ہم سب کا پاکستان

فرح ناز  ہفتہ 4 جون 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں جب کہ انھیں ہمارے اندر موجود میر جعفر، میر صادق جیسے لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ انفرادی مفادات کے حصول کے لیے ہر ایک کوشاں ہے۔ پہننے اوڑھنے سے کاروبار تک تمام کلچر کی شکل بدلتی جا رہی ہے جس سے ہماری نوجوان نسل سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے جسے نہ اپنے شاندار ماضی کا علم ہے، نہ حال و مستقبل کا۔

بیروزگاری نے چاروں طرف ڈیرے جمائے ہوئے ہے، کنفیوژن نے ہماری نوجوان نسل کو بہت نقصان پہنچایا ہے، بے تحاشا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کھلنے کے باوجود علم کا معیار بہتر نہیں ہو رہا۔ البتہ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے ایک انڈسٹری کی شکل ضرور حاصل کر لی ہے کہ لوگ کہتے ہیں، اسکولز کھول لیے جائیں بہت اچھا بزنس ہے، جلد از جلد پیسے کو ڈبل ٹرپل کیا جا سکتا ہے۔

بہر حال تجویز یہ ہے کہ پورے پاکستان میں تعلیم کا صرف اور صرف ایک ہی معیار ہونا چاہیے تمام تعلیمی اداروں کا معیار اور نصاب ایک ہی ہو کہ پشاور، بلوچستان سے لے کر کراچی تک ہر ذی شعور شہری ایک ہی نصاب پڑھے، پنجابی یا بلوچی ہو پٹھان ہو یا مہاجر لیکن وہ کرے صرف اور صرف پاکستان کی بات۔ سوچے پاکستان کے بارے میں، اپنی ذاتی حیثیت اپنی جگہ مگر پاکستانی ہونا ہی باعث فخر ہو، کوئی شک نہیں کہ ہمارے ذاتی اختلافات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے اور دشمنوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے اور ابھی تک اٹھا رہا ہے کہ اب تو مضبوطی سے ہم ایک دوسرے کے ہاتھ تھامیں اور صرف پاکستان کے لیے سوچیں، کوئی شک نہیں کہ پاکستان نہیں تو کوئی ہماری پہچان نہیں، اﷲ پاکستان کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ (آمین)

تمام چھوٹے، بڑے مسائل باسانی حل ہو سکتے ہیں، اگر تمام لوگ ایک ہی پیج پر صرف پاکستان کے لیے اکھٹے ہو جائیں ہم آپس کے اختلافات بھلا دیں اور صرف اور صرف ان لوگوں کے سوچیں جنھوں نے اپنی جان و مال پاکستان کے لیے نچھاور کیا جن کے خون نے پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا جنھوں نے وطن کی خاطر گردنیں کٹوائیں اور جو اﷲ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے گھر کی حفاظت کریں خاص طور پر اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔

میں نے ایک ایسی خاتون کو دیکھا جو بظاہر خاتون خانہ ہیں مگر لوٹ مار کے لیے وہ بیس سے پچیس نوجوانوں کی سربراہی کر رہی تھی۔ اﷲ ہم سب پر رحم کرے اگر ہماری عورتیں پیسے کی حرص میں مبتلا ہو کر ڈاکا زنی کریں یا دشمنوں کی آلہ کار بنیں گی تو ہماری نوجوان نسل کی کون تربیت کرے گا؟ ایک عورت پورے گھرانے کو سجاتی ہے، سنوارتی ہے، سائنس دان، جنرلز، انسان اور بہترین قوم بناتی ہے اگر یہی عورت برے لوگوں کی آلہ کار بن جاتی ہے تو تباہی اور بربادی گھرانے کی اور برباد ی معاشرے کی ہوتی ہے۔

آج ہم جس ملک کی جڑیں کمزور کر رہے ہیں، اسی ملک نے ہمیں پناہ دی ہے، اسی ملک کا کھاتے ہیں اور اسی ملک میں ایک آزاد شہری کی طرح رہتے ہیں۔ دولت کے انبار اور ہیرے جواہرات سب دنیا میں ہی رہ جائیں گے یا پھر کینسر کی شکل میں یا کسی اور بڑی بیماری کی شکل میں اچھے خاصے انسانوں کو کھا جائیں گے۔

پاکستان کے اس نازک دور میں بہت ضرورت ہے کہ نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی جائے۔ ان کے دل اور دماغ سے نفرت اور غصے کو نکالا جائے، ایک دوسرے کے لیے محبت و اخلاص پیدا کیا جائے گو کہ یہ بہت مشکل کام ہے مگر اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کی کونسلنگ کی جائے، رہنمائی کی جائے، ان کی اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے لیے بہتر ماحول بنایا جائے۔ بلوچستان سے کراچی تک ایک دوسرے کے بنیادی حقوق و فرائض کو ادا کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکیں گے۔ پاکستان کے تمام صوبے ہی بے حد اہم ہیں، گلی، کوچے سے شہروں تک تمام شہری بہت اہم، سب کی عزت و جان بہت اہم۔

بین الاقوامی سیاست اور مقاصد جو وہ لوگ پاکستان سے رکھتے ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے جس طرح وہ ہمارے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں، ان کو خریدتے ہیں جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضایع ہوتی ہیں اگر تعلیم و تربیت کا معیار یکساں ہو گا، اعتماد کا لیول ایک ہو گا، مضبوطی سے ہاتھ تھامے ہوں گے تو دشمن کو ضرور ناکامی ہو گی۔ ممتاز ادیب و نقاد سحر انصاری سے آرٹس کونسل میں جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو میں ہمیشہ ان سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ کچھ دن اور وقت مقرر کریں اور باقاعدہ کلاسز کا آغاز کریں، شاعری سے لے کر نثر تک نوجوانوں کو اور بڑوں کو بھی جو شوق رکھتے ہیں۔ جو سننا چاہتے ہیں، اپنے علم کو پھیلائیں۔

سحر انصاری، صاحب علم ہیں، روزانہ دوپہر سے شام تک آرٹس کونسل میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ احمد شاہ گاہے بگاہے نوجوانوں کے لیے مختلف پروگرامز کے ذریعے مثبت سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم و تربیت کے دروازے کھلتے ہیں۔

ایسے تمام پڑھے لکھے خواتین و حضرات کو سرگرم کیا جائے جو نوجوانوں کو بہت کچھ سمجھا سکتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے آرٹس کونسل نے اپنے ادبی رسالے کا بھی اجرا کیا ہے جس میں معتبر قلمکاروں کی تحریریں موجود ہیں، حسینہ معین، طلعت حسین، انور مقصود۔ یہ تمام اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انور مقصود کا تحریر کردہ اسٹیج ڈرامہ ’’سیاچن‘‘ بہترین تھا سیاچن کی حفاظت پر مامور فوجیوں کے جذبات، ان کی حب الوطنی کو بہترین شکل میں پیش کیا گیا، ’’ہائوس فل‘‘ کی بنیاد پر یہ ڈراما مہینوں تک چلا۔

اسی طرح کے بے شمار مثبت کاموں کی بہت شدید ضرورت ہے، بھٹکے ہوئے منفی سوچ کے حامل افراد کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا، چھوڑ دینے کا مطلب ہے ایک ناسور کو پالنا اور پھر اس ناسور کا علاج بھی بے حد مشکل، ہمیں ایسے اداروں کی اشد ضرورت ہے، جہاں تفریح کے ساتھ ساتھ تربیت کا انتظام بھی ہو، بہت ضروری ہیں۔

کسی بھی تقریب میں جب کھانا کھلنے کا اعلان ہوتا ہے تو سب دوڑ پڑتے ہیں، ایک دوسرے سے پلیٹیں چھینی جاتی ہے اپنی اپنی پلیٹوں کو خوب بھر لیتے ہیں، تھوڑا کھاتے ہیں بہت سا پھینک دیتے ہیں۔ مگر ڈسپلن، تمیز اور صفائی کو اپنانے کو تیار نہیں۔ کھانا پینا، صاف پانی، بجلی، اسپتال اگر ان کو میسر نہ ہو تو پھر اسی طرح انسان اور انسانیت سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔