پاک افغان خارجہ حکام کے مذاکرات

پاکستان اور افغانستان بنیادی طور پر یکساں مسائل سے دوچار ہیں۔ دونوں ملکوں کو دہشت گردی کی لعنت سے واسطہ پڑا ہوا ہے۔


Editorial June 22, 2016
افغانستان کی حکومت کو اب اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے ان مہاجرین کو واپس لینے کا باقاعدہ طور پر اعلان کرنا چاہیے فوٹو: فائل

LAHORE: افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی کی سربراہی میں 6رکنی وفد گزشتہ روز اسلام آباد پہنچا اور پاک افغان بارڈر مینجمنٹ سے متعلق دونوں ممالک کے خارجہ حکام کا اجلاس بھی ہوا اور وفود کی سطح پر مذاکرات بھی ہوئے۔ پاکستانی وفد کی قیادت سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کی جب کہ افغانستان کے وفد کے قائد حکمت خلیل کرزئی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان اورافغانستان نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونون ملکوں کے سرحدی معاملات کو حل کرنے کے سلسلے میں بارڈر مینجمنٹ پر میکنزم تشکیل دیا جائے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق افغان حکام نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آیندہ اشتعال انگیزی سے بچنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے،پاکستان نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ لازمی قرار دیتے ہوئے واضح موقف اپنایا ہے کہ طور خم بارڈر پر چیک پوسٹ اور کراسنگ پوائنٹ پاکستانی حدود کے اندر ہیں' پاک افغان سرحد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے' سرحدی کشیدگی کسی ملک کے مفاد میں نہیں،بارڈر مینجمنٹ میکنزم سے اسمگلنگ کی روک تھام میں مدد ملے گی،' افغانستان کو بارڈر مینجمنٹ کی بہتری میں پاکستان سے تعاون کرنا ہوگا۔

پاکستان اور افغانستان کے خارجہ حکام کے درمیان مذاکرات ایک مثبت پیش رفت ہے۔مذاکراتی عمل سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔ویسے بھی یہ ملاقات طورخم بارڈر پر حالیہ کشیدگی کے حوالے سے تھی' اس لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ طورخم بارڈر پر حالیہ کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے حکام کو کم از کم اس بات کا ادراک ضرور ہو گیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر حفاظتی اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہیں۔

افغان وفد کے قائد حکمت خلیل کرزئی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ دونوں ممالک کو باہمی مشاورت اور رابطے سے میکنزم تیار کرناہوگا ، ادھر پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ پاک افغان سرحدپرامیگریشن میکنزم غیرریاستی عناصرکی سرکوبی کے لیے لازمی ہے اور صرف طور خم ہی نہیں باقی کراسنگ پوائنٹس پر بھی گیٹس بننے چاہیں،بارڈر مینجمنٹ سے دونوں ممالک یکساں فائدہ ہو گے ۔

مذاکرات میں پاکستان نے واضح موقف اختیار کیا کہ طور خم بارڈر پر چیک پوسٹ اور کراسنگ پوائنٹ پاکستانی حدود کے اندر ہیں' پاک افغان سرحد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے' افغانستان کو بارڈر مینجمنٹ کی بہتری میں پاکستان سے تعاون کرنا ہوگا۔افغان وفد نے پاکستانی وفد سے ملاقات کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز سے بھی ملاقات کی، جس میں بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹانے پر اتفاق کیا گیا جب کہ اس سلسلے میں آیندہ بھی مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ملکوں میں آیندہ مشاورت ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر تاشقند میں ہو گی، ایس سی او کا اجلاس 23 اور 24 جون کو تاشقند میں ہو گا جہاں سرتاج عزیز اور افغان وزیر خارجہ کے درمیان ملاقات ہو گی۔

پاکستان اور افغانستان بنیادی طور پر یکساں مسائل سے دوچار ہیں ۔ دونوں ملکوں کو دہشت گردی کی لعنت سے واسطہ پڑا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان جہاں اعتماد سازی کی ضرورت ہے وہاں یہ بھی لازم ہے کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں کی مینجمنٹ ایسی ہو کہ کوئی بھی شخص غیرقانونی طورپر اور بغیر چیکنگ کے سرحد کے آر پارنہ جا سکے ۔

برسوں سے پاک افغان سرحد پر مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے لیے گمبھیر مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کا یہ موقف درست ہے کہ پاک افغان سرحد بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے لہٰذا اس پر واویلہ کرنا یا کسی دلیل کی بنیاد پر سرحد کو کھلا چھوڑنے کی وکالت کرنا سارے خطے کے امن و امان کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ پاک افغان سرحد جس قدر محفوظ ہو گی اور اس سرحد پر جتنا کڑا جانچ پڑتال کا نظام ہو گا 'اس کا فائدہ دونوں ملکوں کو ہو گا۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کا بھی مسئلہ ہے۔

افغانستان کی حکومت کو اب اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے ان مہاجرین کو واپس لینے کا باقاعدہ طور پر اعلان کرنا چاہیے' ماضی میں بھی سیکڑوں خاندانوں کو واپس افغانستان بھیجا گیا لیکن وہ واپس آ گئے ' یہ اس لیے ہوا کہ سرحدوں پر اور اس کے بعد ملک کے اندر غیرملکیوں کی چیکنگ کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ برسوں کی کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے اور پاک افغان سرحد کا انتظام و انصرام فول پروف بنایا جائے۔ پاک افغان خارجہ وفود کے درمیان مذاکرات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

مقبول خبریں