داستان پاکستان کے یونانی شہر کی

سرکپ ایک یونانی طرز کا شہر ہے جو پاکستان کی قدیم سر زمین پردوسری صدی قبل مسیح میں بسایا گیا تھا۔


محمد کاشف علی August 17, 2016
پاکستان کے دو مایہ ناز آثارِ قدیمہ، پروفیسر احمد حسن دانی اور پروفیسر سیف الرحمان ڈار کا کام گندھارا پر سند کا درجہ رکھتا ہے۔ گندھارا سے رغبت رکھنے والوں کو ان چاروں ماہرین کو تو لازمی پڑھنا چاہیے۔ فوٹو: محمد کاشف علی

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان تاریخ و تہذیب کے پس منظر کے حوالے سے نوراد ملک ہے جب کہ یہاں کی تہذیبی داستان بہت دور تلک جاتی ہے۔ تاریخ کے اس دور تلک جب تحریر ابھی رائج نہیں ہوئی تھی، تاریخ کی اُن راہداریوں تلک جب زراعت پر مبنی تہذیب بھی ابھی وجود نہیں رکھتی تھی، اس دھرتی نے جہاں آج پاکستان نام کی ایک جغرافیائی اکائی ہے نے کئی قرن کئی ادوار کو دیکھ رکھا ہے۔ پتھر کے دور سے لے کر زراعت کی دریافت تک، کانسی کی تہذیب سے لے کر لوہے کے دور تک وادی سندھ کی عظیم الشان تہذیب سے لے کر گندھارا تہذیب تک۔

سرکپ ایک یونانی طرز کا شہر ہے جو پاکستان کی قدیم سر زمین پردوسری صدی قبل مسیح میں بسایا گیا تھا اور بقول ممتاز ماہر آثار قدیمہ پروفیسر سیف الرحمان ڈار یہ شہر اس وقت کے دو قدیم یونانی شہروں، اولنتھس اور پرائن (موجودہ ترکی) سے بہتر تھا۔ یہ سرکپ شہر موجودہ ٹیکسلا کا حصہ ہے جہاں کبھی گندھارا تہذیب نے تقریباً ہزار برس (500 قبل مسیح سے 500 عسیوی تک) حکمرانی کی۔ گندھارا تہذیب کے پاکستان میں تین بڑے مراکز تھے، تَکشا سِلہ (موجودہ ٹیکسلا)، پُشکالا وَتی (موجودہ چارسدہ) اور اُودیانہ (موجودہ سوات) مگر جو مقام ٹیکسلا کا تھا وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکا کہ ٹیکسلا اس وقت کی مشرقی اور مغربی دنیاؤں کو ملاتا تھا۔



ٹیکسلا کے پہلے قدیم شہر بِھڑ ماؤنڈ کی ویرانی کے بعد ہند یونانی بادشاہ ڈیمٹریس کا نام تاریخی طور پر لیا جاتا ہے کہ اس نے سرکپ شہر کو یونانی شہروں کی طرز پر دوسری صدی قبل مسیح میں آباد کیا تھا۔ ٹیکسلا کا یہ دوسرا قدیم شہر باقاعدہ منصوبہ بندی کا ثمر تھا جس کے شمال و مشرق میں گاؤ ندی، مغرب میں تمرا ندی کے تازہ پانی کا بہاؤ تھا اس سے نہ صرف شہر کو تازہ پانی کی فراہمی ہوتی بلکہ دفاعی ضرورت بھی پوری ہوجاتی۔ شہر فصیل بند تھا، موٹی چٹانی شہر پناہ اس شہر کا برسوں حملہ آوروں سے دفاع کرتی رہی، یہ فصیل ابھی بھی شہر ویراں کا سرمایہ ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ میں سے گزرتی مرکزی شاہراہ سرکپ کو واضح طور پر دو حصوں میں شرقاً غرباً تقسیم کردیتی ہے۔



شہر کے مشرقی حصے میں مجموعی طور پر زیادہ اہم عمارات کی باقیات ابھی بھی تاریخ کی تجسیم کا مظہر ہیں۔ شہر کے اس حصہ میں شاہی محل، جین مندر، گول مندر، دوسروں والے عقاب کی قبر، بدھ مت کا ایک نجی اسٹوپا واقع ہے۔ جبکہ شہر کے مغربی حصہ کی سب اہم یادگار شمسی گھڑیال ہے۔ جہاں آج بھی وقت کی آٹھ پہروں میں تقسیم دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ نہ صرف گھڑیال تھا بلکہ سورج پرستوں کا مندر بھی تھا۔ مرکزی شاہراہ کے شمالی حصہ کے دونوں طرف بازار تھا اور بازار سے تھوڑا آگے جا کر شاہی محل راہ میں پڑتا تھا۔ مرکزی شاہراہ پر موجود محل، بازار اور مندر کی پشت پر رہائشی عمارات کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جبکہ شہر پناہ کے ساتھ نسبتاً چھوٹے گھروں کے آثار ملتے ہیں۔ شہر کے جنوب مغربی طرف ایک بلند ٹیلہ ہے جس پر کنال اسٹوپا ہے اور تاریخی روایات کے مطابق کنال اشوک اعظم کا بیٹا تھا۔ لوک داستانوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے شہزادہ کنال کی داستان میں کافی لبھاؤ اور رچاؤ ہے۔





ہند یونانیوں کے بعد شاکا قبیلے نے یہاں حکمرانی کی اور شہر قائم و دائم رہا پھر جب دوسری صدی عیسوی میں کشان یہاں کے حکمران بنتے ہیں تو قدرے شمال مشرق میں سر سُکھ نامی ایک نیا شہر بساتے ہیں جس سے سرکپ پر ویرانی اتر آتی ہے۔ رہی سہی کسر وسطی ایشیاء کے سفید ہُن پوری کردیتے ہیں جو فطرتاً خانہ بدوش تھے اور وہ پانچویں صدی عسیوی کے وسط میں وسطی ایشیاء سے جنوب کو ہند کی طرف نہ صرف اترتے ہیں بلکہ تباہی بھی ساتھ لاتے ہیں جس کے اثرات سے سرکپ بھی نہ بچ سکا۔





(سرکپ کی دریافت اور بنیادی کھدائیوں کے لئے تاریخ سر جان مارشل کی مشکور ہے جنہوں نے بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائیاں سرکپ اور گندھارا کی دریافت کرتے گزاریں ان کے کام کو سر مورٹیمر ویلر نے بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں آگے بڑھایا، جبکہ پاکستان کے دو مایہ ناز آثارِ قدیمہ، پروفیسر احمد حسن دانی اور پروفیسر سیف الرحمان ڈار کا کام گندھارا پر سند کا درجہ رکھتا ہے۔ گندھارا سے رغبت رکھنے والوں کو ان چاروں ماہرین کو تو لازمی پڑھنا چاہیے)۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں