خوفزدہ کیا جارہا ہے اور یہ بھی اس کی ہی ایک مثال ہے۔ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حقوق دیے جاتے ہیں، یہ سب حقوق الہامی ہوتے ہیں اور آئین صرف ان کی گارنٹی دیتا ہے۔ بدھ متوں نے 2012ء سے مسلمانوں کے خلاف یہ جنگ شروع کرکھی ہے اور متعدد مرتبہ مسلمانو ں کے گھر جلائے گئے۔

اس جنگ کو وہ سری لنکا تک لے گئے ہیں اور وہاں بھی بدھ مت کے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف مظاہرے کروائے ہیں۔ اس سارے واقع میں سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے اپنے سرحدی علاقے میں آنے والے برمی مسلمانوں پر فائرنگ کی اور انہیں پناہ نہ دے کردرندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

برمی مسلمانوں کا مسئلہ انسانی حقوق کا ہے ، وہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور سمندر میں بھٹک رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کریہ بتانا ہوگا کہ بدھ متوں کا یہ فعل مجرمانہ ہے لہٰذاا ن کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ درج ہونا چاہیے۔اس وقت اسلام کے خلاف بہت بڑی سازش ہورہی ہے جسے ابھی تک بہت سارے لوگ نہیں سمجھ رہے۔ برما میں 969کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی ہے جو 786کے خلاف ہے اور جس کا مقصد مسلمانوں کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے یہ تنظیم سری لنکا میں بھی رجسٹر کروائی ہے لہٰذا ہم سب کو مل کر اس کامقابلہ کرنا ہوگا۔

برما کے مسلمانوں کا مسئلہ انسانی حقوق کا ہے، او آئی سی کو اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالنا چاہیے اور اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا چاہیے ورنہ مزید مظلوم لوگوں کا قتل ہوگا ۔ یہ بنیادی طور پر مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور ان کی شناخت کا مسئلہ ہے اور ہمیں اس مسئلے کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے اٹھانا ہوگا۔ اس بربریت کے خلاف اقوام متحدہ کے متعدد کنونشن موجود ہیں لیکن افسوس ہے کہ اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ 54 اسلامی ممالک بھی اس پرخاموش ہیں ۔ برما کی اپوزیشن لیڈر سوچی جسے نوبل انعام دیا گیا، جس کی انسانی حقوق کے حوالے سے بہت خدمات ہیں وہ صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس پر خاموش ہے اور اس کا ایک بھی بیان سامنے نہیں آیا۔

حکومت پاکستان نے برما کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لیے وزیراعظم نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس کے علاوہ برما پر سفارتی دباؤ بڑھانے کے لیے تمام ممالک کے سفیروں سے رابطہ کیا جائے گا اوراس اہم مسئلے پر تمام جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لینے کے لیے بہت جلد آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جائے گی۔ برما کے مسلمانوں کی مدد کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت بھی اس معاملے پر سنجیدہ ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر برما کے مسلمانوں کی بحالی کے لیے تیاریاں کی جارہی ہیں۔

حافظ سلمان بٹ
(سینئر رہنما جماعت اسلامی)


روہنگیا کے مسلمانوں کا مسئلہ جنگ عظیم اول کے بعد سے چلا آرہا ہے اور ان پر ماضی میں بھی بہت ظلم ڈھائے گئے ہیں۔اس کا بنیادی پس منظر یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کا غیر مسلم دنیا پر بھی رعب تھا اور مسلمانوں کو بھی اس سے امید تھی کہ سلطنت کا سربراہ ہمارا خیال کرے گا۔

غیر منقسم ہندوستان میں خلافت بچاؤ مہم بھی چلی تھی لیکن جیسے ہی خلافت ختم ہوئی مسلمان بھی ایک لحاظ سے پوری دنیا میں لاوارث ہوگئے اور برطانیہ، فرانس اور پرتگال نے مسلمانوں کو بندر بانٹ کے ذریعے آپس میں تقسیم کرلیا۔ اراکان ایک مغربی صوبہ ہے اوراس کے مغرب میں بھارت ہے جبکہ مشرق میں برما ہے ۔

اس کے علاوہ جنوب میں قریباََ1500کلومیٹر تک میں بنگلہ دیش کا بارڈر برما کے ساتھ لگتا ہے اور پھر آگے سمندر ہے۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو روہنگیا کے مسلمانوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان کاعلاقہ پاکستان میں شامل کیا جائے اور وہ 71ء تک پاکستان میں شامل ہونے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن جب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا تو پھر برما کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ، ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے، انہیں شہریت کے حق سے محروم کردیا گیا اور ان کی نسل کشی کی کوشش بھی کی گئی جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دوسرے ممالک ہجرت کرگئی۔

میرے نزدیک یہ صرف اسلامی مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ بھی ہے کیونکہ یہ مسلمان پاکستان میں شامل ہونے کا مطالبہ کرتے رہے۔ برمی مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے، ہزاروں کی تعداد میں مسلمان کشتیوں پر سوار سمندر میں بے یارو مددگار ہیں جن کے پاس نہ خوارک ہے اور نہ ہی پینے کے لیے پانی اور انہیں ساحل پر اترنے بھی نہیں دیا جارہا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگ جو بنگلہ دیشی سرحد پر آئے یا انہوں نے سرحد عبور کی تو بنگلہ دیشی فوج نے ان کا قتل عام کیا اور انہیں اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاملے پر اقوام متحدہ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور مسلمانوں کی داد رسی کے لیے کوئی تیار نہیں ہے جبکہ او آئی سی کا بھی کوئی وجود ہی نظر نہیں آرہا لہٰذا ہمیں چاہیے کہ آپس کے اختلافات ختم کرکے ایک ہوجائیں اور امت کے لیے کام کریں۔پاکستان اس لیے وجود میں آیا تھا کہ اسے اسلام کے سنہری اصولوں پر چلایا جائے گا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور وہ ایٹمی طاقت اپنے وسائل سے نہیں بلکہ امت کے وسائل سے بنا ہے ۔

پاکستان جب اقوام متحدہ کی نشست کا الیکشن لڑتا ہے تو مسلمان ممالک محبت کے ساتھ ووٹ دے کر اسے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ممبر بناتے ہیں۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان ، بھارت، بنگلہ دیش اور برما کے مسلمانوں کی امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں۔ہماری عوام پر واضح ہوجانا چاہیے کہ ہمارے نبیؐ نے جسد واحد کی جو بات کی تھی وہ بالکل درست اور پریکٹیکل ہے۔

خانہ کعبہ ہماری یکجہتی اور اتحاد کی علامت ہے اور سب لوگ پانچ وقت مکہ کی طرف منہ کرتے ہیں ۔ جب تک ہمارا قبلہ خانہ کعبہ نہیں ہوگا، واشنگٹن، ماسکو، بیجینگ، برطانیہ، لندن، جرمنی اور برلن رہے گا تب تک ہمارا کچھ نہیں بنے گا۔ مسلمان بنیادی طور پر حریت پسند ہے جس کا کلمہ ہی یہ کہتا ہے کہ تمام غلامیوں سے انکار کرکے اللہ کی غلامی اختیار کرلو۔ مسلمان غلامی پسند نہیں کرتے اور ان پر جو کوئی غلامی مسلط کرے گا پھر اس کا ردعمل یہ نہیں ہوگا کہ وہ اس کے سامنے سر جھکا دے بلکہ پھر داعش ،القاعدہ یا بوکوحرام بن جائے گی ۔

اس لیے مغربی طاقتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر مسلمان پریشان ہوگا اور اس پر ظلم کیا جائے گا تو پھر دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ کفر ایک ملت ہے اور ہم بھی ایک ملت ہیںلہٰذا امت مسلمہ کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی بالکل واضح ہونی چاہیے اوربرما کے مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے پاکستان کو ہر ممکن کام کرنا چاہیے۔جماعت اسلامی 14جون کو اسلام آباد میں تمام مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھرپور مظاہرہ کرے گی اور برما کے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔

حافظ زبیر احمد ظہیر
(مرکزی رہنمامرکزی جمعیت اہلحدیث)


یہ دینی، ایمانی، انسانی و اخلاقی فریضہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہو وہاں مظلوم کی مدد کی جائے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ قرآن میں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم مومنوں کی مدد کرو اور تم ایک دوسرے کے بھائی ہو۔سرکار دوعالمؐ نے فرمایا کہ سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم جب تک سب مسلمانوں کو بھائی سمجھتے تھے تب تک دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کرنے کی جرات نہیں کرتی تھی لیکن جس دن سے ہمارے اندر خود غرضی اور لالچ پیدا ہوگیا ہے اس دن سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے۔

میرے نزدیک ہم پوری دنیا میں اس لیے تماشا بنے ہوئے ہیں کیونکہ ہم کسی دوسرے کی تکلیف میں اس کی مدد نہیں کرتے لہٰذا اگر ہم ایک دوسرے کا احساس کرتے اور دوسرے مسلمانوں کی مدد کے لیے فوری طور پر اقدامات کرتے تو آج کہیں بھی ہماری ایسی حالت نہ ہوتی۔ میرے نزدیک یہ ہمارے مسلمان حکمرانوں کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ان کی غیرت ایمانی اور ان کا جذبہ اسلامی کہاں ہے۔

سرکار دوعالمؐ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ظلم ہونے دیتا ہے۔ اس لیے برما کے ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا اور انہیں ظلم و جبر سے بچانا اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں چاہے وہ حکمران ہوں، جماعتیں ہوں ، مذہبی گروپ ہوں یا انفرادی لوگ ہوں ہر ایک پر فرض ہوچکا ہے۔

برما کی حکومت جس طرح کے ظالمانہ اور قاہرانہ اقدامات کررہی ہے اس پر پوری انسانیت کو تڑپ جانا چاہیے تھا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے جو خاموشی اختیار کررکھی ہے وہ مجرمانہ ہے اور ہمیں ہر سطح پر اس کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اندھی اور بہری ہوچکی ہے لہٰذا میرے نزدیک صرف برما کی حکومت نے تعصبانہ رویہ اختیار نہیں کیا ہوا بلکہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے برسوں سے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ، جانبدارانہ، غیر منصفانہ اور ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے ۔

جہاں غیر مسلموں کے مسائل ہوتے ہیں وہاں فوری طور پر عملی اقدامات شروع ہوجاتے ہیں لیکن فلسطین ، کشمیر یا افغانستان کا مسئلہ ہو تو اس پر عملی اقدامات کرنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ سعودیہ عرب اور عرب امارت خراج تحسین کے مستحق ہیںکہ شاہ سلمان نے برما کے مسلمانوں کے لیے امدادی فنڈ قائم کیا ہے ۔ میرے نزدیک یہ مسئلہ بہت بڑا ہے، ہماری حکومت کو برما کے مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے۔

پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا لہٰذا پاکستان کو آگے بڑھ کر یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھانا چاہیے اور پوری امت مسلمہ کو بھی ساتھ ملانا چاہیے۔سرکار دوعالم ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر مصیبت کے وقت تم اپنے مظلوم اور مجبور مسلمان بھائیوں کی مدد نہیں کرو گے تو جب تم پر اس طرح کا وقت آئے گا تو کوئی تمہاری مدد بھی نہیں کرے گا۔ میرے نزدیک وزیراعظم اور آرمی چیف کو اس معاملے پر سخت نوٹس لینا چاہیے اور برما پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے۔ میرے نزدیک ان مسلمانوں کو پناہ دینا ہر مسلمان ملک پر فرض ہے اور جو کوئی انہیں پناہ نہیں دے رہا وہ کفر کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اس کا اسلام اور دین سے کوئی تعلق باقی نہیں ہے۔

سلمان عابد (دانشور)


برما کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ یہ گزشتہ کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ برما کی حکومت یہ کہتی ہے کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد 4فیصد ہے جبکہ مسلم تنظیمیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی تعداد 15فیصد کے قریب ہے۔ برما کے صوبہ اراکان میں مسلمانوں کے حوالے سے مسائل شروع ہوئے، انہیں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جیسے معاملات سے لاتعلق رکھا گیا اور اس طرح برما حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مسئلہ آہستہ آہستہ اتنا بڑھا کہ آج عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔اس مسئلے کو تین مختلف تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔

اول یہ کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان ہیں ، انہیں مغربی طاقتوں یا اسلام دشمن طاقتوں کی وجہ سے کئی طرح کے تعصبات کا سامنا ہے ۔ دوسرا یہ کہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ بنیادی طور پربلا تفریق مذہب و نسل بنیادی حقوق کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں بھی برما نے تعصب کا مظاہرہ کیا ہے اور مسلمانوں کے مذہب کو بنیاد بنا کر انہیں ظلم کا نشانہ بنایا ہے۔

تیسرا مسئلہ عالمی اداروں کا ہے جن میں اقوام متحدہ اور او آئی سی شامل ہیں، یہ پہلے دن سے ہی اس معاملے پر خاموش ہیں اور انہوں نے خود کو مکمل طور پر اس سے لا تعلق رکھا ہوا ہے ۔ بدقسمتی سے اس مسئلے کو برما کا داخلی مسئلہ سمجھا گیا حالانکہ یہ محض برما کا داخلی مسئلہ نہیں کیونکہ جب ہم امت مسلمہ کی بات کرتے ہیںتو مسلمان کے ساتھ جہاں بھی ظلم ہوگا تو وہ عالمی مسئلے کے طور پر سامنے آئے گا۔ اقوام متحدہ اعتراف کرت ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے لیکن وہ برما کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ۔

برما کی نوبل انعام یافتہ خاتون سوچی نے بھی مقامی بدھوں کو ناراض نہ کرنے کی خاطر اس معاملے پر خاموشی اختیار کررکھی ہے حالانکہ لوگوں کو اس سے بہت امیدتھی کہ وہ اس مسئلے پر آواز اٹھائے گی۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کا مغربی طاقتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے جبکہ مسلم دنیا کے لوگوں کے ساتھ لاتعلقی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر مصیبت آتی ہے وہاں مسلم حکمران وہ کردار ادا نہیں کرتے جس کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وہ ڈر اور خوف کی کیفیت میں بڑی طاقتوں سے سمجھوتے کے ساتھ چلتے ہیں۔ پاکستان نے بھی یہ مسئلہ اس وقت اٹھایا ہے جب یہ شدت اختیار کرچکا ہے۔

عمران خان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو جب خط لکھا اس کے بعد یہ مسئلہ پاکستان میں اٹھایا گیا اور پھر اس پر کمیٹی بھی بنائی گئی۔ میرے نزدیک پاکستان نے اس حوالے سے اچھا قدم اٹھایا ہے لیکن محض کمیٹی بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، میری وزیراعظم سے گزارش ہے کہ اس کمیٹی کو فعال بنائیں اور وزارت خارجہ کو بھی متحرک کریں اور اس کے علاوہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔

برما کے مسلمانوں کو بنگلہ دیش کے حوالے سے بھی ایک مسئلہ درپیش ہے۔ بنگلہ دیش کو چاہیے تھا کہ ہجرت کرکے آنے والے برمی مسلمانوں کو پناہ دیتامگرافسوس کہ اس نے ان سے لاتعلقی کاا ظہار کیا اور ہزاروں لوگوں کو سمندر میں دربدر کردیا۔ ہم یورپ سے گلہ تو کرتے ہیں لیکن اسلامی ممالک نے خود جو رویہ اختیار کررکھا ہے وہ افسوسناک ہے تاہم ترکی نے اس معاملے میں سب سے پہلے کردار ادا کیا جو برما کے مسلمانوں کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا ہے۔مسلمان حکمرانوں کے اس رویے کی وجہ سے پوری دنیا کے کمزور مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں مسلم حکمرانوں اور اقوام متحدہ نے تنہا چھوڑ دیا ہے اور وہ خود کو محروم محسوس کررہے ہیں۔

اس کا براہ راست فائدہ دہشت گرد تنظیمیں اٹھا رہی ہیں اور پھر وہاں نظام کے خلاف بغاوت شروع ہوجاتی ہے۔ میرے نزدیک برما میں مسلمانوں کی جو نسل کشی کی جارہی، اس میں عالمی ادارے اور مسلمان حکمران بھی شامل ہیں کیونکہ انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی لہٰذا اگر اس مسئلے پر بہت پہلے آواز اٹھائی جاتی تو آج اتنے مسائل پیدا نہ ہوتے۔ بنگلہ دیش کی حکومت پر بھی پاکستان نے کوئی دباؤ نہیں ڈالا اور پاکستان نے تو اس وقت بھی کچھ نہیں کیا جب وہاں ہمارے لوگوں کا پھانسی دی جارہی تھی۔ ہم نے لاتعلقی کا رویہ اپنایا ہوا ہے کہ اگر کوئی مصیبت ہمارے پر آئے تو ہم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن جب دوسروں پر مصیبت آتی ہے تو ہم خود کو لا تعلق کرلیتے ہیں اور خاص طور پر دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے ہم مسلم دنیا کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی مسلم عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے تیار ہیں ۔

برما کے مسلمانوں کو اگر وہاں کے حکومتی نظام کے حوالے سے مسائل ہیں تو انہیں جمہوری طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق زندگی گزارنا ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ انسانی حقوق سے وابستہ جتنی بھی عالمی تنظیمیں ہیں انہوں نے اس پر باقاعدہ کہا ہے کہ برما کی حکومت تعصبات اور مسلم دشمنی کا شکار ہے اور ان کے سیاسی تعصبات کی و جہ سے وہاں کے مسلمان خود کو تنہا سمجھ رہے ہیں ۔ برما کی حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ریاستوں کے مسائل اس طرح سے حل نہیں ہوتے اور آخر کار اس کا کوئی سیاسی حل نکلنا ہے۔

برما کی حکومت اس لیے بھی کوئی پرواہ نہیں کررہی کیونکہ عالمی برادری خاموش ہے اور اس پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جارہا لہٰذا میرے نزدیک برماکی حکومت پر دباؤ ڈالنے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

میرے نزدیک یہ محض برما کے مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ برما میں صرف مسلمانوں کو قتل نہیں کیا جارہا بلکہ ان کی عبادتگاہوں، مساجد و مدارس کو بھی شہید کیا جارہا ہے اور اس ریاست سے ان کو بے دخل کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ اس پر لوگوں میں شدید ردعمل سامنے آرہا ہے لہٰذا پاکستان اس لحاظ سے جو کچھ کرسکتا ہے اسے کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جتنا شدید ردعمل مسلم ممالک میں ہوگا اتنا ہی مثبت اثر مغربی ممالک پر ہوگا اور اس سے مسلمانوں کے مسائل بھی حل ہوجائیں گے لہٰذا مذہبی جاعتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی اس پر کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔