ترقیاتی پروگرام کی کل منظوری سگریٹ سیمنٹ اسٹیشنری میک اپ کا سامان مہنگا ہونے کا امکان

حجم4500ارب کے لگ بھگ ہوگا،دفاع کیلیے 860،ترقیاتی پروگرام کیلیے 1675 ارب رکھنے کافیصلہ،وصولیوں کاہدف 3620ارب ہوگا


Irshad Ansari May 29, 2016
شرح نمو5.7،مہنگائی ہدف 6فیصدرکھنے کی تجویز، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں5سے10،پنشن میں15 فیصدتک اضافے پرغور۔ فوٹو: اے پی پی/فائل

ISLAMABAD: اقتصادی کونسل اور وفاقی کابینہ کے اجلاس پیرکو طلب کرلیے گئے ہیں، وزیراعظم نواز شریف لندن سے وڈیو لنک کے ذریعے دونوں اجلاسوں کی صدارت کریںگے۔

قومی اقتصادی کونسل میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس 3 جون کو شروع ہوگا اور معمول کے مطابق اسی دن صبح وفاقی کابینہ نے بجٹ کی منظوری دینا تھی تاہم وزیراعظم کی علالت اور علاج کیلیے لندن میں موجود ہونے کی صورتحال کے باعث3 روز قبل ہی وفاقی کابینہ کا اجلاس ہونے جارہا ہے جس کی وزیراعظم وڈیو لنک کے ذریعے لندن سے صدارت کریںگے۔ اقتصادی سروے یکم جون کو جاری کیے جانیکاامکان ہے۔ ہفتے کو وزیراعظم ہاؤس میں اس حوالے سے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت طویل مشاورتی اجلاس ہوا جس میں میاں شہبازشریف، چوہدری نثار، مریم نواز، خواجہ سعد رفیق اور ن لیگ کے دیگر سینئر رہنما شریک ہوئے۔

اس اجلاس میں بجٹ سازی اور اس کی منظوری کے حوالے سے جائزہ لیا گیا اور متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ قومی اقتصادی کونسل اور وفاقی کابینہ کے اجلاس پیر شام 5 سے 7 بجے کے درمیان ہوںگے اور قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کیلیے وزیراعظم وڈیولنک کے ذریعے صدارت کریںگے کیونکہ آئین میں ڈپٹی یا قائم مقام وزیراعظم کی گنجائش نہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئندہ مالی سال 2016-17 کے وفاقی بجٹ کا حجم 4500 ارب روپے کے لگ بھگ رکھنے جانیکا امکان ہے۔ دفاعی بجٹ 860 ارب روپے، پی ایس ڈی پی کا حجم 1675 ارب روپے اور ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3620 روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ پی ایس ڈی پی میں وفاق کا حجم 800 ارب روپے کے لگ بھگ ہوگا۔

قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 1420 ارب، پنشن کی ادائیگی کیلیے 245 ارب، سروس ڈیلیوری اخراجات کیلیے 348 ارب، سبسڈیز کیلئے 169 ارب، صوبوں کو گرانٹس کی ادائیگی کیلیے 40 ارب، دیگر گرانٹس کی مد میں 542 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ ٹیکس چھوٹ اور رعایتی ایس آر اوز کی واپسی کے ذریعے 130 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ انتظامی اقدامات، اصلاحات اور ٹیکس بیس کی توسیع کے ذریعے بھی 120 ارب روپے اضافی ریونیو اکٹھا کرنیکا ہدف مقرر کرنیکی تجویز ہے۔ مالیاتی خسارے کا ہدف 3.8 فیصد اور اقتصادی شرح نمو کا ہدف 5.7 فیصدمقرر کرنے کی تجویز ہے۔ تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4 ارب 80 کروڑ ڈالر تک ہوگا جوکہ رواں سال کے ایک ارب 70 کروڑ کے متوقع کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سے 0.6 فیصد کم ہے۔ برآمدات کا ہدف 24 ارب 70 کروڑ اور درآمدات کا ہدف 45 ارب 20 کروڑ ڈالر مقرر کئے جانیکا امکان ہے۔ پی ایس ڈی پی کے تحت آئندہ سال کا ترقیاتی بجٹ 14.3 فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں توانائی، قومی سلامتی، ٹی ڈی پیز کی بحالی وریلیف کے منصوبوں پر توجہ دی جائے گی۔ قومی اقتصادی راہداری کی تعمیر وترقی، ریلوے نیٹ ورک، واٹر سیکٹر اور تخفیف غربت کو بھی فوکس کیا جائیگا۔ زرعی ترقی کا ہدف 3.48 فیصد، اہم فصلوں کی پیداوار میں اضافے کا ہدف 2.5 فیصد، لائیو سٹاک سیکٹر میں گروتھ کا ہدف 4 فیصد، فشریز سیکٹر کیلئے گروتھ کا ہدف 3 فیصد اور کپاس کی پیداوار کا ہدف 2.5 فیصد اور صنعتی شعبے میں ترقی کا ہدف 7.69فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔

تعمیرات میں ترقی کا ہدف 13.20فیصد جبکہ بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ کا ہدف 5.90 فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ بجلی کی پیداوار اور گیس کی ترسیل کا ہدف 12.50فیصد تک لیجانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 18.7فیصد، مہنگائی کی شرح کاہدف 6 فیصد، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف12.7 فیصد، جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوںکی شرح کا ہدف 59.4 فیصد، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف 23.6 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ ذرائع نے بتایا آئندہ مالی سال کیلیے مقرر کردہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف رواں مالی سال کیلئے مقرر کردہ 3104 ارب روپے کے ہدف سے516 ارب روپے زائد ہے۔ ایف بی آر کو ہدف حاصل کرنے کیلئے ٹیکس وصولیوں میں 17 فیصد گروتھ درکار ہوگی۔

پرچون فروش تاجروں کیلیے بھی ٹیکس کا نیا نظام لایا جارہا ہے جس سے بھاری اضافی ریونیو حاصل ہونیکی توقع ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے بجٹ میں بیوریجز انڈسٹری کیلئے ٹیکس کی شرح میں ایک سے 2 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔ بیوریجز انڈسٹری پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح ساڑھے10 سے بڑھا کر ساڑھے 11 تا ساڑھے 12فیصد تک کیے جانیکا امکان ہے۔ مختلف اقسام کے پینٹس، وارنش، انجن آئل، گیر آئل سمیت دیگر لبریکینٹس، ایئرکنڈیشنرز، نیل پالش، سرخی،پاؤڈر، کریموں سمیت میک اپ کیلیے استعمال ہونیوالے فیس پاوڈر سے لیکر ناخن پالش تک کی دیگر تمام کاسمیٹکس پر 16 فیصد فیڈرل ایکسائزڈیوٹی عائد کیے جانیکا امکان ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس میں تاجروں کیلیے نائنتھ شیڈول متعارف کروانیکا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ تاجروں پر فکس ٹیکس کی رقم کو شرح میں بدل کر ٹیکس عائد کیا جائیگا البتہ اگلے بجٹ میں نان فائلرز کی مُشکلات میں مزید اضافہ کیا جائیگا اور انکے گرد گھیرا تنگ کیا جائیگا۔ زرعی اشیاء کی درآمدات پر کسٹمز ڈیوٹی کی شرح بڑھانے، اشیائے تعیش پر پچیس فیصد کسٹمز ڈیوٹی اورمقامی سطع پر تیار نہ ہونیوالے خام مال کی درآمد پر کم ازکم 5 فیصد جبکہ مقامی سطح پر 10 فیصد کسٹمز ڈیوٹی جبکہ کسٹمز ڈیوٹی سے مُستثنٰی سفارتکاروں و دیگر وی آئی پیز پر ایک فیصد سروس چارجز و فیس عائد کیے جانیکا امکان ہے۔ امیر لوگوں کے زیر استعمال ٹیک، گولڈن ٹیک و مرنڈی اور ایش وُوڈ سمیت دیگر مہنگی لکڑی کی درآمد پر عائد کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں بھی اضافہ کا امکان ہے۔

اسٹیل سیکٹرز اور شپ بریکنگ انڈسٹری کیلئے سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کے موجودہ اسٹرکچر پر نظر ثانی کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آئی ٹی سافٹ ویئرز سمیت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ دیگرسروسزکی برآمدات پر ٹیکس چھوٹ کی میعاد میں مزید 5سال تک توسیع کیے جانیکا امکان ہے جبکہ انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے تنخواہ دار ملازمین کیلیے ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز کا جائزہ لینا بھی شروع کردیا گیا ہے۔ بینکوں سے رقوم نکلوانے پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کیلئے رقم کی حد50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے یومیہ تک کرنے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے تاہم ایف بی آر میں اس تجویز کی مخالفت زیادہ ہے۔ سگریٹ پر عائد ٹیکس کی شرح بھی بڑھانیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ایک ہزار سگریٹ پر دو سے اڑھائی ہزار روپے ٹیکس عائد کئے جانیکا امکان ہے جبکہ وزارت صحت کی جانب فی ہزار سگریٹ پر ڈھائی ہزار روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائدکرنیکی تجویز دی ہے تاہم توقع ہے کہ 2 ہزار روپے فی ہزار سگریٹ ڈیوٹی عائد کی جائیگی۔ سیمنٹ پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی5 سے بڑھا کر 10 فیصد کرنیکا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسٹیشنری پر حاصل زیرو ریٹنگ کی سہولت واپس لیکر ٹیکس عائد کئے جانیکا امکان ہے۔ علاوہ ازیں بجٹ میں ماضی کے دس، دس فیصد کے دو ایڈہاک ریلیف شامل کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 5 سے 10 فیصد اضافے کی تجویز زیر غور ہے جس کے بعد نظرثانی شدہ پے اسکیلز جاری کیے جائیںگے، اس کے علاوہ میڈیکل الاؤنس اور کنوینس الاؤنس میں اضافہ کی بھی تجویز ہے۔ پنشن میں15 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔

گریڈ ایک تا 15 کے ملازمین کو ملنے والا میڈیکل الاؤنس 1500 روپے سے بڑھا کر2 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ گریڈ 16 تا22 کے ملازمین کو بھی بنیادی تنخواہ کے25فیصد کے بجائے گریڈ ایک تا5 کے ملازمین کی طرح فکس رقم کی صورت میں میڈیکل الاونس فراہم کرنے کی تجویز ہے۔ گریڈ ایک تا 15 کے ملازمین کیلئے کنوینس الاؤنس میں بھی اضافے کی تجویز دی گئی ہے جس کے تحت گریڈ ایک تا چار کے ملازمین کا کنوینس الاؤنس 1785 روپے سے بڑھا کر1885 روپے اور گریڈ 5 سے 10 کے ملازمین کا کنوینس الاؤنس1932 روپے سے بڑھا کر 2000 روپے جبکہ گریڈ 11 تا 15 کے ملازمین کا 2856 روپے سے بڑھا کر3000 روپے کرنے کی تجویز ہے۔ ذرائع کے مطابق گریڈ 16 تا 19 کے ملازمین کیلیے مونٹائزیشن کی تجویز دی گئی ہے البتہ ان تمام اعداوشمار کی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حتمی منظوری دی جائے گی۔

مقبول خبریں