یہ مال و دولت دنیا
ہمارے وزیراعظم نے بھی اس منحوس ادارے ’پانامہ لیکس‘ کے بارے میں عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے
ان دنوں صبح صبح اخبار دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ مالدار لوگوں کے مال پر بنی ہوئی ہے اور کتنے ہی ادارے ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو ان کا حساب کتاب لینے پر تلے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی ادارہ بھی ہم غریب غربا کی پروا نہیں کرتا کہ ہم کیوں غریب ہیں اور ہماری غربت کا کوئی علاج ان کے پاس ہے بھی یا نہیں حالانکہ علاج موجود ہے اور وہ ہے مالداروں کی دولت۔ اگر اس دولت کو منصفانہ انداز میں تقسیم کیا جائے تو غریبوں کی غربت ختم یا بہت حد تک کم ہو سکتی ہے کیونکہ ان لوگوں کی امارت یعنی دولت مندی کی وجہ سے ہی ان کے کچھ ہم وطن غریب ہوئے ہیں اگر یہ دل پر پتھر رکھ کر اپنی دولت کا کچھ حصہ قربان کر دیں یعنی ناداروں کو دے دیں تو نہ صرف ان کی دولت مندی کے تفکرات کم ہو جائیں گے بلکہ وہ ایک پر مسرت زندگی شروع کریں گے جس میں مال کی فراوانی سے وابستہ پریشانیاں نہیں ہوں گی۔
عرض کیا ہے کہ ان دنوں تمام اخبارات صبح صبح اپنے دولت مند قارئین کی خوشیاں چھین لیتے ہیں اور کسی ایسے ادارے کی خبریں چھاپتے ہیں جو دولت مندوں سے ان کی دولت کا حساب لینے پر تلا ہوا ہے۔ یہ ادارہ اپنے آپ کو ایک عالمی ادارہ ظاہر کرتا ہے جس کے ہاتھ پاؤں بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اس نئے خوفناک ادارے کا نام ہے 'پانامہ لیکس'۔ اس میں کوئی بات ضرور ہے کہ یورپ کے ملکوں کے وزرائے اعظم بھی اس کے ڈر سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم نے بھی اس منحوس ادارے 'پانامہ لیکس' کے بارے میں عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت میں بھی ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے اسی طرح دوسرے ممالک بھی جن میں بڑے نامور ملک بھی ہیں ان کے حکمران مستعفی ہو گئے ہیں جیسے آئس لینڈ کے وزیراعظم اور لطف کی بات یہ ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم کے والد ماجد بھی پانامہ والوں کے زیر تفتیش ہیں۔
خبروں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور نہ جانے کس کس ملک سے حکومتوں کے خاتمے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں اور وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ دولت مند ہیں خصوصاً جب کوئی حکمران دولت مند بن جاتا ہے تو اس کو معافی نہیں مل سکتی گویا یہ طے ہے کہ قومی حکمران جائز طریقے سے دولت مند نہیں بن سکتا وہ دولت سمیٹنے کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرتا ہے۔
دولت مندوں میں کچھ لوگ تو خاندانی طور پر اور کچھ کسی کاروبار کی وجہ سے دولت مند ہوتے ہیں لیکن کسی کے بارے میں اتنی گہرائی میں کون جاتا ہے، لوگ ظاہر کو دیکھتے ہیں اور دولت مندی چھپ نہیں سکتی جو کوئی دولت مند ہوتا ہے اس کی نشست و برخاست سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی مالی حیثیت کیا ہے پھر ایسا کون ہوتا ہے جو اپنی خوشحالی کو چھپاتا پھرے۔ ہماری آپ کی دنیا میں زندگی صرف مالدار لوگوں کی ہے غریب تو وہ ہیں جو مزدور ہیں یا ہمارے آپ کے گھروں میں کام کرتے ہیں اور گھریلو ملازم کہلاتے ہیں۔
کبھی کبھار کوئی خبر چھپتی ہے کہ گھر میں کام کرنے والے کسی بچی یا لڑکے کو گھر والوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس قدر کہ وہ زندگی و موت کی کشمکش میں پھنس گیا۔ میں نے چند ایسے واقعات کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ان لوگوں میں گھریلو ملازم کا رواج ہی نہ تھا جب کسی وجہ ملازم رکھا بھی گیا تو اس کی کسی کوتاہی کی وجہ سے اسے مارا پیٹا گیا اور یہ مار پیٹ کبھی حد سے بڑھ گئی اور مسئلہ پولیس کا بن گیا اور مضروب کو اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ جہاں سے یہ واقعہ ایک خبر بن کر اخبار میں آ گیا مگر جو لوگ گھریلو ملازم ہوتے ہیں ان کو بے سہارا ہی چھوڑ دیا جاتا ہے ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ کسی کی مہربانی ہوتی ہے کہ اسے اسپتال میں داخل کرا دیا جائے۔
بات دولت مندی کی ہو رہی تھی اور ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں اسی میں دولت مندی کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے انسان کسی مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ یہ ہماری روز مرہ کی زندگی ہے جس کے مصائب کا ہم حساب کریں تو ان کے پیچھے مال کی فراوانی نکلتی ہے یا اولاد کی کوئی خرابی۔ مال اور اولاد انسان کو بے بس کر دیتے ہیں۔ ہمارے شاعر اقبال نے کچھ ایسا ہی محسوس کر کے کہا تھا کہ
یہ مال و دولت دنیا' یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں' لا الہ الا اللہ
اقبال جن چیزوں کو وہم و گماں قرار دیتا ہے اور انھیں بے وقعت سمجھتا ہے ہم ان کے حصول کے لیے اپنا ایمان تک داؤ پر لگا دیتے ہیں اور اقبال اسے ہی فتنہ سمجھتے ہوئے اپنی شاعرانہ زبان میں بتان وہم و گماں قرار دیتا ہے اور یہ سب ہماری آپ کی دنیا کے المیے ہیں جن کا ہم دن رات سامنا کرتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ مال اور اولاد دونوں فتنہ ہیں اور یہ خدا کا فرمان ہے۔