اگر سارے مسائل حل ہو جائیں

دنیا بھر کے حکمران ’’انسان‘‘ ہو گئے تو اسلحہ ساز اور اس طرح کے دوسرے ’’ساز‘‘ کیا دھوئیں گے اور کیا نچوڑیں گے


Saad Ulllah Jaan Baraq September 06, 2016
[email protected]

یہ بات تو ہم نے آپ کو بتائی تھی کہ کارخانو مارکیٹ پشاور میں ایک دکاندار نے جلی حروف میں ایک بورڈ لگوایا ہوا تھا کہ ''مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک ادھار بند ہے'' لیکن کل ہم نے ایک شخص کے منہ سے ایک اور نئی بات سنئی۔

ایک شخص نے اس سے اپنی ادھار دی ہوئی رقم مانگی تو وہ بولا، دیدوں گا بالکل دیدوں گا، ذرا امریکا کو افغانستان سے نکلنے تو دو ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے نے اپنا ہی سر پیٹ لیا ہو گا کیونکہ نادہندہ کا سر پیٹنے سے تو قرضے کے بالکل ڈوب جانے کا خطرہ تھا۔ پرانے زمانے کی بات ہے، ایک شخص نے وسیع پیمانے پر گنے کی تجارت کی لیکن سب کچھ ڈوب گیا اور صرف قرضے باقی رہ گئے۔ ایک دن وہ گاؤں کی شاہراہ پر آتے ہوئے ہمارے والد سے ملا تو والد نے سمجھایا کہ اس طرح اکیلے اکیلے گاؤں میں مت پھرا کرو، بہت سارے لوگوں کے قرض دار ہو کہیں کوئی بے عزتی نہ کر ڈالے۔

وہ شخص مسکرا کر بولا ، اسی لیے تو میں پھرتا ہوں، چاہتا ہوں کہ کوئی بے عزتی کر دے کم از کم بدلے میں اس کے قرضے سے تو چھوٹ جاؤں گا۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ قرضہ دیا جاتا ہے اپنی مرضی سے اور پھر لیا جاتا ہے دوسرے کی مرضی سے ۔ چنانچہ ایسے لوگ بڑے ہوشیار ہوتے ہیں کہ قرضے کی لین دین کے لیے کشمیر کا مسئلہ اور امریکا کا افغانستان سے انخلاء شرط رکھتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرضے کی واپسی کے لیے بہت ہی آسان شرط رکھ دیتے ہیں مثلاً ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ بھئی تم میرا قرضہ کب واپس کرو گے، دوسرے نے کہا، اب تو سمجھو بندوبست ہو گیا ہے، میں نے اپنے کھیت کے کنارے جو عام راستے پر ہے کانٹے دار جھاڑیاں گاڑ دی ہیں، اس سیزن میں جب بھیڑوں کے ریوڑ اتریں گے اور وہاں سے گزریں گے تو بھیڑوں کا اون میرے کھیت کے کنٹوں میں پھنس کر رہ جائے گا، میں وہ سارا اون جمع کر کے تار بناؤں گا اور پھر اس کے سویٹر بازار میں بیچ کر تمہارا قرضہ لوٹا دوں گا۔

اس پر دوسرے کو ہنسی آگئی تو اس نے کہا دیکھو دیکھو قرضہ وصول ہونے پر کیسا خوش ہو گیا ہے، لیکن ہم نے یہ سارا کھڑاگ بلکہ قرضہ راگ اس لیے نہیں چھیڑا ہے کہ ہم قرضے کے موضوع پر کچھ کہنا چاہتے ہیں بلکہ وہ پہلی والی جو دو باتیں مسئلہ کشمیر اور امریکی انخلاء کی بات ہوئی ہے، اس پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے، مسئلہ کشمیر کی طرح دنیا میں اور بھی بہت سارے مسائل ہیں جن کے حل ہونے کی امید بہت سارے لوگ لیے بیٹھے ہیں اور ہمیں جب کوئی ایسا شخص ملتا ہے جو اس قسم کے مسائل کے حل کی بات کرنے لگے تو ہماری ہنسی تو نہیں لیکن اندر ہی اندر ''رونا'' نکل جاتا ہے کہ انسان نادان ہونے بلکہ بے وقوف بننے پر اتر آئے تو کچھ بھی سوچ سکتا ہے ،کوئی بھی امید لگا سکتا ہے ورنہ دل پر ہاتھ رکھ کر قسم کھایئے کہ کیا واقعی ایسی کوئی امید ہے کہ یہ مسائل حل ہو جائیں گے، بھلا کوئی اتنا بھی احمق ہو سکتا ہے کہ اچھی بھلی دودھیل گائے کو پکڑ کر ذبح کر ڈالے۔

یاد نہیں کہ ہم نے اس سے پہلے آپ کو ڈاکٹر امرود کا یہ قصہ سنایا ہے یا نہیں، قصے تو ڈاکٹر امرود کے بے شمار ہیں جن میں سے ہم نے اکثر آپ کو سنائے بھی ہیں لیکن یہ قصہ شاید نہیں سنایا ہے کہ جب اس کی ڈاکٹری ایک چھتنار اور ثمر دار پیڑ بن گئی اور وہ تمام کام اس نے پورے کر لیے جو اس طرح کے مال حلال سے ہی پورے ہوتے ہیں، پھر زرعی زمین بھی کافی خریدی گاڑی بھی ہو گئی اور اس نے اپنے بیٹے کو ایم بی بی ایس کرا کر ڈاکٹر بھی بنوایا تو اسے خیال آیا کہ ایک اور ضروری کام بھی کرنا ہے جو صرف ایسے ہی مال حلال سے ممکن ہے چنانچہ اپنے بیٹے کو دکان پر بٹھا کر ''فریضہ حج'' ادا کرنے کے لیے روانہ ہو گیا اور نہایت ہی مطمئن ہو کر روانہ ہو گیا کیوں کہ ایک بیٹا ایم بی بی ایس کر کے کلینک سنبھالنے کے قابل ہو گیا۔

دوسرا پہلے ہی کفن دفن کے سامان اور تیار قبریں بیچنے میں لگا ہوا تھا، فریضہ ادا کرنے کے بعد وہ چند مہینے بعد لوٹ آیا تو دکان عرف کلینک پر لگے ہوئے بورڈ میں ایک لفظ کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ اگر دنیا بھر کے امراض ختم ہو جائیں تو کیا ڈاکٹر لوگ آلو چھولے بیچیں گے، لیبارٹریوں اور دکانوں والے املی آلو بخارے کا شربت بیچیں گے اور انتہائی مہنگی دوائیں بنانے والے بنیانیں جرابیں بنائیں گے، چلیے تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں اچانک امن اور شانتی ہو گئی دہشت گرد ختم ہو گئے، فسادی سدھر گئے، دنیا بھر کے حکمران ''انسان'' ہو گئے تو اسلحہ ساز اور اس طرح کے دوسرے ''ساز'' کیا دھوئیں گے اور کیا نچوڑیں گے، دور کیوں جایئے اگر آج تمام جرائم پیشہ توبہ تائب ہو گئے تو یہ تھانے چوکیاں کچہریاں جیل اور نہ جانے کون کون کیا کرے گا، ارے ہاں نام خدا سیاست اور لیڈر اور ان کا مشترکہ ڈیری فارم جمہوریت

زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے ''گھونسے'' میری زبان کو دیے

مقبول خبریں