چالیس سال بعد۔۔۔

ندیم سبحان  اتوار 26 جون 2016
امریکا میں سفاک قاتل اور جنسی درندے کی کھوج چار عشروں بعد دوبارہ شروع:فوٹو : فائل

امریکا میں سفاک قاتل اور جنسی درندے کی کھوج چار عشروں بعد دوبارہ شروع:فوٹو : فائل

اس کا شمار امریکی تاریخ کے خوف ناک ترین مجرموں میں ہوتا ہے۔ بے رحم قاتل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ جنسی درندہ بھی تھا۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق نقب زنی میں بھی اس کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا۔ اس سفاک قاتل کے ہاتھوں بارہ افراد موت کا شکار ہوئے۔ پینتالیس خواتین کو اس نے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا اور سوا سو سے زائد گھروں میں نقب لگائی۔ قتل، عصمت دری اور نقب زنی کی اس قدر وارداتوں کے باوجود پولیس اور ایف بی آئی اسے گرفتار کرنا تو درکنار اس کی شناخت تک نہیں کرپائیں۔

امریکی تاریخ کا یہ بہت بڑا مجرم آج بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہے جس نے ایک عشرے تک کیلے فورنیا میں دہشت پھیلائے رکھی۔ اس کے خوف سے ریاست کے باسیوں کی نیندیں اڑ گئی تھیں۔ نامعلوم مجرم نے سیکریمینٹو سے لے کر اورنج کاؤنٹی تک کیلے فورنیا کے تمام مشرقی علاقوں میں وارداتیں کیں، مگر کوئی اسے شناخت نہیں کرسکا۔ یہ علاقے خاص طور پر نامعلوم قاتل اور جنسی درندے کے خوف کی لپیٹ میں تھے۔ دہشت کا یہ عالم تھا کہ گھروں کے مرد اپنے ساتھ اسلحہ لے کر سوتے تھے۔ ہر گھر میں رکھوالی کے لیے کتے بھی نظر آنے لگے تھے۔

تالوں کی مانگ اتنی بڑھ گئی تھی کہ قفل ساز راتوں میں بھی مصروف رہتے تھے۔ پولیس کے درجنوں اہل کار بھی رات اور دن گشت کرتے تھے، مگر یہ احتیاطی تدابیر اور پولیس کی تمام کوششیں اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ وارداتوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ پولیس اور ایف بی آئی تمام تر وسائل اور اقدامات بروئے کار لانے کے باوجود اس کی گرد کو بھی نہ پاسکی۔

نامعلوم مجرم نے بیشتر وارداتیں کیلے فورنیا کے مشرقی حصے میں کیں۔ اس کی مجرمانہ زندگی کا آغاز خواتین کو نشانہ بنانے سے ہوا۔ جب اس نوع کے واقعات تواتر سے ہوئے تو نامعلوم مجرم کو ’ایسٹ ایریا ریپسٹ‘ کہا جانے لگا۔ عام لوگوں کے علاوہ پولیس اہل کار بھی اسے اسی لقب سے پکارنے لگے تھے۔ پھر جب نقب زنی کی وارداتیں تواتر سے ہونے لگیں تو اسے ’اوریجنل نائٹ اسٹاکر‘ اور بعدازاں قتل کی وارداتوں کے حوالے سے ’گولڈن اسٹیٹ کلر‘ کے القابات سے ’ نوازا‘ گیا۔

کم و بیش ایک عشرے تک کیلے فورنیا کے باسیوں کے لیے دہشت کی علامت بنے رہنے والا نامعلوم قاتل، نقب زن اور جنسی درندہ 1986ء میں اچانک منظرعام سے غائب ہوگیا۔ کچھ عرصے تک کوئی واردات نہ ہونے پر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا مگر خوف و دہشت ہنوز ان کے دلوں میں موجود تھی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ’خاموشی‘ عارضی ہے اور جلد ہی یہ سفاک قاتل اور بے رحم درندہ دوبارہ متحرک ہوجائے گا۔ مزید کچھ عرصہ گزرنے پر بالآخر انھیں یقین ہوگیا کہ اس عفریت نے ان کا پیچھا چھوڑ دیا ہے جس نے ایک دہائی تک پولیس کو بھی تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔

کیلے فورنیا کا یہ خطرناک مجرم پولیس اور ایف بی آئی کے ریکارڈ پر آج بھی ایک بدنما داغ ہے۔ آج بھی اس بات پر بہ مشکل یقین آتا ہے کہ ایک خوف ناک مجرم دس برسوں تک متواتر وارداتیں کرتا رہا اور پولیس اور ایف بی آئی جیسے باوسائل ادارے اس کا نام تک نہ جان سکے۔

چالیس برس کے بعد اس ’داغ‘ کو دھونے کے لیے ایف بی آئی ایک بار پھر متحرک ہوگئی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے حال ہی میں عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ کیلے فورنیا کے بدنام زمانہ مجرم کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ اگر کسی شہری کی فراہم کردہ معلومات مجرم کی شناخت کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں تو اسے پچاس ہزار ڈالر بہ طور انعام دیے جائیں گے۔ تما تر کوششوں کے باوجود ایف بی آئی پُراسرار مجرم کے متعلق بس اتنی معلومات اکٹھی کرپائی تھی کہ وہ سفید فام ہے، قد چھے فٹ اور جسم کسرتی ہے۔

بالوں کا رنگ سنہری مائل یا ہلکا بھورا ہے۔ وہ اسلحے کے استعمال میں مہارت رکھتا ہے، اور ممکن ہے اس نے فوجی تربیت حاصل کررکھی ہو۔ وہ اپنے شکاروں کی انگلیوں میں سے شادی یا منگنی کی انگوٹھیاں، اور ان کے بدن پر سے زیورات اور کف لنکس وغیرہ اتار لیتا تھا، نیز جائے واردات پر موجود سکے، خواتین کے شناختی کارڈز اور اسی قسم کی دوسری چیزیں اٹھالیتا تھا۔ علاوہ ازیں بعض اوقات وہ اپنے شکاروں کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد ریفریجریٹر میں موجود کھانے پینے کی اشیاء پر ہاتھ صاف کرتا تھا۔

ایف بی آئی اس عشرے کے دوران، جب کیلے فورنیا دہشت کی لپیٹ میں تھا، نامعلوم قاتل اور مجرم کی شناخت جاننے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتی رہی تھی۔ بعدازاں اس قاتل کے غیرمتحرک ہوجانے کے بعد بھی اس کا سراغ لگانے کی سعی کی جاتی رہی مگر اس جدوجہد کے نتیجے میں محض مذکورہ معلومات ہی حاصل ہوپائیں۔ ان میں سے بھی بیشتر معلومات ان خوش قسمت لوگوں نے فراہم کی تھیں جو سفاک مجرم کا شکار ہونے سے بچ گئے تھے۔ ان ہی کی مدد سے اس کے تین مختلف خاکے بھی بنائے گئے، مگر ان میں واضح طور پر تضاد موجود ہے۔

ایف بی آئی نے اپنے دامن پر لگے اس بدنما داغ کو دھونے کے لیے نئے سرے سے وسیع پیمانے پر مہم شروع کردی ہے۔ اس مہم کی بنیاد بے رحم مجرم کے شکاروں اور سراغ رسانوں کے شہادت ناموں اور سفاک قاتل کی ایک فون کال ریکارڈنگ (جی ہاں، بعض اوقات وہ اپنے شکار کو بہ ذریعہ فون پیشگی مطلع کردیتا تھا) پر ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر میں اس مجرم کے بارے میں معلومات دینے کے حوالے سے ڈیجیٹل بل بورڈز نصب کیے جارہے ہیں اور  فیس بُک اور ٹویٹر پر بھی مہم شروع کردی گئی ہے۔

ایف بی آئی کی جانب سے ’ ایسٹ ایریا ریپسٹ‘ کا کھوج لگانے کی نئی مہم کے آغاز کا اعلان سیکریمینٹو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا۔ ایف بی آئی کے اہل کاروں کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے سیکریمینٹو کاؤنٹی شیرف ڈیپارٹمنٹ کے سراغ رساں سارجنٹ پاؤل بیلی نے، یہ اہم ترین کیس جس کے حوالے کیا گیا ہے۔

عوام الناس سے اپیل کی اگر نامعلوم قاتل کے بارے میں ان کے پاس کوئی بھی معلومات ہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ اہم ہیں یا غیراہم، اس سے مقامی پولیس اور ایف بی آئی کو آگاہ کریں۔ معلومات کے اہم یا غیراہم ہونے کا فیصلہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود کریں گے۔ پاؤل بیلی نے امید ظاہر کی کہ نئی مہم کے نتیجے میں ان کے ہاتھ کوئی ایسا سراغ لگ سکتا ہے جو انھیں اس مجرم تک پہنچا دے جس کا تعاقب پولیس اور ایف بی آئی چالیس برس سے کررہی ہے۔ اگر وہ ’سیریل کریمینل‘ زندہ ہوا تو اس کی عمر پچھتر برس تک ہوسکتی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب نامعلوم مجرم کے بارے میں کارآمد معلومات فراہم کرنے پر بھاری انعامی رقم کا اعلان کیا گیا ہے۔ پولیس اور ایف بی آئی کو امید ہے کہ طویل وقت کا گزر جانا اور بھاری انعام کا لالچ اس خطرناک مجرم کی شناخت ظاہر ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔

تفتیش کاروں کو امید ہے کہ بھاری انعامی رقم لوگوں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے پر اکسائے گی۔ ممکن ہے کوئی انھیں کسی مشکوک بوڑھے کی موجودگی کی اطلاع فراہم کردے یا پھر کوئی فیملی انھیں اس بات سے آگاہ کردے کہ ان کے آنجہانی عزیز کے سامان میں سے چار پانچ عشرے قبل جاری ہونے والے درجنوں سکے، کف لنکس، مختلف خواتین کے شناختی کارڈز، بالیاں وغیرہ برآمد ہوئی ہیں۔

اس زمانے میں ڈی این اے کے حصول اور اس کا تجزیہ کرنے کی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی۔ برسوں کے بعد جب یہ ٹیکنالوجی وضع ہوئی تو پھر کئی جائے واردات سے اس کے نمونے حاصل کیے گئے۔ ان نمونوں اور فون کال کی ریکارڈنگ کی بنیاد پر ایف بی آئی نے دوسو جرائم پیشہ افراد کو مشتبہ مجرم کی فہرست میں شامل کیا جو اس زمانے میں سیکریمینٹو سے لے کر لاس اینجلس کے جنوب تک متحرک تھے۔ تاہم ان میں سے بیشتر دنیا میں موجود نہیں۔ دوسری بات یہ کہ تفتیش کاروں کو اس کی امید نہ ہونے کے برابر ہے کہ نامعلوم مجرم ان ہی جرائم پیشہ افراد میں سے ہو، کیوں کہ ان کے مطابق اس شخص کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا، اور نہ ہی اس کے طرزعمل سے ملنے جلنے والوں کو اس کے غیرقانونی سرگرمیوں ملوث ہونے کا شبہ ہوتا ہوگا۔ اس صورت میں کبھی نہ کبھی پولیس یا ایف بی آئی تک اس کی اطلاع ضرور پہنچ جاتی۔

امریکی پولیس اور ایف بی آئی کو ناکوں چنے چبوانے والے بے شناخت مجرم نے پہلا معلوم جرم اٹھارہ جون 1976ء کو کیا تھا۔ اس نے سیکریمینٹو کاؤنٹی کے علاوہ رینچو کورڈووا کی رہائشی نوجوان لڑکی کو ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک ہی مہینے کے اندر جنسی درندگی کا دوسرا واقعہ پیش آیا۔ اس بار بے رحم مجرم کا نشانہ ایک تیرہ سالہ لڑکی بنی تھی۔ پھر جنسی حملے اور نقب زنی کی وارداتیں تسلسل سے ہونے لگیں۔ پولیس کی تحقیقات کے مطابق نامعلوم مجرم رات کی تاریکی میں گھروں کے عقبی دروازے یا کھڑکیاں کھول اندر داخل ہوجاتا تھا، جب کہ مکین گہری نیند میں ڈوبے ہوتے تھے۔ وہ محواستراحت مکینوں کی آنکھوں میں فلیش لائٹ کی تیزروشنی ڈال کر انھیں جگاتا اور پھر چادر یا رسی سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر بے بس کردیتا تھا۔ اس کی جنسی ہوس کا نشانہ بننے والی بیشتر خواتین غیرشادی شدہ اور اپنے گھروں میں تنہا رہتی تھیں۔ بعض اوقات وہ اہل خانہ کو بے بس کرکے ان کی خواتین پر مجرمانہ حملہ کرتا تھا۔ اس کے بعد جائے واردات سے قیمتی اشیاء کے علاوہ بعض غیراہم اشیاء اٹھاتا اور روانہ ہوجاتا۔

دوران واردات وہ مردوں کی پُشت کے ساتھ چھوٹی موٹی اشیاء جن کے گرنے سے آواز پیدا ہو، ٹکا دیتا تھا۔ اور پھر انھیں اس طرح بٹھاتا تھا کہ اگر وہ ہلیں تو ٹکی ہوئی پلیٹ وغیرہ گرجائے۔ آواز آنے کی صورت میں وہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ اپنے متوقع شکاروں (خواتین) کو ٹیلی فون پر وہ پیشگی آگاہ کردیتا تھا کہ جلد ہی وہ انھیں نشانہ بنائے گا۔ نقب زنی اور عصمت دری کی وارداتوں کی ابتدا کو کچھ عرصہ گزرا تھا کہ قتل کی وارداتیں بھی شروع ہوگئیں۔

دو فروری 1978ء کی شام کو ایک نوجوان جوڑے کی لاشیں پائی گئیں جو اپنے کتے کے ساتھ رینچو کے مضافات میں چہل قدمی کررہا تھا۔ جوڑے کی شناخت برائن اور کیٹی میگوری کے ناموں سے ہوئی تھی۔ سراغ رسانوں نے تحقیقات کے بعد خیال ظاہر کیا کہ قاتل نے ان کا پیچھا کرنے کے بعد انھیں ہلاک کیا تھا۔ غالباً وہ ’ایسٹ ایریا ریپسٹ‘ تھا جس کی حقیقت سے کسی طرح برائن اور میگوری آگاہ ہوگئے اور اس نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے ان کی جان لے لی۔ کچھ عرصے کے بعد ایک اور جوڑے کو ان کے گھر میں آتش دان سے نکالی گئی لکڑی کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ہلاک کردیا گیا۔

تفتیش کاروں کے مطابق نامعلوم قاتل کا آخری نشانہ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی بنی تھی جسے جنسی زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ یہ خونی واردات مئی 1986ء میں ہوئی تھی۔

اس دوران مجموعی طور پر بارہ ہلاکتیں ہوئیں جن کے بارے میں پولیس کو یقین تھا کہ ان کا ذمہ دار وہی نامعلوم قاتل ہے جسے گرفتار کرنے کے لیے وہ بے چین ہیں۔ ہلاک ہونے والے افراد کی عمریں تیرہ سے اکتالیس سال کے درمیان تھیں۔

نامعلوم سفاک قاتل کا کھوج لگانے کے لیے شروع کی گئی پولیس اور ایف بی آئی کی تازہ مہم میں پاؤل بیلی سمیت بیشتر اہل کار اور سراغ رساں ان ہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ایک عشرے تک خوف و دہشت کا راج رہا۔ ان کا بچپن ڈر و خوف کی اسی فضا میں سانس لیتے اور نامعلوم قاتل کی ’ کارگزاریاں‘ سنتے ہوئے گزرا۔ بیلی اور اس کی ٹیم اپنے علاقے کے سب سے بڑے مگر پُراسرار مجرم کو کھوج نکالنے کے لیے پُرعزم ہے۔ ان کا یہ عزم اور جذبہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنا  قبل ازوقت ہوگا۔ تاہم ایک بات یقینی ہے، اور وہ یہ کہ چار عشرے گزرجانے کے بعد نامعلوم قاتل کی تلاش آسان نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔