یہ سیاسی خاموشی
بعض غیر ملک جن میں برطانیہ سرفہرست ہے ناراض پاکستانیوں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں
وطن عزیز کے ایکسپریس کے زیر اشاعت گیارہ بڑے شہروں کے ہزارہا کی تعداد میں شہریوں کا ہر روز سامنا کرنا اور ان سے بڑے نازک موضوعات پر گفتگو کرنا غیر معمولی سوجھ بوجھ کا مسئلہ ہے اور میرے ان محترم قارئین کا حوصلہ ہے کہ وہ مجھے برداشت کرتے چلے جا رہے ہیں اور میرے سیاسی خیالات کو بعض اوقات پذیرائی بھی بخشتے ہیں۔
قارئین کے اس حسن سلوک کو دیکھ کر میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان کے سامنے سیاست کی صحیح تصویر پیش کروں لیکن ہمارے سیاستدان اس قدر بے تاب رہتے ہیں کہ ان میں صبر قسم کی کوئی صفت موجود نہیں رہتی۔ اب جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے تو ہمارے بیشتر بڑے سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ لندن میں قیام پذیر ہوں گے یا سمندر پار کے اس شہر تک کے سفر میں ہوں گے۔ یہ قریب قریب سارے کے سارے سیاستدان کیوں لندن پہنچ گئے ہیں مجھے اس میں چھپے راز کا علم نہیں اور غالباً لندن کے ان مسافروں کو بھی پوری طرح معلوم نہیں کہ وہ اس سفر پر کیوں ہیں اور اس شہر میں کیا کر رہے ہیں۔
اب تو لندن میں کچھ بھی نہیں۔ ایک بڑی تعداد میں پاکستانی وہاں ضرور مقیم ہیں لیکن وہ سیاستدان نہیں ملازم یا مزدور ہیں یا کسی بڑے پاکستانی کے خدمت گزار بننے کی کوشش میں ہیں مگر ہمارے لندن میں مقیم سیاستدان وہاں کیا کر رہے ہیں اس کا اندازہ کرنا آسان نہیں کہ جس عمر سے یہ حضرات گزر رہے ہیں اس عمر میں اتنا خرچ کر کے لندن کون جاتا ہے، اس کے علاوہ ان دنوں اس شہر میں پاکستان کا کوئی سینئر سیاستدان بھی مقیم نہیں جس کی آشیر باد لینے یا اس سے کوئی ضروری مشورہ کرنے یہ لوگ اس کی خدمت میں حاضری دیں۔ ان دنوں ایک مدت سے یہ شہر خالی ہے اور سیاست اب اس قدر بدل چکی ہے کہ لندن اس سے نکل چکا ہے۔اب پوری سیاست پاکستان میں ہی ہوتی ہے۔ قومی سیاست میں باہر سے کچھ بھی نہیں آتا ،کوئی بھی قومی سطح کا لیڈر اب لندن وغیرہ میں مقیم نہیں ہے اور ہر کوئی اپنی سیاست اپنے وطن میں ہی کرتا ہے۔
بعض غیر ملک جن میں برطانیہ سرفہرست ہے ناراض پاکستانیوں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں اور جب پاکستان پر دباؤ کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے مہمانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت بھی لندن میں بعض اہم پاکستانی لیڈر موجود ہیں جو لندن میں رہ کر پاکستان کی سیاست کر رہے ہیں اور برطانیہ ان کی سرپرستی کرتا ہے۔ بعض لیڈروں کی تو پاکستان میں بھی اتنی پذیرائی ہے کہ وہ اگرچہ لندن میں ہیں مگر ان کے سیاسی اثرات پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان میں وہ سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ برطانیہ ان لیڈروں کی سرپرستی کرتا ہے اور حکومت پاکستان کو ان سے ڈراتا رہتا ہے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں ہم سب ان کے نام اور اثرات کو جانتے اور محسوس کرتے ہیں بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بعض لیڈر ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہیں۔ یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں لیکن جیسی بھی ہے وہ ہے اور ہم اسے برداشت کرتے ہیں۔
ان دنوں ہمارے کئی سیاسی لیڈر لندن میں پہنچ چکے ہیں۔ ان دنوں پاکستان میں حالات میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آ رہی کہ یہ تمام لیڈر گھروں سے دور لندن میں مقیم ہوں البتہ مغربی دنیا نے ایک شوشہ پانامہ لیکس کے نام سے چھوڑا ہے اور چونکہ ہمارے اکثر لیڈر ماشاء اللہ دولت مند ہیں اور ان کے پاس اس بے تحاشا دولت مندی کا جواز بھی نہیں ہے اس لیے وہ برطانیہ بھاگ گئے ہیں لیکن اس میں برطانیہ ان کی کیا خدمت کر سکتا ہے مجھے اندازہ نہیں ہے۔
ہماری پاکستانی اشرافیہ نے جو سیاستدان بھی ہے اپنی دولت کو بچانے کا ہر وہ طریقہ اختیار کررکھا ہے جو دنیا میں رائج ہے، انھوں نے آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں اور ان میں اپنا سرمایہ چھپا رکھا ہے۔ ان کی جائیدادیں بھی ہیں جو بڑی قیمتی ہیں غرض دولت کو چھپانے کے وہ تمام ذریعے اختیار کر رکھے ہیں جو ممکن ہیں لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اگر پانامہ لیک ہے تو ہوتی رہے ہم اس سے کیوں ڈر رہے ہیں ہمارا یہ خوف سوائے اپنے اندر کے خوف سے اور کوئی نہیں۔ گزشتہ کالم میں دولت مندی کے اسلامی تصور کے بارے میں کچھ عرض کیا تھا اور اس سلسلے میں اقبال کا ایک شعر بھی نقل کیا تھا جو ایک مسلمان دل کو صاف کر دیتا ہے پھر عرض کر دیتا ہوں کہ
یہ مال و دولت دنیا' یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں' لا الہ الا اللہ
ہم مسلمانوں نے دنیا کی مال و دولت اور تعلقات کو نہ جانے کیا سمجھ رکھا ہے جب کہ ہمارا شاعر کہتا ہے کہ یہ تو سب ہمارے وہم و گماں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان دنوں ملک کے حالات میں جو خاموشی ہے اور پوری سیاست کو چپ لگی ہوئی ہے اس نے پریشان کر رکھا ہے اگر ہمارے لیڈر بھی حالات سے گھبرا کر چپ ہو جائیں گے ملک سے باہر بھاگ جائیں گے تو پھر کیا وہ اپنا ملک سیاست سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ سیاست سے محرومی اور آمریت کی تلخیاں ہم کئی بار چکھ چکے ہیں۔ ہم ایک جمہوری زندہ ملک ہیں ہمارے بڑوں کو اپنے ملک کے حالات پر نظرثانی کرنی ضروری ہے ورنہ ہمارا دشمن یہ سب دیکھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے۔