نظام کی تبدیلی کی ضرورت
پاکستان کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ انھوں نے ان تحریکوں میں بڑی قربانیاں دیں
پاکستان کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ انھوں نے ان تحریکوں میں بڑی قربانیاں دیں لیکن ان کی یہ قربانیاں رائیگاں گئیں، حتیٰ کہ 69 سال میں یہ بھی نہ ہو سکا کہ زرعی اصلاحات کر کے ملک سے اس فرسودہ جاگیردارانہ نظام کو بھی ختم ن ہی کیا جا سکتا جسے ساری دنیا نے اولین فرصت میں ختم کر دیا تھا۔ آج ہماری سیاست کا عالم یہ ہے کہ جاگیردار طبقہ ہماری سیاست کا محور بنا ہوا ہے اور زرعی معیشت سے جڑی ہوئی 60 فیصد آبادی اکیسویں صدی میں بھی زرعی غلام بنی ہوئی ہے۔ ہماری سیاست میں میاں برادران کی شکل میں ایک صنعتکار عنصر داخل تو ہوا لیکن اس نے اپنے حریف جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے بجائے اس کا اتحادی بن گیا۔ یوں باری باری کے اس خطرناک کلچر کا آغاز ہوا جس نے ہمارے سیاسی نظام کو جمود کا شکار بنا دیا۔ این آر او سے شروع ہونے والا یہ عوام دشمن کھیل مفاہمتی سیاست پر آ کر رکا اور ہماری سیاست چند خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی۔
6 اگست 2016ء سے طاہر القادری کی جماعت نے جو تحریک شروع کی ہے اس کا مقصد 2014ء میں پنجاب میں پولیس کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کا قصاص لینا بتایا جا رہا ہے، اسی طرح 7 اگست سے پختونخوا سے شروع ہونے والی تحریک انصاف کا ہدف بھی میاں برادران کی ذات ہی ہے، یعنی عملاً یہ تحریک بھی چہرے بدلنے کی تحریک ہے، نظام کی تبدیلی کی باتیں اس تحریک میں بھی ثانوی حیثیت ہی رکھتی ہیں۔ ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک سے لے کر 6 اور 7 اگست 2016ء کی تحریکوں تک صرف چہروں کی تبدیلی سب سے بڑا ہدف بنی رہی جب کہ اس ملک کے پسے ہوئے 20 کروڑ مظلوم عوام کے مستقبل کا انحصار نظام کی تبدیلی سے ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ ایک گہری سازش کے تحت انقلابی قوتوں کو ریاستی مشینری سے بھی کچلا گیا اور ایک منظم سازش کے تحت انھیں ٹکڑوں میں بانٹ کر اس قدر کمزور کر دیا گیا کہ وہ نظام کی تبدیلی کی اہمیت سے محروم ہو گئے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دو ایسی بڑی تحریکیں چلیں جن میں بڑے پیمانے پر عوام نے شرکت کی، ایک تحریک ایوب خان کے خلاف 1968ء میں چلائی گئی، دوسری تحریک 1977ء میں بھٹو کے خلاف چلائی گئی۔ ایوب خان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ نہ تھا لیکن بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں امریکا براہ راست ملوث تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد برسر اقتدار فرد واحد کو ہٹانا تھا، یعنی یہ تحریکیں چہرے بدلنے کی تحریکیں تھیں نظام بدلنے کی نہیں تھیں۔ جس کا منطقی نتیجہ یہی نکلا کہ ایوب خان کی جگہ یحییٰ خان نے لے لی اور بھٹو کی جگہ ضیا الحق نے لے لی۔ چہرے بدل گئے، نظام نہیں بدلا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک میں وہ طاقتیں کمزور تھیں جو نظام کی تبدیلی کا منشور رکھتی تھیں اور وہ طاقتیں طاقتور تھیں جو چہرے بدلنے کی حامی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ان کے مسائل جوں کے توں باقی رہے۔
2014ء میں تحریک انصاف اور طاہرالقادری کی جماعت نے ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا تحریک کا آغاز کیا، جس میں دونوں جماعتوں کے خاص طور پر طاہر القادری کے نظریاتی کارکنوں نے بڑی مستقل مزاجی سے حصہ لیا اور بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ یہ تحریک بڑی مستقل مزاجی سے چلائی گئی لیکن اس تحریک کی بے معنویت کا عالم یہ تھا کہ اس کا مقبول نعرہ ''گو نواز گو'' تھا، یعنی یہ تحریک بھی اپنی اصل میں چہرے بدلنے کی تحریک تھی، نظام بدلنے کی نہ تھی۔ بلکہ یہ تحریک اس قدر ذاتیات کی تحریک بن گئی تھی کہ اس کا ہدف صرف اور صرف نواز شریف کی ذات تھی۔ اس تحریک کی ایک بڑی کمزوری یہ تھی کہ اس میں عوام کی شمولیت برائے نام تھی اور اس تحریک کی قیادت امپائر کی انگلی کی منتظر تھی، عوام کی طاقت پر اس تحریک کے قائد کا یقین نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ مقبوضہ تحریک کو آخرکار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ عوام میں مایوسی پھیل گئی۔
پاکستانی سماج سیاسی حوالے سے اس قدر پسماندگی کا شکار ہے کہ یہاں کسی انقلاب کا تصور ہی ممکن نہیں، یہاں نظام کی تبدیلی سے مراد محض 69 سالہ اسٹیٹس کو کو توڑنا ہے، یعنی ان عوام دشمن طاقتوں سے نجات حاصل کرنا ہے جو 69 سال سے سیاست اور اقتدار پر قبضہ کیے بیٹھی ہیں۔ ہماری سیاسی اصطلاح میں نظام کی تبدیلی کا مطلب اسٹیٹس کو توڑنا ہے نہ کہ مزدوروں، کسانوں کی حکومت قائم کرنا ہے۔ 69 سال سے چند خاندان اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں، اس مقصد کے لیے ان خاندانوں نے کئی طرح کی سازشوں کا ایک جال بچھا دیا ہے، عوام کو سیاسی شعور سے محروم کرنے کے لیے انھیں حصول تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے، ان کی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے انھیں فقہوں، قومیتوں اور لسانی حوالوں سے تقسیم کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ انتخابی نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ سوائے اشرافیائی خاندانوں کے مڈل اور لوئر مڈل کلاس اس انتخابی نظام میں شرکت کا سوچ ہی نہیں سکتی۔ ان احتیاطی تدابیر کا نتیجہ یہ ہے کہ آنے والے کئی عشروں تک اسٹیٹس کو کی تبدیلی کے بظاہر کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کے 20 کروڑ مظلوم عوام نظام کی تبدیلی کے خواب آنکھوں میں بسائے بیٹھے ہیں اور ہر اس مداری کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں جن کی ڈگڈگی سے صرف چہروں کی تبدیلی کی آواز آتی ہے۔ عمران خان نے نئے پاکستان کا شوشہ چھوڑ کر عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن عوام جب ان کے اردگرد پرانے پاپیوں کو دیکھتے ہیں اور ان کی نظریاتی اپروچ پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ حیرت ہے نئے پاکستان کی بات کرنے والے ولی عہدی نظام کی مخالفت کرنے کے بجائے ولی عہدی نظام کے شہزادوں سے سیاسی اتحاد بنا رہے ہیں۔ طاہرالقادری سے کوئی بڑی توقع اس لیے بے کار ہے کہ وہ ایک نظریاتی آدمی ہیں اور انھی حدود کے اندر رہ کر سیاست کرنا ان کی مجبوری ہے۔