کون جواب دے گا؟

آخر بچے کہاں جارہے ہیں؟ اغوا کی وارداتوں کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ ریاست کدھر ہے؟ ۔  فوٹو : فائل

آخر بچے کہاں جارہے ہیں؟ اغوا کی وارداتوں کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ ریاست کدھر ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

حکومت سندھ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے اپنی تلوار لہراتے ہوئے، منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے کہا، ’’کراچی میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں کا ذکر بے بنیاد ہے۔ یہ ہمارے خلاف حکومت پنجاب کا پروپیگنڈا ہے، جو اپنا بوجھ ہمارے سر پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘

جوابی طور پر حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ اہل کار نے اپنا پستول نکالتے ہوئے، آنکھیں لال پیلی کرتے ہوئے اعلان کیا، ’’یہ ایک شرم ناک بیان ہے، والدین کے احساسات سے کھیلنے کا گھٹیا حربہ ہے۔ یہ لوگ اپنی کارکردگی تو دیکھیں۔ انھوں نے کراچی کو کوڑا گھر بنا رکھا ہے۔‘‘

بچوں کا غائب ہونا، خواہ اس کی کوئی بھی وجہ ہو، ایک بھیانک سماجی مسئلے کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ مویشیوں کا تذکرہ نہیں ہے، معصوم بچوں کا تذکرہ ہے، جو کائنات کی سب سے خوب صورت کہانیاں ہمیں اپنی چمکیلی آنکھوں سے سناتے ہیں۔

دیکھیں! ہمارے اہل سیاست کس بے ہودگی کے ساتھ ذلت کے پاتال میں دھنستے ہوئے اس سنگین سماجی مسئلے کو آنکھ مچولی کا کھیل بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسی عریانیت ان ہی کو زیب دیتی ہے، اور اس عریانیت کے سہارے وہ ستّر سال سے اس بدقسمت ملک پر حکومت کررہے ہیں۔ یہ اہل زر ہیں، آسائشات کی گنگا میں نہاتے ہیں، بلندیوں پر اپنے آشیانے بناتے ہیں۔ محروم لوگوں کا دُکھ درد یہ کیسے محسوس کرسکتے ہیں۔ مویشی غائب ہوں یا بچے، ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے انھوں نے اس سنگین سماجی مسئلے کو بھی مذاق بنا رکھا ہے۔ وہی ان کی فریب کاریاں ہیں، وہی شعبدے بازیاں ہیں، وہی الزام تراشیاں ہیں، وہی بازار میں کپڑے اتارنے کا مشغلہ ہے، آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کاروبار ہے۔ انھیں معلوم ہے، اس ملک میں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا وہ عیش و عشرت میں غرق رہیں گے، ہواؤں میں اُڑتے رہیں گے۔

کون ان کا راستہ روک سکتا ہے؟ کون جواب طلب کرسکتا ہے؟ کیا کوئی ان کو ٹوک سکتا ہے کہ آئینہ دیکھو، اپنے الفاظ دیکھو، اپنے ہاتھ دیکھو، اپنا عمل دیکھو، بچے مویشی نہیں ہیں، ہنسی مذاق، طنز و تشنیع کے ذریعے اس مسئلے کی سنگینی کا زور گھٹاتے ہو۔ تمہیں ڈوب مرنے کا مشورہ بھی نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ تم تو بے شرمی کے سمندر میں پلتے بڑھتے ہو۔

یہ گھٹیا بازاری عمل، یہ ذلت آمیز بیانات، یہ دھول اڑانے کے حربے جاری رہیں گے، روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر ہیں تو سورہے ہیں۔

ہر طرف سے، طاقت کے سارے کھونٹے شور مچارہے ہیں کہ یہ سازش ہے۔ اس مسئلے کو خواہ مخواہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ میڈیا میں مسلسل خبریں آتی رہیں کہ بچے غائب ہورہے ہیں، والدین کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے، تب سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

تو کیا سپریم کورٹ بھی اس سازش میں شریک ہے؟
طاقت کا ایک کھونٹا پولیس کا محکمہ ہے، لُوٹ مار جس کا چلن ہے، زور زبردستی، ظلم، سفاکی اور درندگی اس کی گھٹّی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ مجبور اور لاچار لوگوں کی کھالیں اتارتے ہیں، آنکھوں میں خون بھر کے مظلوموں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں، بدن کی چربی میں اضافہ کرتے ہیں، نعرہ لگاتے ہیں ، ’’اوئے، ساڈی بادشاہت وچ آن دی ضرورت نئیں۔ آؤگے تے مارے جاؤگے!!… حکومتاں تے آوندیاں جاندیاں ریندیاں نیں، کھری بادشاہت تے ساڈی اے، جیہڑی سدا قائم ریندی اے!!‘‘

تو اس سدا قائم رہنے والے کھونٹے سے بندھے پولیس کے اہل کار دن رات یہی شور مچا رہے ہیں کہ معاملہ اتنا سنگین نہیں ہے۔ خواہ مخواہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر بچے خود گھر سے بھاگ رہے ہیں، اور واپس بھی آرہے ہیں۔ سب معمول کے مطابق ہے، ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے۔

کیا ہر سال اسی طرح طوفان برپا ہوتا رہا ہے؟
نہیں، اس سال اس قسم کی وارداتوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اسی لیے معاشرہ تشویش کا شکار ہے۔ آخر اس سے پہلے گزشتہ سالوں میں اس پیمانے پر فریادیں کیوں بلند نہیں ہوئیں۔ کچھ تو تبدیلی آئی ہے، جو اس قدر خوف پھیلا ہے۔

پولیس کے اعلیٰ اہل کاروں کو روکنے ٹوکنے، ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، اوجی، تُسی کی کردے او، ساڈے نال متھا نہ مارو، ورنہ دِسّو گے نئیں!!‘‘

کوئی ہوتا تو پوچھتا، بادشاہو، وجہ کچھ بھی ہو، بچے غائب ہورہے ہیں۔ تمہارے تھانوں میں والدین رپورٹ درج کرارہے ہیں، انھیں بازیاب کرنا تمہارا فرض ہے۔ یہ بتاؤ کہ کتنے بچے تمہاری کوششوں سے بازیاب ہوئے۔

اور کوئی انھیں یہ بتانے والا بھی نہیں ہے کہ تم ہمارے سامنے سارا اعتبار کھوچکے ہو۔ تم آپس میں تھانوں کی بولیاں لگاتے ہو، مجرموں اور شریف شہریوں دونوں سے برابر بھتا وصول کرتے ہو اور جھوٹی رپورٹیں بناتے ہو، تمہارا اعتبار کون کرے گا؟

اور اس عجائب خانے میں جو ’’سیاست کار‘‘ ہیں، ان سے کون سوال کرے گا۔ یہ ’’سیاست کار‘‘ ایک مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ وہ بی بی جمہوریت کی عصمت محفوظ رکھنے کے لیے سرگرم عمل ہیں، اس کے گیسوؤں کی آرایش کررہے ہیں۔ کوئی شور نہیں ہونا چاہیے، ورنہ ان کی یک سوئی میں خلل پیدا ہوسکتا ہے۔ اونچے لوگ اونچا کلام، اونچا طعام و قیام، اونچی شان، اونچی اڑان اور اونچا نصب العین، یہ لوگ بہت مشکل کام کرتے ہیں۔ رات دن نعرے فروخت کرتے ہیں۔ ووٹ خریدتے ہیں، لارے لپّے دیتے ہیں۔ دھرنے دیتے ہیں، ایک دوسرے کو ڈاکو لٹیرا ثابت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے کپڑے اتارتے ہیں، ایک دوسرے کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔

یہ بہت مصروف لوگ ہیں، بچے اغوا ہورہے ہیں، اس طرف دیکھنے کی انھیں فرصت نہیں ہے۔ ان کے پاس وقت نہیں ہے، کروڑوں لوگ روٹی کو، روزگار کو ترس رہے ہیں، علاج سے، تعلیم سے محروم ہیں، اس طرف دیکھنے کی ضرورت انھیں محسوس نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ نیو یارک، لندن اور پیرس کے فلک بوس شبستانوں میں آباد رہتے ہیں۔

نیچے رہنے والوں، پستی میں غرق بستیوں کا دُکھ ان تک کیسے پہنچ سکتا ہے، انھیں کیسے محسوس ہوسکتا ہے کہ مویشی غائب ہونے اور بچے غائب ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔

بچوں کا اغوا : ریاست کی ایک اور ناکامی
بھولے بھالے معصوم بچے، من کے سچے، جن سے اس جہان رنگ و نور میں رونق ہے، بچے جو اداسی میں مسرت کے پیام بر ہیں، بچے جو اس مایوسی میں گھری دنیا میں امید کا پیغام ہیں، وہی بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ بچے ہمارا آنے والا کل ہیں اور ہماری امیدوں کا دیا انہی کے دم سے روشن ہے۔ یہی بچے جن کے لیے ہم اپنی استطاعت سے بڑھ کر تگ و دو کرتے ہیں، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار ہوتے ہیں۔ اگر یہ ایک پل کے لیے بھی آنکھوں سے اوجھل ہوجائیں تو قیامت برپا ہوجاتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ اپنے والدین کی روح ہوتے ہیں۔

کسی بھی ریاست کی یہ اولین ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ زندہ قومیں اپنے آنے والے کل کو محفوظ بنانے کے لیے ہمہ جہت منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ ہماری ریاست دیگر فرائض سے غفلت برتنے کے ساتھ قوم کے نونہالوں کو بھی یک سر نظرانداز کیے ہوئے ہے۔

اسپتالوں سے نومولود بچوں کے اغوا کی خبریں ہم ذرایع ابلاغ میں پڑھتے رہتے ہیں۔ بے حس و سفاک ظالمان نے تو ان پھول جیسے بچوں کو جس بے دردی سے موت کی وادی میں دھکیلا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہی طالبان معصوم بچوں کو اغوا کرنے کے بعد انہیں خود کش حملوں میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہم آرمی پبلک اسکول کے معصوموں کو بھلا سکتے ہیں جن کے والدین اب تک سسک رہے ہیں اور کوئی بھی دلاسا ان کے زخموں کو مندمل نہیں کرسکا۔ قوم کے معمار ان معصوم بچوں کو معذوری سے بچانے کی پولیو مہم کے درجنوں کارکن جن میں اکثر خواتین تھیں اس ہی بے حس و سفاک گروہ کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ بچوں کی فلاح و بہبود و صحت کی ہر مہم اس گروہ کے نشانے پر ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کئی برس پہلے پنجاب میں بچوں کے اغوا میں اسی طرح اضافہ ہوگیا تھا۔ تواتر سے سیکڑوں بچے اغوا ہوئے تھے اور اس کے بعد جاوید اقبال نامی ایک شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ملک میں معصوم بچوں کو جنسی درندگی کا سامنا ہے۔ کچھ عرصے پہلے ہی قصور اسکینڈل کی تفصیلات آپ کو یاد ہوں گی جس میں بچوں سے زیادتی کے بعد ان کی وڈیو فلمیں بنا کر انہیں اور ان کے والدین کو مستقل ہراساں کیا جاتا رہا۔

اب پھر ہمارے گھروں، گلیوں اور محلوں کی رونق یہ بچے اغوا جیسی افتاد کا سامنا کر رہے ہیں۔ آخر یہ بچے کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ خود چلے جاتے ہیں یا کوئی انہیں اغوا کرلیتا ہے۔ آخر اغوا کاروں کے مقاصد کیا ہیں۔ اور کیا اتنے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جس سنجیدگی، فہم، فراست، جرات اور ذمے داری کی ضرورت ہے وہ ہماری حفاظت پر مامور اداروں کے کرتا دھرتا لوگوں میں موجود ہے۔ یہ اور اس جیسے دیگر سوالات آج جواب طلب ہیں۔

بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات نے جہاں والدین میں عدم تحفط پیدا کیا وہیں خوف و ہراس کی فضا نے جنم لیا اور گلی محلوں میں ہر اس شخص کو اغواکار سمجھ لیا گیا جو کسی کام سے کسی دوسرے محلے میں پایا گیا۔ پھر وہی ہونا تھا جس کی توقع تھی کہ ملک بھر میں مشتعل ہجوم نے اپنی عدالتیں لگائیں اور بے گناہ لوگوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔ صرف ملتان میں پچھلے تیرہ دنوں کے دوران بائیس افراد پر بھیانک تشدد کیا گیا اور ان میں سے کسی ایک کا تعلق بھی اغواکاروں کے گروہ سے ثابت نہیں ہوا۔ ایک خاتون پر لاٹھیوں سے حملہ کیا گیا اور اس کی دونوں ٹانگیں توڑ دی گئیں۔ ان لوگوں کے پاس سیدھا سا جواز ہے کہ جب حکومت ان کے بچوں کا تحفظ نہیں کرسکتی تو وہ خود اس کام کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ سچ یہ ہے کہ جب ریاست اپنے فرائض سے یک سر غافل ہوجائے تو پھر ایسے ہی دلائل رائج ہوجاتے ہیں۔

پنجاب سے بچوں کے اغوا کی یہ وبا اب سندھ میں داخل ہوگئی ہے اور خصوصا کراچی اور حیدرآباد میں بچوں کا اغوا موضوع بنا ہوا ہے۔ مختلف چینلز اور دور جدید کے تیز ترین ذریعے سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس پر کراچی اور حیدرآباد میں بچوں کے اغوا کی خبریں مسلسل پوسٹ اور شیئر ہو رہی ہیں۔

سندھ میں اس تشویش ناک مسئلے کو سیاست کی پوائنٹ اسکورنگ کی نذر کردیا گیا ہے۔ مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ کراچی میں بچوں کے اغوا کی افواہیں پنجاب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے بھی سندھ کابینہ کے ترجمان مولا بخش چانڈیو کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر بچوں کے اغوا سے متعلق الرٹ بے بنیاد ہے، بچوں کو گھروں میں رکھنے کا کوئی الرٹ جاری نہیں کیا گیا۔

آخر یہ بچے کہاں جارہے ہیں، کیا اس میں انسانی اسمگلر بھی ملوث ہیں؟ اس کے ساتھ ہی ایسی بھی خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ بچوں کے اغوا میں انسانی اعضا کی تجارت میں ملوث گروہ بھی شامل ہیں۔ بھکاری مافیا بھی اس کام میں ملوث ہوسکتی ہے جو بچوں کو اغوا کرکے اور ان کے اعضاء توڑ کر انہیں بھیک مانگنے کے گھناؤنے دھندے میں استعمال کررہی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بچے اغوا کاروں کے نشانے پر ہیں۔ والدین نے پہلے اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں قتل و غارت اور بم دھماکوں کی وجہ سے روکا تھا اور اب انہیں اغوا کے خوف سے اسکول بھیجنے سے خوف زدہ ہیں۔

بچوں کا اغوا ایک سنگین مسئلہ ہے اور انتہائی سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ ان میں امن و امان کی بدترین صورت حال کے ساتھ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مختلف مذہبی اور لسانی گروہوں کی باہمی چپقلش کے ساتھ جہادی تنظیموں کا مضبوط اور فعال نیٹ ورک بھی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس مسئلے کی سنگینی پر پوری توجہ دے اور اس کے ہر پہلو پر نظر رکھتے ہوئے دوررس اقدامات اٹھائے۔

بچے گھر سے کیوں بھاگتے ہیں؟
 دوستانہ ماحول اور اچھی تربیت مسئلے کا حل ہیں
بچوں کا اغوا یا گھروں سے فرار، دونوں ہی نہایت سنگین صورتیں ہیں۔ کیا صرف ریاست، پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر ہم ایسے واقعات سے نجات حاصل کر سکتے ہیں؟

ہرگز نہیں۔ اس ضمن میں والدین اور دیگر اہلِ خانہ سمیت معاشرے کے مختلف افراد کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایسے واقعات کی بڑی وجہ غربت اور جہل بھی ہیں، جس کے خلاف لڑنے میں بنیادی کردار ریاست کا ہے، لیکن بچوں میں بغاوت اور منفی رجحان کی ایک اور بڑی وجہ والدین سمیت دیگر میل جول رکھنے والوں کا نامناسب سلوک اور ان کی ذہنی تربیت اور ضروری راہ نمائی کی طرف سے غفلت اور کوتاہی برتنا ہے۔

ظاہر ہے بچے، معاملاتِ زندگی کا گہرا شعور نہیں رکھتے، اور اپنے کسی اقدام کی سنگینی کا ادراک نہیں کرسکتے۔ ان کا کوئی غلط فیصلہ نہ صرف ان کی زندگی برباد کرسکتا ہے بلکہ اس کے معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اغوا یا گھروں سے فرار کے بعد بچے خود منفی سرگرمیوں اور جرائم میں ملوث ہوسکتے ہیں یا پھر کسی کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ یہ چوری ڈکیتی سے لے کر قتل جیسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔

والدین، اہلِ خانہ و محلہ، اساتذہ، عزیزواقارب، معاشرے کا ہر باشعور اور ذمہ دار افراد اس حوالے سے اپنا کردار نبھائیں تو ہم اپنا مستقبل محفوظ بناسکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو فکرِمعاش کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بچوں سے بات چیت اور ان کی چھوٹی بڑی خوشیاں اور مسائل جاننے کے لیے وقت دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ابتدائی عمر سے لے کر عقل اور شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے تک بچوں کو توجہ اور درجہ بہ درجہ معاملاتِ زندگی سے مناسب اور ضروری آگاہی دینا ضروری ہے۔ ابتدائی عمر میں والدین اور پھر اساتذہ کی جانب سے اخلاقی تعلیم اور نیک و بد کا فرق سمجھانے کی کوششیں نہایت اہمیت رکھتی ہیں اور اس کا بچے کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

مختلف ادوار میں بچے کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں نہ صرف والدین اور اساتذہ بلکہ اہلِ محلہ بھی اپنا حصّہ ڈالیں۔ والدین بچوں کی ذہنی کیفیت، مزاج اور سرگرمیوں میں غیرمعمولی تبدیلی محسوس کریں تو اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ دوستانہ انداز میں مسئلہ دریافت کریں۔ گھر اور گھر سے باہر میل جول کے دوران نامناسب رویّہ اور برتاؤ بھی بچوں کو گھروں سے فرار پر آمادہ کرسکتا ہے۔ اس کا  سدباب کرنا ضروری ہے۔ عام زندگی کے مسائل اور مشکلات سے آگاہی دینے کے ساتھ کسی مسئلے کا اظہار کیے جانے پر فوری اور مکمل راہ نمائی کی جائے۔

والدین کے درمیان جھگڑے اور گھریلو تلخیاں عام بات ہیں، لیکن بچے کے سامنے الجھنے سے گریز کیا جائے۔ بے جا سختی، مار پیٹ کے علاوہ کسی بھی بچے کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اسی طرح اسکولز میں اساتذہ بہتر ماحول فراہم کریں اور  جسمانی سزاؤں یا بے جا سختی سے گریز کریں۔ مختلف مواقع پر والدین، اساتذہ اور دیگر لوگوں کی جانب سے حوصلہ افزا رویہ اور تعریفی کلمات اہمیت رکھتے ہیں۔ ملک میں غربت کے شکار بچوں کی بڑی تعداد محنت مزدوری کر کے والدین کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ اس دوران آجر کا توہین آمیز رویہ، ڈانٹ ڈپٹ اور بعض اوقات انتہائی نامناسب سلوک بھی بچوں کو بغاوت پر اُکسا سکتا ہے۔

ہمارے معاشرتی نظام میں بے شمار خامیاں اور خرابیاں موجود ہیں۔ پاکستان میں بچوں کو ذہنی اور جسمانی استحصال کا بھی سامنا ہے، جو گھروں سے ان کے فرار کا سبب بنتا ہے۔ گھر والے یا اہل محلہ اگر کسی واقف کار کے بچے کو گلیوں اور بازاروں میں کسی اجنبی فرد کے ساتھ دیکھیں تو غیرمحسوس طریقے سے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔ اگر وہ کسی غلط آدمی کے ساتھ نظر آئے تو پیار محبت سے سمجھائیں اور خبردار کریں۔ معاشرتی رویّوں کی وجہ سے بعض اوقات بچہ نفسیاتی عوارض کا شکار بھی ہو سکتا ہے اور اس حالت میں گھر والوں کی عدم توجہی یا باہر مذاق  کا نشانہ بننے پر وہ کوئی غلط قدم اٹھا سکتا ہے۔ اس طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔

معاشی مسائل سے نمٹنے کے ساتھ والدین بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں اور اس ضمن میں ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ مختلف محلوں میں باشعور اور پڑھے لکھے لوگ اپنے ناخواندہ ہمسایوں اور عزیزوں کو بچوں کی تربیت کی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں مشورہ دینے کے ساتھ راہ نمائی بھی کریں۔

اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچہ صحت مند سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ نظر رکھیں کہ وہ کمپیوٹر یا ٹیلی ویژن پر کیا دیکھ رہا ہے۔ اس حوالے سے گلی محلوں کا ماحول بہتر بنانے کے ساتھ مختلف مقامات پر تفریحی سرگرمیوں کے لیے سہولتیں عام کی جائیں۔ محلے کے مختلف پڑھے لکھے اور باشعور افراد پر مشتمل کمیٹیاں قائم کر کے رضاکارانہ طور پر اس حوالے سے والدین کو آگاہی دینے کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے جہاں حکومت اور پولیس کو اپنا کام دیانت داری سے انجام دینا ہوگا، وہیں اہل محلہ  کا بھی فرض ہے کہ وہ  گھروں سے باہر کھیل کود کے دوران بچوں اور مشکوک اور اجنبی افراد پر  کڑی نظر رکھیں۔

اغوا نہیں۔۔۔۔۔ توگھر سے بھاگنے کے واقعات ہی سہی!
کیا ’ بھگوڑے‘ بچوں کو والدین سے ملانا پولیس کا فرض نہیں؟
منظر لاہور کے ایک پس ماندہ علاقے کے گھر کا ہے۔ کمرے کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی جواں سال عورت کی نگاہیں بیرونی دروازے پر جمی ہیں جس کے پٹ وَا ہیں۔ اس کے آس پاس بیٹھی کچھ عورتیں آپس میں سوگوشیاں کررہی ہیں مگر وہ عورت ان سے بے نیاز ٹکٹکی باندھے دروازے کو گُھور رہی ہے جیسے اسے کسی کی آمد کا شدت سے انتظار ہے۔ اسی اثنا میں ایک مرد نے دروازے سے اندر قدم رکھا۔ عورت اٹھ کر تیر کی طرح اس کی طرف بڑھی اور بازو پکڑ کر بولی:’’کُج خبر ملی اے میرے پُتر دی؟‘‘ یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں امید کے دیے جھلملا رہے تھے۔ پریشان حال مرد نے مایوسی کے عالم میں سَر ہلایا تو وہ چیخ مار کر رونے لگی۔ ہمسائیوں نے سنبھالنے کی کوشش کی مگر دُکھ کی شدت نے اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کردیا۔

چند روز قبل اس جوڑے کا اکلوتا آٹھ سالہ بیٹا سودا سلف لینے کے لیے گھر سے نکلا تھا مگر واپس نہیں آیا۔ بیٹے کی گُم شدگی نے ماں کے حواس مختل کردیے ہیں وہیں اس کا باپ دہری اذیت سے دوچار ہے۔ اس سے اپنی شریک حیات کی حالت دیکھی نہیں جاتی تو دوسری جانب بیٹے کا بھی کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ اس پر مستزاد پولیس کا رویہ جو ان کے بیٹے کی گُم شدگی کو گھر سے بھاگ جانے کا واقعہ قرار دینے پر مُصر ہے۔

پنجاب اور بالخصوص لاہور کے متعدد والدین ان دنوں اپنے جگرگوشوں کی جُدائی کی اذیت سہنے پر مجبور ہیں۔ پڑوسیوں کو ان گھروں میں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جس کا نقشہ درج بالا سطور میں کھینچا گیا ہے۔

سب سے بڑے صوبے میں بچوں کی گُم شدگی کے واقعات تواتر سے رپورٹ ہورہے ہیں۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ بیشتر واقعات اغوا کے نہیں بلکہ بچوں کے ازخود گھروں سے بھاگنے کے ہیں۔ تاہم خود پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس کے جواب میں داخل کردہ رپورٹ اس موقف کی نفی کرتی ہے۔ پنجاب پولیس کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں پچھلے پانچ سال کے دوران 6793  بچے اغوا ہوئے جن میں سے 6654 بازیاب کروا لیے گئے۔

رواں سال کے ابتدائی چھے ماہ میں 767بچے اغوا ہوئے جن میں سے 715بچوں کو بازیاب کروالیا گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ بازیاب کرائے جانے والے بچوں کی تعداد کس حد تک درست ہے، پولیس نے اس رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ پچھلے پانچ سال کے دوران سالانہ 1350 اغوا ہوئے ہیں۔ ان اعدادوشمار کے باوجود پولیس حکام کی جانب سے بچوں کے اغوا کی وارداتوں کو گھر سے بھاگ جانے کے واقعات قرار دینا، شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری اور فرض سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہی کہا جاسکتا ہے۔

ایک عام تأثر یہ ہے کہ بچوں کے اغوا کے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی کہ پولیس نے سپریم کورٹ میں بیان کی ہے۔ اس کی وجہ کئی والدین کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے بیانات ہیں جن کے مطابق پولیس نے ان پر زور دیا کہ وہ بچے کے اغوا کے بجائے اس کے گھر سے بھاگ جانے کی رپورٹ لکھوائیں۔ اس ضمن میں لاہور کے علاقے گڑھی شاہو کے رہائشی غلام حسین کی مثال دی جاسکتی ہے جس کا تیرہ سالہ بیٹا محمد بلال صبح سویرے دودھ لینے کے لیے دکان پر گیا اور پھر واپس نہ آیا۔

چار روز بعد وہ ازخود اغوا کاروں کے چُنگل سے فرار ہوکر گھر واپس پہنچ گیا۔ بلال نے بتایا کہ اسے راستے میں دو تین افراد نے پکڑ لیا تھا، پھر کچھ سُنگھا کر بے ہوش کردیا اور تین روز تک ایک کمرے میں بند رکھا۔ چوتھے روز اغواکار اسے رکشے میں ڈال کر لے جارہے تھے کہ اسے فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ غلام حسین کے مطابق جب وہ بیٹے کے اغوا کی رپورٹ درج کروانے تھانے گیا تو پولیس نے اس پر دباؤ ڈالا کہ اغوا کے بجائے بلال کے گھر سے بھاگ جانے کی رپورٹ لکھوائی جائے۔ اس مثال سے ظاہر ہے کہ پولیس شہریوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے کے فرض سے غفلت برتنے کی مرتکب ہو رہی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں ڈرا دھمکا کر بچوں کے اغوا کی رپورٹیں درج کرنے سے بھی گریز کررہی ہے۔

چلیے، اگر پولیس کے کہنے کے مطابق اغوا کی وارداتوں کو گھروں سے بھاگ جانے کے واقعات ہی تصور کرلیا جائے تو کیا ان ’بھگوڑے‘ بچوں کو واپس لانا پولیس کی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا بچے کے گھر سے بھاگ جانے کی رپورٹ درج کرلینے کے بعد اس پر کارروائی کرنا اور دُکھی والدین سے ان کے جگرگوشوں کو ملانا پولیس کا فرض نہیں ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔