اذیت کا اظہار

عمر قاضی  پير 9 نومبر 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

وادی سندھ کے ادبی ہمالیہ سے بچھڑے ہوئے ہمیں اٹھارہ برس بیت چکے ہیں۔ اب جب بھی ان کے حوالے سے منعقد ہوتا ہوئی کوئی پروگرام نظر سے گزرتا ہے تو شیخ ایاز کی یہ اردو نظم یاد کی سطح پر پھول کے مانند تیرنے لگتی ہے:

اب کیوں لوگ برسیاں منانے لگے
اور عقیدت کی شمعیں جلانے لگے

پھول لانے لگے!!

شیخ ایاز نے یہ نظم جس کیفیت میں لکھی اس میں ایک دکھ تھا۔ ایک درد تھا۔اس میں ایک مایوسی تھی۔ وہ مایوسی اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے دور سے تھی۔ انھیں ہمیشہ شکایت رہتی تھی کہ لوگ محنت نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ شارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں۔ وہ اپنا قد بڑھانے کے بجائے کسی قدآور شخصیت کے کندھے پر سوار ہوجاتے ہیں۔آج ایاز ہمارے درمیاں نہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ دور اپنے منفی رجحانات کے ساتھ ابھی تک تاریخ کی مٹی میں مدفون ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ وہ دور ابھی تک اپنے منفی طریقوں سے باز نہیں آ رہا۔

اس بات کا ایاز کے حوالے سے شدید احساس اس وقت ہوا جب میں نے شیخ ایاز کی آپ بیتی کا اردو ترجمہ دیکھا۔ حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت کی طرف سے منظر عام پر لائی گئی اس کتاب میں بڑی محبت کے ساتھ شیخ ایاز سے جو تاریخی زیادتی کی گئی ہے، اس کی شکایت کس کریں؟ محکمہ ثقافت کی وزیر سے؟ اس محکمے کے سیکریٹری سے؟ ڈی جی کلچر سے؟ اس کتاب کو قابل اشاعت قرارر دینے والے نام نہاد عالمِ ایاز سے؟ یا اس مترجم سے جس نے ایک ہزار سے زائد صفحات کو کاٹ پیٹ کر تین سو اسی صفحات میں سمانے کا مجرمانہ کارنامہ سرانجام دیا ہے؟ آخر یہ شکایت کس سے کی جائے؟ جب کہ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر شیخ ایاز زندہ ہوتے تو وہ ان سب کو قانونی نوٹس بھیجتے اور ان سے مطالبہ کرتے کہ نہ صرف مذکورہ کتاب کی ساری کاپیاں جلادی جائیں بلکہ مصنف سے تحریری طور پر معافی بھی مانگی جائے اور یہ وعدہ بھی کیا جائے کہ آیندہ اس قسم کی حرکت دہرانے سے گریز کیا جائے گا۔

شیخ ایاز نے اپنی آپ بیتی کو چار جلدوں میں تحریر کیا تھا۔ جب کہ مترجم نے ان چاروں کتابوں کو ایک کتاب کی صورت دے دی ہے اور اوپر سے ظلم یہ ہے کہ مذکورہ کتاب پر ماہرانہ رائے دینے والے صاحب نے مترجم کے لیے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ’’زیر نظر کتاب ان کی خود نوشت (کتھے تہ بھنجبو تھک مسافر) کا تخلیص و ترجمہ ’’کہیں نہ تھکنا مسافر‘‘ ہے جو حمید جعفری نے کیا ہے۔ وہ ایک بزرگ لکھاری ہیں۔ شیخ ایاز اپنی تخلیقی رو میں لکھتے چلے گئے۔ انھیں اس کی چھان پھٹک کا موقع نہ مل سکا۔ لہٰذا ان کی خودنوشت میں بعض مقامات پر تکرار تھی، نیز لکھتے ہوئے ان کے تحت الشعور کا جھرنا بھی پھوٹ پڑتا تھا اور وہ اس میں غوطہ زن ہوجاتے تو کہیں وسعت مطالعہ کی قوس قزح میں کھوجاتے تھے، جن کا ان کی خودنوشت سے براہ راست اتنا تعلق نہیں ہے۔ حمید جعفری نے ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے تلخیص کی ہے‘‘۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے جس شخص نے پوری زندگی میں پانچ کتابیں نہیں پڑھیں، جس شخص نے پوری زندگی میں دو صفحات نہیں لکھے۔ وہ شخص یہ فیصلہ کرے کہ شیخ ایاز کی تحریر کا کون سا حصہ ضروری اور کون سا حصہ غیر ضروری ہے۔

یہ کتاب شیخ ایاز کی آپ بیتی کا ترجمہ نہیں بلکہ ایک عظیم شاعر کی ادبی توہین ہے۔ شیخ ایاز ایک ایک لفظ پر غور و فکر کیا کرتے تھے۔ وہ غیرضروری طور پر کاما اور فل اسٹاپ بھی نہیں دیتے تھے۔ ان کے لیے یہ کہا جائے کہ ان کی کتاب کا ستر فیصد مواد غیرضروری تھا؟کاش! مذکورہ کتاب کا مترجم اور اس پر ماہرانہ رائے دینے والا عالم جان پاتا کہ شیخ ایاز اپنی تحریر کے سلسلے میں بہت حساس تھے اور کاش! شیخ ایاز پر ظلم کرنے والوں کو یہ احساس بھی ہوتا کہ شیخ ایاز کا قد صرف سندھی زباں تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان کے ادبی حلقوں میں انھیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کا شمار فیض احمد فیض کے سطح کے شعراء میں کیا جاتا ہے۔ جب مذکورہ کتاب ان لوگوں کی نظر سے گزرے گی تو وہ کیا سوچیں گے؟ وہ سمجھیں گے کہ شیخ ایاز کی تحریروں کا ستر فیصد حصہ اس قابل ہے کہ اسے کاٹ کر ڈسٹ بن میں پھینکا جائے؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کی صورت ایاز پر ظلم کرنے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جس بات کو وہ شیخ ایاز کی خامی سمجھتے ہیں وہی تو ان کی خوبی ہے۔ ان کی تحریر اخباری رپورٹ کی مانند نہیں ہے۔ وہ جب بھی لکھتے تھے تب اپنی بات کے حوالے سے وہ ماضی کے واقعات، عالمی حالات اور بین الاقوامی ادب کے حوالے بھی دیتے جاتے۔ ان کی گفتگو کا بھی یہی انداز تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنی نوٹ بک میں لکھا ہے کہ ’’تمہیں شیخ ایاز کا انٹرویو کرنا ہے؟ کیا تم نے اسپیس سوٹ خریدا ہے؟؟‘‘ انھیں بات پیش کرنے کا خوبصورت فن آتا تھا۔ وہ ایک بات شروع کرتے اور پھر اپنے قاری کو پوری دنیا کی علمی ادبی سیر کرواکر واپس اس بات پر پہنچتے جہاں سے انھوں نے ابتدا کی تھی۔ یہ تو ان کی بہت بڑی خوبی تھی اور اس بات کو خامی قرار دیا گیا ہے اور ہمارے میڈیا کے ایک اچھے خاصے اینکر پرسن اور کالم نگار نے بغیر جانے اور بغیر کتاب کا مطالعہ کیے صرف کتاب بھیجنے والے کی ہمت افزائی کرتے ہوئے یہ الفاظ بھی لکھے ہیں کہ ’’حمید جعفری نے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے اور خوب کیا ہے‘‘۔

کاش! مذکورہ کالم نگار کو سندھی زباں سے آشنائی ہوتی تو وہ کتاب کے نام پر ہی اٹک جاتے۔ وہ آگے ہی نہ بڑھتے۔ کتاب کا اصل نام ہے ’’کتھے نہ بھنجبو تھک مسافر‘‘ جس کا لفظی ترجمہ ہے کہ ’’اے مسافر! کہیں تھک کر مت بیٹھنا‘‘ اور اس کا ترجمہ کیا گیا ہے ’’کہیں بھی راہ میں منزل نہ ہوگی‘‘ حالانکہ شاعر مسافر سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہے کہ منزل پر پہنچنے سے پہلے راستے میں تھک کر مت بیٹھنا۔ اس مسافر کو منزل کی تلاش ہے اور اس کے لیے لکھا گیا ہے کہ اس کی کوئی منزل نہیں۔ اگر کوئی منزل نہیں تو پھر کوئی سفر ہی کیوں کرے؟شیخ ایاز نے صرف عظیم مصنف ہی نہیں بلکہ وہ عظیم مترجم بھی تھے۔ ان کے ترجمے کے حسن کی ایک جھلک آپ ان کے اس غزل سے لگا سکتے ہیں جس میں انھوں نے سچل سرمست کے سندھی کلام کو اردو کا روپ عطا کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے کہ:

وہی موج تلاطم ہے، وہی اپنا سفینہ ہے
مسلسل ہے حیات اپنی، نہ مرنا ہے نہ جینا ہے

دیار کفر و ایماں ہے، سنبھل کر چل ارے ناداں
یہاں تو فرط نفرت ہے، یہاں تو شرط کینہ ہے

اس انداز کو کہتے ہیں ’’تخلیقی ترجمہ‘‘۔ جو شاعر دوسرے شعراء کے کلام کا اتنا حسین ترجمہ کرتا ہو جب اس کی تحریر سے اس طرح کھلواڑ کیا جائے تو یہ ناقابل معافی جرم ہے۔

شاید ایسے لکھاریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ:’’اس ننھے منے پرندے کو سمجھاؤ کہ پھولوں سے سجی ہوئی ڈالی پر اپنے مٹی سے بھرے ہوئے پیر نہ رکھے‘‘ مگر مذکورہ مترجم نے تو روح ایاز سے ادبی ظلم کیا ہے۔ اس نے تو سارے خوبصورت پھول نوچ ڈالے ہیں اور سارے حسین پتوں کو زمین پر گرا ڈالا ہے۔ادب کا معاملہ بیحد حساس معاملہ ہوتا ہے۔ اس لیے شیخ ایاز نے اپنی سندھی تحریروں کے ترجمے کا حق صرف اردو کی ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض کو دیا تھا۔ وہ فہمیدہ ریاض ادب کے بارے میں کس قدر ذمے دار ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا مذکورہ کتاب کا مسودہ ان کی نظر سے گزرا تھا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ کلچر ڈپارٹمنٹ نے مجھے اس کتاب کا مسودہ بھیجا تھا مگر ان دنوں میں میری صحت ٹھیک نہیں تھی مگر میں نے پھر بھی مسودے کو نظر سے گزارا اور مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ ظاہر ہے کہ فہمیدہ ریاض کو ایاز کا اسلوب معلوم تھا۔ ان کو خبر تھی کہ ایاز کا انداز تحریر کیسا ہے؟ اس لیے انھیں مذکورہ کتاب سمجھ سے بالاتر محسوس ہوئی۔ مگر کلچر ڈپارٹمنٹ والوں نے بغیر جانے اور بغیر کسی سے پوچھے اس کتاب کو پریس میں بھیج دیا اور جب یہ کتاب چھپ کر سامنے آئی تو شیخ ایاز کے پرستاروں کو اذیت محسوس ہونے لگی۔ یہ کالم اس اذیت کیا اظہار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔