سندھ کا بجٹ

بجٹ میں خسارے کا تخمینہ 14 ارب 61 کروڑ 74 لاکھ روپے اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 225 ارب روپے رکھے گئے ہیں


Editorial June 12, 2016
روزگار، امن وامان، تعلیم ، صحت، ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی تعمیرکے لیے کتنے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ فوٹو؛ آن لائن

بجٹ، میزانیہ ہے آنے والے سال کے آمدن واخراجات کا ،جس کا انتظار سب کو رہتا ہے،کیونکہ اس کے ذریعے وفاقی اورصوبائی حکومتیں اپنے ترقی کے اہداف طے کرتی ہیں، جس کے اثرات براہ راست عوام پر پڑتے ہیں، وفاقی حکومت اپنا بجٹ پیش کرچکی ہے، جب کہ گزشتہ روز سندھ حکومت نے مالی سال 17۔2016 کے لیے869ارب 11 کروڑ 77 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کیا۔

بجٹ میں خسارے کا تخمینہ 14 ارب 61 کروڑ 74 لاکھ روپے اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 225 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔تعلیم کے لیے 160ارب، صحت 65 ارب،امن و امان کے لیے 82 ارب روپے روپے مختص کیے گئے ہیں، پنشن اور تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا بھی اعلان کیا گیا،آیندہ مالی سال پولیس، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں 50ہزار ملازمتیں دی جائیں گی،کراچی میں کے فور،ایس تھری اور اورنج لائن بس پروجیکٹ سمیت سڑکوں کی تعمیرکے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گیے ہیں، جس میں 10 ارب روپے کا خصوصی پیکیج بھی شامل ہے۔

آئیے بجٹ کے مندرجات سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سندھ کی صوبائی حکومت کا وژن کیا ہے۔ سندھ سیلز ٹیکس آن سروسز ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے صنعت، میڈیا اورریسرچ سے متعلق پبلک ریلیشن کمپنیوں کو بھی صوبائی سیلزٹیکس کے دائرے میں شامل کرلیا ہے جن پر یکم جولائی سے 13فیصد سیلزٹیکس لاگو ہوگا۔ بجٹ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کا 28فیصد محکمہ تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

جس کا مجموعی حجم 160 ارب 70 کروڑ روپے ہوگا، جوگزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 11.2 فیصد زائد ہے،کوئی بھی قوم تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی، بجٹ کا بڑا حصہ فروغ تعلیم کے لیے مختص کرنا مستحسن اقدام سہی، لیکن محکمانہ کرپشن پر بھی قابوپانا ہوگا تب ہی علم کے چراغ روشن ہوں گے ۔ علاج معالجے کی سہولتیں حقیقی ریلیف میں شمار ہوتی ہے ، صحت کے بجٹ کو 14 فیصد بڑھاکر 65 ارب 90 کروڑ روپے کیا گیا ہے ،ادویہ کی فراہمی میں ضرورت کی بنیاد پر اضافہ کیا جارہا ، تشخیصی،سرجیکل آلات، آکسیجن ،استعمال ہونے والی ایکس رے فلمز اور مریضوں کے لیے غذائی اخراجات میں 35فیصد اضافہ شامل ہے۔

اس ضمن میں عرض ہے کہ تھر میںنوزائیدہ بچوں کے جاں بحق ہونے کا سلسلہ بھی رکنا چاہیے ۔رینجرز کا کراچی میں گزشتہ دو سال سے آپریشن جاری ہے ، جس کی وجہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال خاصی بہتر ہوئی ہے اورکاروباری سرگرمیاں میں بھی تیزی آئی ہے ۔محکمہ داخلہ کے لیے اگلے مالی سال میں 82 ارب 30 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں اس میں سندھ پولیس کے لیے 72 ارب روپے شامل ہیں، شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کا معاوضہ 20 لاکھ روپے سے بڑھاکر 50 لاکھ روپے کرنے کی تجویزہے۔ شہدا کے لواحقین کے لیے فنڈز میں اضافے سے پولیس اہلکاروں کا مورال بلند ہوگا ۔ بے روزگاری کا آسیب ہماری نوجوان نسل کونگل رہا ہے ، ملازمتوں پر پابندی کے باعث مایوسی پھیل رہی ہے اسی تناظر میں مجموعی طور پر50 ہزار ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان انتہائی خوش آیند ہے۔ روزگار کی فراہمی کے حوالے سے اس اقدام کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے۔

بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ میرٹ کو نظر انداز نہ کیا جائے ،سندھ کے آیندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں10فیصداضافے کا اعلان کیا گیا ہے،یہ اضافہ مہنگائی کے تناسب سے بہت کم ہے، کم ازکم تنخواہ چودہ ہزارکرنے سے کسی مزدورکے گھر کا چولہا جل سکے گا ، اس فیصلے پر نظرثانی ضرورت ہے ۔بجٹ کا جو سب سے زیادہ منفی پہلو سامنے آیا ہے وہ زرعی ٹیکس کی عدم وصولی کے حوالے سے ہے ، جس کے باعث دوسرے شعبوں پر ٹیکس کی مد میں اضافہ ہوجاتا ہے، عوام کی فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ زرعی ٹیکس کے نفاذ اور وصولی کو بہتر بنائے ، جاگیردار اور وڈیروں کے ہاتھوں یرغمال نہ بنے۔

سندھ کے صوبائی بجٹ میں 40 لاکھ روپے سالانہ ٹرن اورکے حامل چھوٹے تاجروں کے لیے مخصوص سروسز پرمزید سیلز ٹیکس سے استثنیٰ تجویزکیا گیا ہے، بجٹ میںگھریلو استعمال، طلبااورتحقیق کرنے والوںکوانٹرنیٹ اوربراڈ بینڈسروسز پر مزید استثنیٰ دینے کی تجویزدی گئی ہے، انٹرنیٹ سروسز پر اس استثنیٰ کو 2mbpsاسپیڈ سے بڑھا کر4 mps اور 1500روپے ماہانہ فی استعمال کنندہ سے بڑھا کر 2500روپے ماہانہ فی کس کیا جارہا ہے۔انٹرنیٹ دورجدید کی اہم ترین ضرورت بنا چکا ہے، اس کی سہولت میں اضافہ منفی عمل ہی گردانا جائے گا۔ بجٹ وفاقی ہو یا صوبائی یہ اعدادوشمارکا گورکھ دھندا ہوتا ہے،جسے ماہرین معیشت ہی سمجھ سکتے ہیں۔

لیکن اس میں عوام کی دلچسپی کا پہلو یہ ہوتا ہے کہ انھیں کس حد تک ریلیف دیا گیا ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں کتنی بڑھی ہیں ۔ روزگار، امن وامان، تعلیم ، صحت، ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی تعمیرکے لیے کتنے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ ان تمام شعبہ جات میں اگر صوبائی حکومت ریلیف مہیا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے، تو بجٹ کو بہتر کہا جائے گا ، ورنہ اعدادوشمارکا نہ سمجھ میں آنے والا کھیل ہی کہلائے گا۔

مقبول خبریں