بلوچستان میں مودی مخالف عوامی لہر

بلوچستان میں دہشتگردی کے ثبوت آنے کے بعد مودی اپنے چہرے کی سیاہی جھوٹے بیانات سے نہیں دھو سکتے


Editorial August 20, 2016
اب بھی بھارت کے لیے وقت ہے اور بنگلہ دیش حکومت کو بھی کشمیر کی آگ سے دامن بچانا چاہیے۔ فوٹو: فائل

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بیان اور کشمیری عوام کے قتل عام کے خلاف بلوچستان بھر میں مظاہرے کیے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں، مظاہرین نے ''مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے'' کے نعرے لگا کر مودی سرکار کے منہ پر جو زور دار تھپڑ رسید کیا ہے وہ بلوچستان کے حوالے سے بھارتی حکمرانوں کو سدا یاد رہیگا۔ کوئٹہ میں نکالی گئی ریلیاں منان چوک پہنچ کر جلسے کی شکل اختیار کر گئیں جس سے خطاب کرتے ہوئے پُر جوش مقررین نے کہا کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ اور بلوچستان پاکستان کا صوبہ ہے، بلوچستان میں دہشتگردی کے ثبوت آنے کے بعد مودی اپنے چہرے کی سیاہی جھوٹے بیانات سے نہیں دھو سکتے۔

طلبا و طالبات کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے بلوچستان کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا اس بیان پر بلوچستان کے عوام سراپا احتجاج ہیں، گوادر تا ژوب، چمن تا نصیرآباد عوامی احتجاج بلوچستان کی نام نہاد آزادی کی تحریک اور بلوچستان کی نمایندگی کا دعویٰ کرنیوالے باہر بیٹھے لوگوں کے خلاف ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے، براہمداغ بگٹی کی جانب سے مودی کے بیان پر شکریہ ادا کرنا انتہائی قابل مذمت ہے، نام نہاد قوم پرست بلوچستان کو آزاد کرا کر ہندوستان کی غلامی میں لے جانا چاہتے ہیں لیکن بلوچستان کے غیور اور محب وطن عوام کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا ہمارا سامنا ایک بے وقار دشمن سے ہے جو چھپ کر وار کرتا ہے، ہم مودی کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بلوچستان کے حوالے سے بیان دیکر ثابت کر دیا کہ بھارت اور ''را'' بلوچستان میں دہشتگردی میں ملوث ہیں ادھر دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے پاکستان کی درخواست پر مقبوضہ اور آزاد کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کی پیشکش کی ہے، تاہم دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے مشن کو رسائی دینے سے انکار کر دیا ہے۔

تاہم اگلے ماہ وزیراعظم نواز شریف جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ریاستی جبر کا معاملہ بھرپور انداز سے اٹھائیں گے، انھوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم کا بیان بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا اعتراف اور دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے کی ناکام کوشش ہے، بھارتی وزیراعظم نے ایسا بیان دے کر نہ صرف اقوام متحدہ اور سارک ممالک کے چارٹر بلکہ سفارتی آداب کی بھی خلاف ورزی کی، اور حقیقت یہ ہے کہ بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے قومی امنگوں کی درست ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لوگ باہر نکلے اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کر کے تاریخ رقم کر دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ یہ باتیں کرتے تھے کہ بلوچستان کے لوگ پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں ان کے منہ پر زوردار طمانچہ مارا ہے۔ مگر بھارتی جنگی جنون اور تشدد و لاقانونیت پر کمربستہ مائنڈ سیٹ حقیقت تسلیم کرنے پر تیار نہیں چنانچہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے ضلع پلوامہ میں ایک لیکچرار کو دوران حراست شہید کر دیا، کرفیو کے باوجود احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، مقبوضہ وادی میں10 ہزار اضافی فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق پلوامہ ضلع کے ایک گاؤں میں گزشتہ شب فوجی اہلکاروں نے زبردستی گھروں میں داخل ہو کر لوگوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس سے درجنوں افراد زخمی ہو گئے، فوجیوں نے لیکچرار شبیر مونگو سمیت 28 افراد کو گرفتار کر لیا، بعد ازاں بھارتی فوج کے تشدد سے شبیر مونگو شہید ہو گئے، اسی گمراہ ذہنیت کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ مقبوضہ وادی میں حالیہ بحران کا ذمے دار پاکستان نہیں بلکہ بھارتی حکومت ہے۔ بھارتی اور ریاستی حکومت نے کشمیر کی صورتحال پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

ادھر دریں اثنا بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما شائنا این سی نے بھارتی خبررساں ادارے کو یہ منطق پیش کی ہے کہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کے سربراہ نے حقوق انسانی کے حوالہ سے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت طلب کی لیکن یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش بھی ناقابل قبول ہے جب کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے صاحبزادہ ڈاکٹر کرن سنگھ نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے نہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، انھوں نے بھارتی دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ الحاق سے متعلق دستاویزات میں دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کا ذکر تھا، بھارت سے الحاق کرنے والی دوسری تمام ریاستوں نے بھی اسی قسم کا معاہدہ کیا تھا تاہم وہ سب بھارت میں ضم ہو گئیں جب کہ کشمیر نہیں ہوا۔

اب بھی بھارت کے لیے وقت ہے اور بنگلہ دیش حکومت کو بھی کشمیر کی آگ سے دامن بچانا چاہیے، خطے کی تبدیلی ہوتی ہوئے صورتحال سے ہوش کے ناخن لیے جائیں، کشمیر میں استصواب لازمی ہے، ورنہ بلوچستان سے لے کر طورخم اور کراچی تک ہر جگہ مودی کو شرمندگی کا سامنا ہو گا۔

مقبول خبریں