حالِ دل سناتے ہیں عینک ہٹا کر

بالآخر مقابلے کے بعد ہم نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، نظریات و اختلافات کو دور کیا اور عینک بھی توڑ دی (تعصب والی)۔


طلحہ انور February 01, 2016
اُمید ہے کہ وہ عینک اب کبھی نہ جڑ سکے اور ہم تمام خود ساختہ بندشوں سے نکل کر رشتوں کی کیاریوں میں محبت کی آبیاری کریں۔

MIRAMSHAH: ہم کراچی کے شہری ہیں لہذا ہر شہری کی طرح ''دوہری شہریت'' اور ڈھیر ساری ''شہرت'' ہی چاہتے ہیں۔ اس شہر میں بجلی دوا کی طرح 2 گھنٹے صبح، 2 دوپہر،2 شام میں ملتی ہے۔ گیس ایک ناغہ کے ساتھ اور پانی تو اب سڑکوں پر ہی ملتا ہے۔ کبھی گھر پہنچتے وقت گھنٹوں ٹریفک میں انتظار کرنا پڑتا ہے، جتنی دیر میں شاید دوسرے شہروں کی مسافت طے ہوجاتی ہے، تو کبھی سڑکوں کے کنارے یا راہ چلتے کوئی ''سفید پوش راشی افسر'' اپنی ''خدمات'' انجام دینے کے لئے بے جا راستہ روکتا ہے اور پھر انہیں ''کچھ لے دے کر'' ہی جان چھوٹتی ہے۔

اسی ٹریفک میں رکشوں میں بچوں کی ولادت بھی ہوتی ہے اور کبھی ایمبولینس میں آخری سانس ٹریفک کے دھوئیں کی آلودگی کو چیرتی ہوئی نکل جاتی ہے۔ اسی بجلی، پانی اور گیس کے اوقات یاد کرتے کرتے اپنی ''اوقات'' سمجھ آرہی ہے۔ جب یہ بنیادی ضروریات ملتی ہیں تو ہم خوشی میں جھومتے ہیں اور نہ ملے تو ہم ہوش میں ''سڑکوں'' پر گھومتے ہیں۔

ان ناقص انتظامات نے حقوق کی عدم فراہمی اور احساس محرومی نے تو گویا ہمیں متحد و یکجا کردیا ہے۔ اب اس کی پریشانی، اپنی ذمہ داری لگتی ہے۔ روزانہ کسی نہ کسی علاقے والوں کے ساتھ ریلی یا پُرامن دھرنا ضروری سا ہوگیا ہے اور ''تعصب'' تو جیسے ناپید ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے جب سب کے ہی حالات یکساں ہوں تو تعصب کی عینک لگا کر بھی سب برابر دکھتے ہیں۔
اسی برابری اور ''برادری'' کے جنون میں ہم نے برابر والے صوبائیت سے پاک صوبے ''پنجاب'' میں ایک تقریری مقابلے میں کراچی کی 2 ٹیموں کا اندراج کرا دیا اور واقعی برابری کے سلوک کےعین مطابق ہمیں دعوت نامہ بھی موصول ہوگیا۔ ہم مقررین راستے بھر مختلف موضوعات پر بحث کرتے رہے اور خود کو مختلف زاویوں سے جانچتے اور دعوت فکر دیتے رہے۔ خود کو جھنجھوڑتے اور خیالات ٹٹولتے رہے آخر کار''عبداللہ شاہ غازی کی نگری'' کراچی کی نمائندگی کا بوجھ لئے داتا کی نگری ''لاہور'' جا پہنچے۔

ٹرین سے اترتے ہی لگا کہ شاید ہم پٹری سے ہی اتر گئے ہیں۔ دوپہر کا وقت تھا مگر دھوپ نہیں تھی۔ پھر بھی سب ہمیں دیکھتے ہی عینک لگا لیتے (تعصب کی)۔

ساری دنیا کا بوجھ اٹھانے والے (قلی) جیسے ہمیں نظروں سے گرا رہے تھے، ٹیکسی والے پردیسی ہونے کا خوب فائدہ اٹھا رہے تھے اور ''برابری'' کی اینٹ تب گری جب ہمیں رہائش دے کہ کہا کہ طعام کا بندوبست خود کریں۔ ارے برابری تو چھوڑئیے، انہوں نے برابر کا کمرہ تک نہ دیا شاید اس لئے کہ ہم ان کی''متعصبانہ'' باتیں نہ سن لیں یا شاید انہیں ڈر تھا کہ وہ ہماری ''پاجامہ پارٹی'' کے شور سے ''تقریر'' کی تیاری نہیں کر پائیں گے۔

خیر ہم نے سوچا کہ آگے بڑھتے ہیں، مگر رکشے والے آگے بڑھنے کے اتنے زیادہ پیسے مانگتے کہ ہم نے سوچا پیچھے ہی رہتے ہیں۔ کھانا کھانے بیٹھے تو ہر نوالے پر''عائشہ ممتاز'' کا ایک ایک کارنامہ یاد آجاتا اور نوالہ ٹھہر سا جاتا۔ نوالے نگلتے ہوئے یوں 2 دن نکل گئے۔
اب باری تھی تقاریر کی۔ اِس بار بھی کراچی کی ٹیم نے اول پوزیشن حاصل کی (پنڈال میں پہنچنے کی)، طویل انتظار کے بعد تمام ٹیمیں جمع ہوئیں اور موضوعات کا اعلان ہوا۔ ہم بھی اپنا موضوع لیا اور مخالف ٹیم کے ہمراہ جا پہنچے۔

تقریر کے پہلے لفظ سے ''شکریہ'' تک ہمیں یقین تھا کہ جیت ہماری طشتری میں ملے گی اور پھر منصفین نےعینک لگالی (تعصب والی) اور ہمارے جذبات کو ''لاہور پایوں'' تلے روانہ کیا۔
ہم بھی ڈٹے رہے، دوسرا مقابلہ کیا۔ خامیاں، برائیاں، ڈھانپ لیں مگر لہجہ اور شناخت نہ چھپا سکے لہذا ''عینک والے جن'' پھر جادو کرکے ہمیں اڑن چھو کرگئے۔

مگر 30 برس سے مسلسل خانہ جنگی میں رہنے والے ہم اہلِ کراچی اتنے سخت جان ہوگئے ہیں کہ ہمارا جوش بڑھتا ہی رہا اور تیسرے Free Speech کو مہذب اور حدود و قیود میں رکھنے کے لئے Humorous Speech کی گذارش کی اور وہ قبول ہوئی۔

اور پھر ٹیم میں خواتین کو دیکھ کر انہیں کوئی ''زیبا'' یاد آگئیں اور ''نازیبا'' الفاظ کی پلید بارش کر ڈالی۔ ہم نے حتی المقدور کوششوں سے موضوع کو مثبت انداز میں پیش کیا اور اس بار کوششیں رنگ لائیں، دعائیں قبول ہوئیں مگر مخالف ٹیم کی، اور ہم ''ہار'' گئے۔ اب ہمیں اپنی محنت پر اور ان کی عینک پر پورا بھروسہ تھا۔ ہر حزبِ اختلاف کی جانب سے ہماری شہریت پر نکتہ ضرور اٹھتا، شہر کے حالات پر، لوگوں کے نظریات پر، کچھ کی نظروں میں صرف شرارت تھی اور کچھ کی نظروں میں واقعی ''حقارت''۔

بالآخر مقابلے کے بعد ہم نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، نظریات و اختلافات کو دور کیا اور عینک بھی توڑ دی (تعصب والی)۔ حالانکہ نتائج کچھ ایسے تھے کہ دور ہی سے ''بناعینک'' نظر آرہے تھے، اور شاید ہماری سوچ سے عینک ٹوٹ چکی تھی کہ ہماری کراچی کی ٹیم بالآخر ٹاپ فائیو میں موجود تھی۔

اُمید ہے کہ وہ عینک اب کبھی نہ جڑ سکے اور ہم تمام خود ساختہ بندشوں سے نکل کر رشتوں کی کیاریوں میں محبت کی آبیاری کریں۔ اگر ہم نوجوان مباحثہ اور دلائل سے دلوں کے دبیز پردے ہٹا سکتے ہیں تو آپ نے کیوں ہونٹ سی رکھے ہیں؟ مکالمہ کیجئے، حل نکالئے اور ہاں آپ بھی عینک توڑ دیجئے۔
''مندرجہ بالا متن بغیرعینک کے پڑھنے کا شکریہ''۔

[poll id="927"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

مقبول خبریں