حقیقی جمہوریت کا خواب
میرے ملک کے بے کس، غریب، مفلس، دکھیارے لوگوں کی بے بسی، دکھوں، غموں، تکلیفوں پر جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے۔
ہمارے ملک کے لاکھوں غریب اور مفلس بچے اپنے تاریک، گندے اور بوسیدہ مکانوں میں روز اپنے ماں باپ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے گھر کے آنگن اتنے برباد کیوں ہیں، ہمارے گھر میں اتنی خاک کیوں اڑتی پھرتی ہے، ہماری ماں روٹی مانگنے پر مارتی کیوں ہے، ہم بھوکے پیاسے کیوں سوتے ہیں، فاقے کیوں کرتے ہیں، ہم اتنے گندے اور غلیظ کیوں رہتے ہیں، امیروں کو ہمیں دیکھ کر گھن کیوں آتی ہے، امیر اور بڑے لوگ ہمیں حقارت کی نگاہوں سے کیوں دیکھتے ہیں؟ آخر ہمارا گناہ اور جرم کیا ہے، کیا ہم انسان نہیں ہیں، کیا اچھی زندگی گزارنا ہمارا حق نہیں ہے، آخر ہمارے ہی گھر کیوں پانی اور بجلی سے محروم ہیں۔
ہمیں روز روز کیوں دھتکارا جاتا ہے، بڑی بڑی گاڑیوں والے ہمیں دیکھتے ہی گالیاں دینا کیوں شروع کردیتے ہیں؟؟؟ اپنے بچوں کے سچے اور تلخ سوالات سن کر ماں باپ کے جگر روز پھٹ جاتے ہیں اور ماں باپ اپنے نصیبوں اور مقدر کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ میرے ملک کے بے کس، غریب، مفلس، دکھیارے لوگوں کی بے بسی، دکھوں، غموں، تکلیفوں پر جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے۔ غریبوں کے گھروں میں بھوک اور افلاس کا مکمل راج ہے، لوگوں کے پاس اپنے پیاروں کے کفن تک خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں، وہ اپنے تلخ حقائق کو اچھی طرح سے پہنچاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ گزشتہ 65 برسوں کی بدنظمی اور لوٹ مار کی وجہ سے پاکستان ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکا۔
انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کی غربت ان پر لادی گئی ہے، مہنگائی، بے روزگاری، انتہا پسندی اور دہشت گردی، آمریت کی یہ نشانیاں اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوں گی۔ اب وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو پہچاننے لگے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ تبدیلی کا ذریعہ ان کا اپنا ووٹ اور مسلسل جدوجہد ہے۔ پاکستان کے عوام کو جب بھی موقع ملا ہے ہر آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات میں انھوں نے جمہوری قوتوں کو اور کسی حد تک ترقی پسند قوتوں کو اپنا نمایندہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے 2008ء کے انتخابات کے نتائج میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی واحد اکثریتی جماعت کی صورت میں سامنے آئی۔ صوبہ سرحد میں ANP نے اکثریت حاصل کی، اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے اکثریت حاصل کی لیکن دوسرے نمبر پر وہاں بھی پیپلز پارٹی ہے۔
وہ قوتیں جو انتہا پسندی یا مذہبی جنونیت کے نعرے لگاتی ہیں انھیں پاکستان کی تاریخ کے کسی بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات میں پذیرائی نہیں ملی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان قوتوں نے ہمیشہ آمریت کا سہارا لیا ہے، جنرل پرویز مشرف کے ساتھ 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کا حلیہ بگاڑنے میں یہ انتہا پسند قوتیں پیش پیش تھیں، یہ ان کی سیاست پر ایسا دھبہ ہے جو کبھی نہیں مٹ سکے گا۔ ماضی میں ان ہی قوتوں نے جنرل ضیاء کے ساتھ مل کر ملک کے سیاسی اور جمہوری کارکنوں کو کوڑے لگوائے، آج بھی وہی قوتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔ یہ ساری باتیں ملک کے عوام اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن ایک چھوٹا سا دانش ور طبقہ ان حقائق کو نظر انداز کر کے سہانے خواب دیکھتا رہتا ہے اور آئیڈیل ازم میں اپنی راہیں تلاش کرتا رہتا ہے۔
خواب دیکھنا اور اس کو حقیقت کی شکل میں ڈھالنے کی کوشش کرنا بہت اچھی بات ہے، آئیڈیل جمہوریت پاکستان میں لانے کی کوشش کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے سب سے پہلے کڑوے حقائق کو تسلیم کرنا ہو گا، جو موجود ہیں جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے ہیں، اس سچ کو ماننا چاہیے کہ 2008ء کے عام انتخابات کے نتائج کے باوجود پاکستان کے عوام کے نمایندوں کو ابھی تک مکمل اختیارات نہیں ملے ہیں یعنی ملک میں جمہوریت پوری طرح قائم نہیں ہوئی ہے اور یہ بھی مان لینا چاہیے کہ انتہا پسند اور رجعت پسند قوتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف چالیں چل رہی ہیں۔
لیکن پاکستان کے عوام کسی صورت میں بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کچھ لوگ اب بھی شریعت کے نفاذ کے نام پر طالبانائزیشن چاہتے ہیں لیکن ملک کے عوام اب ان کو اچھی طرح سے جان اور پہچان چکے ہیں۔ نواز شریف کو بھی ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو مذہب کا نام لے کر ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہمارا وہ دانش ور طبقہ جو ایک آئیڈیل جمہوریت کی تلاش میں ہے اسے بھی یہ احساس کرنا چاہیے کہ آئیڈیل جمہوریت اوپر سے نہیں آئے گی، نہ ہی اس کے لیے فرشتے اتریں گے۔ عوام کو اور ان کے نمایندہ لوگوں کو مضبوط و مستحکم بنا کر پارلیمنٹ کو با اختیار بنا کر ہی حقیقی جمہوریت کے خواب کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان جس خطرناک موڑ پر آ چکا ہے اب اس کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لہٰذا لازمی ہے کہ ملک جمہوریت کی طرف اپنا سفر جاری رکھے۔ ملک کی معیشت بھی صرف اسی صورت میں ترقی کرے گی اور ملک کا دفاع بھی اسی صورت میں مستحکم و مضبوط ہوگا، پاکستان کے عوام کو غربت، بے روزگاری، افلاس، مہنگائی سے نجات بھی صرف اسی صورت میں حاصل ہو گی۔ ملک کے غریب عوام بہت مشکل اور دکھ میں ہیں انھوں نے بہت فاقے اور بہت خودکشیاں کر لی ہیں۔ غربت، بھوک سے نجات اور خوشحالی اور خوشیاں ان کا بھی حق ہیں۔ لہٰذ ا آج صرف عوام کو طاقتور، خوشحال بنانے کے ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔