خلائے بسیط میں ہمارے پڑوسی؛ مریخ پہ زندگی کی تلاش

ع محمود  اتوار 25 اکتوبر 2015
اگر سیارے میں ننھے منے جاندار بھی ملے،تو ثابت ہو جائے گا کہ وسیع وعریض کائنات میں بنی نوع انسان تنہا نہیں ۔  فوٹو : فائل

اگر سیارے میں ننھے منے جاندار بھی ملے،تو ثابت ہو جائے گا کہ وسیع وعریض کائنات میں بنی نوع انسان تنہا نہیں ۔ فوٹو : فائل

پچھلے ماہ امریکی سائنس دانوں نے یہ حیرت نگیز خبر دی کہ ہمارے پڑوسی سیارے‘ مریخ کی سطح پر پانی مل گیا ہے‘ گو ہے وہ بڑا نمکین کیونکہ اس میں معدنیاتی نمک گھلے ملے ہیں۔ہمارے میڈیا نے اس سائنسی خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی‘ مگر دنیا بھر میں اس دریافت نے تہلکہ مچا دیا۔ وجہ یہی کہ خبر نے آشکار کر دیا‘ اس وسیع و عریض کائنات میں انسان اکیلا نہیں… زندگی کی دیگر اشکال بھی سیکڑوں سیاروں میں موجود ہو سکتی ہیں۔ آخر کائنات میں اربوں سیارے فضا میں چکر کھا رہے ہیں۔ ممکن ہے، کوئی اور سیارہ بھی زمین جیسا ماحول رکھتا ہو!

مغربی سائنس داں پچھلے پچاس برس سے بتا رہے تھے کہ مریخ پر پانی مل سکتا ہے۔ اب اس سیارے کے گرد چکر کھاتے مصنوعی سیاروں نے پانی کی موجودگی کے ثبوت فراہم کر دیئے ۔ مریخ میں بیشتر پانی زیر سطح ہے یا گلیشیئروں کی صورت منجمند۔ تاہم جب سیارے پر موسم گرما آئے‘ تو بعض مقامات کی سطح پر پانی بہنے لگتا ہے۔ یہ بہتا پانی سطح پر اپنے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔ انہی کے ذریعے پانی کا سراغ لگایا گیا۔

سوال یہ ہے کہ مریخ کے نمکین پانی میں کیا زندگی کی اشکال بستی ہیں؟ اگر ہاں، تو وہ کس قسم کی ہیں؟ مغربی سائنس داں ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی خاطر دن رات تحقیق کر رہے ہیں۔ اور اس ضمن میں خاصی پیشرفت بھی ہو چکی ۔ماہرین نے زمین پر ایسے نامیات(Organism) مثلا ً جراثیم‘ کائی اور یک خلوی خرد نامیے( Archaea) دریافت کیے ہیں جو سمندری پانی سے پانچ گنا زیادہ نمکین پانی میں بھی زندہ رہتے ہیں۔ یہ نمکیات کھا کر پلتے بڑھتے اور زندہ رہتے ہیں۔ ان عجیب جان داروں کو ’’ہالو فائل‘‘ (Halophile )کا نام دیا جا چکا۔

مریخ کی آب و ہوا انتہائی سرد ہے۔ جون جولائی کی گرمیوں میں بھی سطح مریخ کا درجہ حرارت 1درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ سردیوں میں تو وہ منفی 127سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ تاہم سائنس دان زمین کے قطبین کی جھیلوں میں انتہائی ٹھنڈے پانی میں زندہ رہنے والے نامیات تلاش کر چکے۔ یہ نامیات ’’فزریو فائل‘‘ (Psychrophile) کہلاتے ہیں۔سائنس دانوں کی کھوج یہیں ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے قطب جنوبی کے سمندر میں ایسے نامیات ڈھونڈ نکالے جو شدید ٹھنڈ اور نمکین پانی ،دونوںمیں زندہ رہتے ہیں۔

ان خاص جان داروں کو ’’فزریو ہالو فائل‘‘ (Psychrohalophile) کا نام دیا گیا۔ یہ جاندار سمندر سے تین گنا زیادہ نمکین اور منفی12سینٹی گریڈ سرد پانی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان نامیات کو ایسا جسمانی نظام عطا فرمایا ہے کہ وہ پانی میں موجود نمکیات کھا کر نشوونما پاتے ہیں۔ یہی نمکیات فزریو ہالو فائل نامیات کو شدید ٹھنڈے پانی میں منجمند ہونے سے بچاتے اور زندہ رکھتے ہیں۔

مریخ کے جاندار
زمین کے نمکین اور سرد پانیوں میں فزریو فائلک کی موجودگی عیاں کرتی ہے کہ مریخی پانی میں بھی ان سے ملتے جلتے جاندار مل سکتے ہیں۔ تاہم دونوں سیارے‘ زمین اور مریخ بعض باتوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔پہلا فرق یہ کہ مریخ میں اوزن تہہ موجود نہیں۔ زمین والوں کو یہی تہہ سورج کی مضر صحت بالائے بنقشی (الٹراوائلٹ)شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ پھر مریخ کے پانی میں نمکیات کی بھاری تعداد پائی جاتی ہے۔ ان میں پرکلوریٹ (Perchlorate) کی کثرت ہے۔ یہ زہریلی نمکیات زمین پر موجود بیشتر جانداروں کو مار ڈالتی ہیں۔

گویا مریخ کے پانی میں کسی قسم کے نامیات زندہ ہوئے‘ تو قدرت نے انہیں یہ صلاحیتیں بخشی ہوں گی کہ وہ بالائے بتقشی شعاعوں اور زہریلے نمکیات کے حملے سہہ کر خود کو زندہ رکھیں۔ فی ا لوقت بیشتر مغربی سائنس دانوں کا خیال ہے، اگر مریخ کے پانی میں پرکلوریٹ نمکیات کی کثرت ہوئی‘ تو اس میں شاید ہی کوئی جان دار مل سکے۔

لیکن زمین پر جاری تحقیق و تجربات سے یہ حقیقت آشکار ہو چکی کہ زندگی اپنے ماحول سے جلد یا بدیر مطابقت کر ہی لیتی ہے‘ چاہے وہ کتنا ہی موذی و خطرناک کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر ماہرین ایسے جراثیم دریافت کر چکے جو تیزابی پانی میں بھی زندہ رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ایسا نامیہ سامنے آ چکا جو پانی میں پرکلوریٹ ہوتے ہوئے بھی اپنی بقا قائم رکھتا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے ، مریخ کی زیر سطح‘ گہرائی میں موجود پانی میں یقینا نامیات زندہ رہ سکتے ہیں۔ وہ پانی بالائے بنقشی شعاعوں کی پہنچ سے دور ہے نیز گہرائی میں پرکلوریٹ جیسی زہریلی نمکیات بھی کم ملتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے،مشینی گاڑیوں کے آلات گہرائی میں نہیں پہنچ سکتے۔ ان جانداروں کو تلاش کرنے کی خاطر انسانوں کو مریخ پہ جانا پڑے گا۔

بہرحال سطح مریخ پر پانی کی موجودگی یقینا عظیم الشان خبر ہے۔ یہ انسان کی سائنسی کھوج کا اہم سنگ میل ہے۔ اب اگلی جستجو یہ ہے کہ مریخی پانی میں کوئی جان دار مل سکے۔ جب بھی اس میں زندگی دریافت ہوئی‘ وہ دن تاریخ انسانیت میں بڑا تابناک اور حیرت انگیز ہو گا۔2020ء میں امریکی خلائی ادارے‘ ناسا کا ایک روبوٹ مریخ جا رہا ہے۔ اس روبوٹ گاڑی میں مریخی مٹی اور چٹانوں کا کیمیائی تجزیہ کرنے والے آلات نصب ہوں گے۔ اس تجزیے سے افشا ہو سکے گا کہ مریخ پر زندگی موجود ہے یا نہیں… گویا ہمیں انقلابی خبر سننے کے لیے محض پانچ برس مزید انتظار کرنا ہے۔

خلائی مخلوق اور قران پاک
جب چودہ سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک نازل فرمایا، تو جدید سائنس کا کوئی وجود نہ تھا۔ مگر اس مقدس کتاب میں ایسے سائنسی نظریے بیان ہوئے ہیں جو کئی سو برس بعد کڑی تحقیق وکھوج سے سامنے آئے۔ مثال کے طور پر سورہ الانبیاء کی آیت 30ملاحظہ فرمایئے:

ترجمہ: ’’اور کفار نے نہیں دیکھا کہ کائنات کی ہر شے اکائی کی شکل میں جڑی تھی۔ ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا۔ اور ہم نے زندگی کی نمود پانی سے کی وہ (کفار یہ حقائق جان کربھی) ایمان نہیں لاتے۔‘‘

اس آیت میں عصر حاضر کے دو بہت بڑے سائنسی نظریات بیان ہوئے ہیں۔ اول ’’بگ بینگ نظریہ‘‘ جس کی رو سے تقریباً تیرہ ارب سال پہلے کائنات کی ہر شے اکائی کی شکل میں تھی۔ پھر وہ دفعتہً الگ ہوئیں اور کہکشاؤں ‘ ستاروں‘ سیاروںوغیرہ کی شکل میں پھیل گئیں۔ دوسرا نظریہ یہ کہ پانی جو ہر حیات ہے۔ یعنی کائنات میں کسی بھی جگہ پانی موجود ہو، تو وہاں زندگی مل جائے گی۔ وجہ یہی کہ زندگی کی پیدائش پانی سے ہوتی ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم ہی میں بنی نوع انسان کو یہ انہونی خبر بھی دے چکے کہ کائنات میں زندگی کی دیگر اقسام موجود ہیں۔ اس سلسلے میں سورہ شوریٰ کی آیت29پیش خدمت ہے:

’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے۔ اور ان میں چلنے والے (جان داروں) کا(پیدا کرنا) بھی جو اس نے ان میں پھیلا دیئے ہیں۔‘‘

اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ محمد اسد اپنی انگریزی تفسیر (دی میسج آف قرآن) میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے مقدس کتاب میں جہاں بھی آسمانوں اور زمین (السموات والارض) کی اصطلاح استعمال کی ‘ تو اس سے مراد پوری کائنات ہے۔ جبکہ آیت میں جان دار (دابتہ) سے مراد زندگی کی ایسی شکل ہے جو حرکت کرنے کے قابل ہو۔‘‘

برصغیر کے ممتاز عالم دین‘ علامہ عبداللہ یوسف علی اپنی انگریزی تفسیر میں درج بالا آیت کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:’’ کائنات میں آسمانی اجسام (ستارے‘ سیارے وغیرہ) لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا معقول بات ہو گی کہ ان میں زندگی کی کوئی نہ کوئی شکل مل سکتی ہے۔‘‘ اب ایک اور شہادت دیکھیے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ’’رب العالمین‘‘ قرار دیا ہے یعنی’’ تمام دنیاؤں کا رب۔‘‘ یہ الفاظ بھی عیاں کرتے ہیں کہ کائنات میں دوسری دنیائیں واقع ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے بھی مالک ہیں۔

درج بالا آفاقی شہادتیں آشکار کرتی ہیں، ہماری وسیع و عریض کائنات میں زندگی کی دولت سے مالامال دنیائیں موجود ہیں ۔ بس انہیں تلاش کرنے اور کھوجنے کی ضرورت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’شارح قرآن‘‘ کہا جاتا ہے ۔

مولانا ابو الاعلی مودودی نے اپنی تفسیر ‘ تفہیم القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم قرآن کی بنیاد پر کامل یقین تھا کہ کائنات میں زمین جیسی دیگر دنیائیں بھی موجود ہیں۔مولانا لکھتے ہیں: ’’حضرت ابن عباسؓ کو یقین تھا کہ ان دنیاؤں میں انسان سے ملتی جلتی مخلوق آباد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کی ہدایت کے لیے بھی رسول اور پیغمبر مبعوث فرمائے ۔‘‘

زمین سے مماثلت
نظام شمسی میں زہرہ (وینس) کے بعد ہمارا قریب ترین پڑوسی سیارہ مریخ ہے۔ چونکہ زمین اور مریخ‘ دونوں سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں‘ اس لیے کبھی دور جاتے اور کبھی قریب چلے آتے ہیں۔ دونوں کے مابین بعید ترین فاصلہ 25 کروڑمیل جبکہ قریب ترین تین کروڑ تیس لاکھ میل بنتا ہے۔ گویا انسان روشنی کی رفتار (186,282میل فی سکینڈ) کی رفتار سے سفر کرے‘ تو وہ بعید ترین فاصلے کی صورت بائیس منٹ اور قریب ترین ہونے پر تین منٹ دو سیکنڈ میں مریخ تک پہنچ جائے گا۔

نیوہوریزنز (New Horizons) انسانوں کا بنایا ہوا تیز ترین خلائی جہاز ہے۔ اسے امریکی ادارے ناسا نے تیار کیا۔ 2006ء میں جب یہ محو پرواز ہوا‘ تو وہ 36 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ رہا تھا۔ انسان اگر اسی رفتار سے مریخ کی سمت سفر کرے‘ تو اسے پہنچنے میں بعید ترین فاصلے کی صورت 289دن جبکہ قریب ترین فاصلہ ہونے پر 39دن لگیں گے۔

مریخ اور زمین چند معاملات میں مماثلت رکھتے ہیں‘ اسی لیے یہ سیارہ طویل عرصے سے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ ماہرین کی رو سے زمانہ قدیم میں مریخ پر سمندر موجود تھے اور دریا بھی! سطح مریخ پر ان کی گذرگاہوں کے نشان آج بھی موجود ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ سارا پانی خلا میں تحلیل ہوا یا زیر سطح چلا گیا۔ اگر سمندر میں جانور موجود تھے‘ توو ہ بھی مر کھپ گئے۔

مریخ کی سطح پر وادیاں‘ آتش فشاں پہاڑ‘ صحرا اور قطبین موجود ہیں۔ اس کے دن کا عرصہ (24گھنٹے 37 منٹ) تقریباً زمینی دن جتنا ہے۔ پھر زمین کی طرح مریخ کا محور (Axis) بھی جھکاؤ (Tilt) رکھتا ہے۔ اسی جھکاؤ کے باعث مریخ میں بھی موسم پید ہوتے ہیں۔

ان مماثلتوں کے باوجود دونوں سیارے ایک دوسرے سے بہت مختلف بھی ہیں۔ مثلاً جسامت میں مریخ زمین سے آدھا چھوٹا ہے۔ پھر اس کی کمیت یا mass (مادے کی مقدار) زمین سے 90فیصد کم ہے۔ چھوٹا ہونے اور کم کمیت رکھنے کے باعث مریخ کی سطح زمین کے مقابلے میں صرف 38فیصد کشش ثقل رکھتی ہے۔ یعنی اگر زمین پہ آپ کا وزن 100کلو ہے‘ تو وہ مریخ پہنچ کر 38کلو رہ جائے گا۔

مریخ کا سب سے خطرناک روپ اس کی فضا (Atmosphere) دکھاتی ہے۔ یہ 95 فیصد تک کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پر مشتمل ہے۔ فضا میں آکسیجن کا تناسب صرف 0.146فیصد ہے ۔جبکہ زمین کی فضا میں 22فیصد حصہ آکسیجن کا ہے ۔اسی باعث زمین پر زندگی کی بقا ممکن ہو سکی۔

آکسیجن اور اوزون تہہ کی عدم موجودگی نیز بالائے بنقشی شعاعوں کی بمباری کے باعث سطح مریخ پر زندگی کا قائم دائم رہنا بہت مشکل ہے۔ انسان اگر اس سیارے پر آبادی بسانا چاہتا ہے‘ تو اسے درج بالا رکاوٹوں سے نبرد آزما ہونا پڑے گا ۔ شاید سائنس کی محیر العقول ترقی مستقبل میں ان رکاوٹوں کو دور کر ڈالے۔ یوں مریخ میں انسانی بستیاں بسانے کا خواب پورا ہو سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔