مکمل تبدیلی کے لیے

عوام کو لاحق غربت، جہالت، بھوک، انتہا پسندی جیسی بیماریوں کی ساری ذمہ داری دولت کی عدم مساوات پر عائد ہوتی ہے۔


Aftab Ahmed Khanzada November 07, 2012
آفتاب احمد خانزادہ

میکسم گورکی کا سب سے مشہور ناول ''ماں'' ہے دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔

یہ ناول انقلاب روس سے پہلے کے حالات، جدوجہد اور انقلاب میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول انقلاب روس میں عورتوں کی جدوجہد کو Focus کرتا ہے۔ انقلاب سے پہلے روس جن معاشی حالات سے دوچار تھا عوام کی زندگی کو کس طرح دوزخ بنا دیا گیا تھا اور پھر وہ سب انقلاب اور تبدیلی کے لیے کیسے کمربستہ ہوئے یہ سب واقعات اس ناول کے پلاٹ میں شامل ہیں۔ ناول ''ماں'' کا مرکز ی کردار ناول کے ہیرو پافل کی بوڑھی ان پڑھ ماں Pelagea Nilovna ہے جو انقلاب کے فلسفے سے قطعی لاعلم ہے وہ غربت میں پلی بڑھی مظلوم عورت ہے وہ ایک سیدھی سادی عورت ہے جس کی زندگی تشدد اور ظلم سہتے ہوئے بسر ہوئی اسے اپنے خاوند اور سماج کے ستم برداشت کرنا پڑے اسے اپنے بیٹے پافل سے بہت پیار ہے پافل وہ نوجوان ہے جو اپنے باپ کی وفات کے بعد فیکٹری میں ملازم ہو جاتا ہے فیکٹری میں لوگوں سے مل کر انقلابی ذہن رکھنے والے دوستوں سے بحث مباحثے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ صرف مزدور ہی ہیں جو نظام میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔

پافل سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور گھر کتابیں لانا شروع کرتا ہے گھر میں پافل کے دوستوں کی مجلس جمنا شروع ہوتی ہے پافل کی ماں پہلے پہلے تو بیٹے کے منہ سے نکلے الفاظ سمجھنے سے قاصر ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ باتیں اچھی لگنا شروع ہوتی ہیں اور پھر بوڑھی ماں اپنے آپ کو ان جوان لڑکوں کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے جو انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ پافل کی ماں کے علاوہ اس ناول میں اور بھی کئی نسوانی کردار ہیں۔ ساشا، لڈمیلا، صوفیا اور نتاشا اپنے رشتے داروں اور گھر والوں کو چھوڑ کر انقلابیوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔

نتاشا ایک امیر باپ کی بیٹی ہے جو صاحب جائیداد ہے لیکن نتاشا انقلاب کے لیے سب کچھ ٹھکرا دیتی ہے پافل کی ماں صرف پافل کی ماں نہیں اس کے دل میں سب انقلابیوں کے لیے محبت ہے اسے پافل کے ایک دوست Andrei Nikhodka سے بہت پیار ہے جو یوکرائن کا رہنے والا ہے وہ ہمیشہ اسے Nenko کہہ کر بلاتا ہے جو یوکرائن کی زبان میں ''ماں'' کو کہتے ہیں پافل کی ماں کا غصہ اس وقت دیکھنے کے قابل ہے جب فیکٹری کی انتظامیہ ہر مزدور کی تنخواہ سے ایک Kopek کاٹنا شروع کر دیتی ہے پافل اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور ایک جلوس نکالنے کی تیاری کرتا ہے لیکن اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے پافل کی ماں کا اب ایک اور روپ سامنے آتا ہے فیکٹری کے اندر سوشلزم کا لٹریچر لے جانے پر پابندی ہے اور وہ اپنے کپڑوں میں چھپا کر پمفلٹ اندر لے جاتی ہے اور مزدوروں کو خبریں پہنچاتی ہے۔

یوم مئی کا واقعہ ناول میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے پافل پر مقدمہ چلتا ہے وہ عدالت میں جج کے سامنے زور دار تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے ''ہم اس نظام کے خلاف ہیں جس نظام کی حفاظت کے لیے تمہیں کرسی پر بٹھایا گیا ہے تم روحانی طور پر اس نظام کے غلام ہو اور ہم جسمانی طور پر۔ ہمارے اور تمہارے درمیان نظام کی تبدیلی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔'' اندر بیٹا تقریر کر رہا ہے اور باہر ماں کو لوگ بیٹے کی جرأت کی داد دے رہے ہیں۔ پافل کو سائبیریا جلاوطنی کی سزا دی جا رہی ہے ماں لوگوں کے سامنے تقریر کرتی ہے اور کہتی ہے ''اگر ہمارے بیٹے جو ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں نظام کی تبدیلی کے لیے جان دے سکتے ہیں تو ہم اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے۔'' پافل کو سائبیریا روانہ کیا جانے والا ہے ماں اس کی تقریر چھپوا کر لوگوں میں باٹنا چاہتی ہے چنانچہ وہ چوری چھپے چھاپہ خانے جاتی ہے پافل کی تقریر سائیکلو اسٹائل کراتی ہے اسٹیشن پر جاتی ہے اور لوگوں میں تقریر کے صفحات باٹتی ہے۔ زار حکومت کے سپاہی اسے مارتے ہیں اور اس کے بال نوچتے ہیں ٹھڈے مارتے ہیں اور وہ مار کھاتی رہتی ہے اور چلاتی رہتی ہے ''کہ خون کا سمندر بھی سچائی کو بہا کر نہیں لے جا سکتا۔ پافل کی طرح پاکستان کی 18 کروڑ انسان بھی نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔

ارسطو کہتا ہے تمام معاشرتی عدم مساوات دولت کی عدم مساوات ہے پاکستان کے عوام کو لاحق بے روزگاری ، غربت، جہالت، بھوک، انتہا پسندی جیسی بیماریوں کی ساری کی ساری ذمے داری دولت کی عدم مساوات پر عائد ہوتی ہے ان ہی بیماریوں نے جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ درگور کر رکھا ہے آج ہم جس حال میں ہیں اور جس حالت میں کھڑے ہیں یہ 64 بر س کا قصہ ہے یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ ہم نے قدم بقدم اپنے لیے گڑھے کھود ے، جال بچھائے، پھندے لگائے پہلے ہی روز سے ہم اپنے دشمن آپ بنے ہوئے تھے آج ہم جتنے عذاب جھیل رہے ہیں وہ سب ہماری ہی فخریہ پیشکش ہیں ہمیں اختیارات کی بھوک نے تکالیف اور اذیت میں ڈال رکھا ہے 64 سال سے ہم اس بھوک کی وجہ سے عذاب جھیل رہے ہیں اس بھوک کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کا استحصال کر رہا ہے یہ نظام 64 سال سے بھی جوں کا توں ہے اور جو اس نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ان کے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں ہے اور جیتنے کو ایک دنیا پڑی ہے آج جنگ ایسے دور میں داخل ہو گئی ہے جب طبقاتی کشمکش عروج پر ہے لوٹنے اور لٹنے والے بہت واضح طور پر ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آرا ہو رہے ہیں۔

مرتا ہوا دم توڑتا ہوا استحصالی طبقہ طرح طرح سے انقلابی دھارے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اسٹالن اپنی کتاب ''جدلی اور تاریخی مادیت'' میں لکھتا ہے کہ سماج کے ارتقاء میں ایسے پرانے خیالات اور نظریے ملتے ہیں جن کی عمر ختم ہو چکی ہے اور جو سماج کی مرتی ہوئی قوتوں کے مفاد کی خدمت کرتے ہیں ان کی اہمیت صرف اس قدر ہے کہ وہ سماج کے ارتقاء اور ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اب یہ نوچ کھوسٹ اور لوٹ کھسوٹ کا دیمک ذرہ نظام زیادہ دیر نہیں چل سکے گا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تم کس طبقے کے ساتھ ہو اس طبقے کے ساتھ جو تم کو غلام بنائے ہوئے ہیں یا اس طبقے کے ساتھ جو سماج سے طبقہ واریت کو ختم کر کے ایک نئے سماج کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اختیارات کے بھوکوں نے پاکستان کے عوام کی 64 سالوں میں جو درگت بنائی اللہ کی پناہ لیکن عوام نے تمام تر ناقابل بیان اذیت، تکالیف، مصیبتوں کے باوجود اپنے حقوق اور جمہوریت کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔

مقبول خبریں