پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ پر امریکی اظہار اطمینان
اگر پاک بھارت جنگ ہوئی اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہوا تو پھر خطے میں سوائے تباہی کے کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا
اگر ایٹمی ہتھیار نہ ہوتے تو بھارت کب کا پاکستان پر حملہ کر چکا ہوتا۔ فوٹو: فائل
امریکا نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے لیے پاکستان عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی سے بھرپور تعاون کر رہا اور ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی بخوبی نبھا رہا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکا کی آرمز کنٹرول اور انٹرنیشنل سیکیورٹی کی نائب سیکریٹری روزگاٹ مائلر نے سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کو بتایا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے لیے پاکستان کا سینٹر فار ایکسی لینس ادارہ نہ صرف بہترین انداز میں کام کر رہا بلکہ علاقائی سطح پر عالمی ایجنسی کے تعاون سے تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے سینٹر فار ایکسی لینسی کا قیام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، اوباما انتظامیہ نے بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروںکی دوڑ میں پیش رفت دیکھی ہے۔ اس موقع پر سینیٹر باب کروکر نے کہا پاکستان اور بھارت دونوں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیے ایٹمی ہتھیاروںکی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے حوالے سے اطمینان کا اظہار پاکستان کی بہتر کارکردگی اور ذمے داری پر دلالت کرتا ہے۔ جہاں تک جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کا تعلق ہے تو اس کا آغاز سب سے پہلے بھارت ہی نے کیا جس سے پورے خطے کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی' لازمی امر ہے کہ بھارت کو ایٹمی ٹیکنالوجی عالمی طاقتوں ہی نے فراہم کی تھی۔ یہ صورت حال پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے مستقل طور پر خطرہ بن گئی جس پر وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔
بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں تیزی سے ہوتے ہوئے اضافے نے بھی پاکستان کو اس دوڑ میں شریک ہونے پر مجبور کیا۔جب امریکا کو یہ معلوم ہے کہ بھارت جوہری ہتھیاروں کے انبار لگا رہا ہے تو وہ اسے روکنے کے لیے کوئی کردار ادا کیوں نہیں کر رہا۔اس سلسلے میں امریکا کا کردار دوغلی پالیسیوں کو ظاہر کرتا ہے،وہ بیانات کی حد تک بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ذکر تو کرتا ہے مگر عملی طور پر وہ اسے ایٹمی اور جنگی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے معاہدے بھی کر رہا ہے۔ امریکا ایک عرصے سے پاکستانی ایٹمی پروگرام پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کی جانب سے بارہا یہ مطالبہ کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرے، سامنے آچکا ہے۔
امریکا نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپنے اس مطالبے کا متعدد بار اعادہ کیا مگر پاکستان نے ہر بار یہ واضح کر دیا کہ اس کا ایٹمی پروگرام اپنے ملک کی سلامتی کے لیے ہے اور وہ کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اس لیے وہ کسی صورت اپنے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور نہ اسے رول بیک کرے گا۔جہاں تک دوسروں پر ایٹمی حملے کا تعلق ہے تو سب سے پہلے امریکا ہی نے خود غیر ذمے داری اور سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی حملہ کر کے انھیں تباہ کر دیا تھا۔ اس کے سوا دنیا میں دیگر جتنی بھی ایٹمی قوتیں ہیں انھوں نے ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے ایٹمی ہتھیار کسی دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کیے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک نے چھوٹے ایٹمی ہتھیار تیار کر رکھے ہیں جنھیں مقررہ ہدف کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آخر ان ہتھیاروں کی تیاری کا کیا مقصد ہے اور انھیں کن کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اخباروں میں ایسی خبریں بھی منظر عام پر آچکی ہیں کہ امریکا' فرانس اور دیگر عالمی طاقتوں نے لیبیا کے معمر قذافی کو ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے اور صدام حسین جیسے انجام کی دھمکی دے کر جھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جہاں تک ایٹمی حادثات کا تعلق ہے تو تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود ان کا خطرہ بدستور موجود رہتا ہے۔
اپریل 1986ء میں یوکرائن میں جو اس وقت سوویت یونین کے ماتحت تھا' چرنوبل نیو کلیئر پاور پلانٹ میں حادثہ ہوا تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں' یہ دنیا کا سب سے بڑا ایٹمی حادثہ تھا۔ اس کے علاوہ بھارت میں بھی متعدد بار ایٹمی حادثے رونما ہو چکے ہیں۔ امریکا جو سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھتا اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہے وہ بھی ایٹمی حادثات سے محفوظ نہیں رہا وہاں بھی بڑی تعداد میں ایٹمی حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک دنیا کے دیگر ممالک کو ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کا معاملہ ہے تو اس میں بھی امریکا' یورپ اور روس کے نام سرفہرست دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ ذمے دار ایٹمی ملک ہونے کا مظاہرہ کیا۔ ایک حلقے کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ پاکستان جو غربت' پسماندگی اور جہالت کا شکار ہے اسے اپنے قومی وسائل ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرنے کے بجائے ملکی اور عوامی ترقی پر صرف کرنا چاہے۔ اس کے برعکس دوسرا حلقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار ہی پاکستان کی سلامتی اور بقا کی ضمانت چلے آ رہے ہیں۔ اگر ایٹمی ہتھیار نہ ہوتے تو بھارت کب کا پاکستان پر حملہ کر چکا ہوتا اور جب امریکا اور نیٹو نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایٹمی ہتھیاروں کے خوف ہی کے باعث امریکا نے پاکستان پر چڑھائی نہیں کی ورنہ وہ اب تک عراق اور افغانستان کی طرح پاکستان کا بھی تورا بورا بنا چکا ہوتا۔
بھارتی حکومت بخوبی جانتی ہے کہ اگر پاک بھارت جنگ ہوئی اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہوا تو پھر خطے میں سوائے تباہی کے کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا۔ اس لیے یہ ایٹمی ہتھیاروں کا خوف ہی ہے جو بھارت کو ایک بڑی جنگی قوت ہونے کے باوجود پاکستان پر حملے سے روکے ہوئے ہے۔ اس لحاظ سے ایٹمی ہتھیار اس خطے کی سلامتی کی ضمانت بھی بن چکے ہیں کیونکہ ایٹمی قوتیں ایک دوسرے سے براہ راست لڑنے سے گریز کرتی ہیں۔ بہرحال یہ امر اطمینان بخش ہے کہ امریکا نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کا نظام فول پروف ہے' یہ یقیناً پاکستان کا ایک ذمے دار ایٹمی ملک ہونے کا ثبوت ہے۔