کراچی میں دو پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے سراغرسانی کے نظام کو مضبوط بنائیں


Editorial May 23, 2016
قانون نافذ کرنے والوں کو اس حوالے سے زیادہ چوکس رہنا پڑے گا۔ فوٹو : فائل

کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے مگر سرکاری اہلکاروں پر حملے اور ان کی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں اب بھی رپورٹ کی جا رہی ہیں جیسے گزشتہ روز شہر کی ایک معروف عائشہ منزل چورنگی کے قریب ٹریفک پولیس کے دو اہلکاروں کو موٹر سائیکل سوار نامعلوم ملزموں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور سرکاری اسلحہ لے کر فرار ہو گئے۔

بتایا گیا ہے کہ ایک اہلکار نے بلٹ پروف جیکٹ بھی پہن رکھی تھی جب کہ دوسرا بغیر جیکٹ کے تھا۔ آئی جی سندھ نے عزیز آباد ٹریفک سیکشن آفیسر کو اس بنا پر معطل کر دیا ہے کہ بغیر بلٹ پروف جیکٹ کے اہلکار کو کیوں ڈیوٹی پر بھیجا گیا تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بلٹ پروف جیکٹ پہننے والا اہلکار کیوں قتل ہو گیا کیا وہ جیکٹ ناقص تھی یا ماہر حملہ آوروں نے ایسی جگہ کا نشانہ لیا جو جیکٹ میں ''کور'' نہیں ہوئی تھی۔

ڈی آئی جی فیروز شاہ کا کہنا کہ ملزمان کا سراغ لگا لیا گیا ہے تاہم ابھی انھیں پکڑا نہیں جا سکا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قریبی رہائشی عمارت کا گھیراؤ کر کے نصف درجن سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا۔ ادھر حراست میں لیے جانے والے افراد کے اہلخانہ نے پولیس کے خلاف شدید احتجاج کیا، ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچے بے قصور ہیں اور پولیس نے بلا جواز گرفتار کیا ہے۔ دراصل اس قسم کی نا انصافیاں بھی پولیس کے خلاف اشتعال کا باعث بنتی ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے سراغرسانی کے نظام کو مضبوط بنائیں تا کہ اصل ملزموں کی ٹھوس نشاندہی کے بعد انھیں حراست میں لیا جائے نہ کہ محض شبے کی بنا پر بے قصوروں کو اندھا دھند گرفتار کر لیا جائے۔ مذکورہ پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے کے بعد جو ملزم ان کا سرکاری اسلحہ ساتھ لے گئے ہیں اس اسلحے کو یقیناً کسی زیادہ خطرناک واردات میں استعمال کیے جانے کا احتمال ہے لہذا قانون نافذ کرنے والوں کو اس حوالے سے زیادہ چوکس رہنا پڑے گا۔

مقبول خبریں