سی این جی بحران‘ حقیقی یا مصنوعی؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  ہفتہ 8 دسمبر 2012
advo786@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کو اس وقت توانائی کے سنگین اورتاریخی بحران کا سامنا ہے، بحران تو ویسے لاتعداد ہیں، پورا ملک اور معیشت بحرانوں کی لپیٹ میں ہے، گزشتہ 4 سال میں روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں تقریباً دو سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ نئی خوشخبری یہ ہے کہ اوگرا نے یکم جنوری سے گیس کی قیمتوں میں 6 سے 10 فیصد تک اضافے کی منظوری کے لیے سمری وزارت پٹرولیم کو بھجوادی ہے۔ اوگرا نے گیس چوری کا بوجھ بھی صارفین پر ڈال دیا ہے جس کے لیے کمپنیاں 18 ارب روپے اضافی بھی وصول کریں گی۔

حکومت جس کا آئینی فرض ہے کہ اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھے ان کے حقوق کا تحفظ کرے وہ بجلی اور گیس چوروں کو پکڑنے کی بجائے اس چوری کو عوام کی جیبوں سے نکلوانے میں لگی ہوئی ہے۔ صارفین پر یہ اضافی بوجھ گرانی اور جرائم کے طوفان کی شدت کو مزید تیز کر دے گا اور پہلے سے متزلزل معیشت کی جڑیں مزید ہلاکر رکھ دے گا۔ بڑے اداروں کا کرپشن، حکومتی نااہلی، بدعنوانیوں، اور ناقص پالیسیوں اور کمپنیوں کے کمیشن کک بیکس، اہلکاروں کے  اللّے تللّے خطیر مشاہرات اور مراعات کا بوجھ عام صارفین اور عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

قومی اسمبلی کی سب کمیٹی برائے پٹرولیم، قدرتی وسائل کے اجلاس میں پی ایس اوکی لائنوں سے 40 ارب کی مالیت کے تیل کی چوری کا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر تیل چوری اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی آشیر باد، ملی بھگت یا نظراندازی کے بغیر کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ اتنی بڑی چوری کے باوجود ادارہ خسارے میں ہے نہ کسی کو اس کی فکر ہے۔ اس واقعے سے ان اداروں کے منافعے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آسان فارمولا یہ ہے کہ نرخ بڑھا کر ہر شاہ خرچی پر نقصان عوام الناس کی جیبوں سے نکلوا لیا جائے۔ اوگرا جو ایک ریگولیٹرنگ اتھارٹی ہے ایک مخصوص مافیا کے زیر اثر نظر آتی ہے۔

کرپشن میں ملوث اس کا سابق چیئرمین عدالتی حکم اور ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام درج ہونے کے باوجود ملک سے فرار ہوچکا ہے۔ دہری شہریت چھپانے والے مشیر پٹرولیم و قدرتی وسائل کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے بھی سپریم کورٹ میں درخواست داخل ہوچکی ہے۔ سی این جی اسٹیشنز کی بندش کے خلاف بھی آئینی درخواست ہائیکورٹ میں داخل ہوچکی ہے۔ سی این جی کے موجودہ بحران میں بھی مشیر پٹرولیم کے متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں، کبھی فرماتے ہیں سی این جی صرف پبلک ٹرانسپورٹ اور چھوٹی گاڑیوں کو دینا ہوگی، کبھی کہتے ہیں سی این جی اسٹیشنز بند کردیے جائیں گے، کبھی سی این جی درآمد کرنے کی بات کرتے ہیں، کبھی سی این جی کی قیمتیں برابر سطح پر لاکر بحران کنٹرول کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

موصوف گیس کا شارٹ فال 40% بتاتے ہیں جب کہ سی این جی کا استعمال صرف 9% ہے اگر تمام سی این جی اسٹیشنز بند کردیے جائیں تو بھی 31% شارٹ فال رہے گا، اس کو کون سی جادو کی چھڑی سے پورا کیا جائے گا؟ اس چھڑی کا ان کو خود بھی پتہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاور پروجیکٹس کو گیس کے استعمال کی اجازت دینے سے یہ سنگین بحران شروع ہوا ہے، جنہوں نے فرنس آئل یا کوئلے کی بجائے گیس کا استعمال شروع کردیا۔ دیگر صنعتوں کے علاوہ صرف پاور پروجیکٹس 40% گیس استعمال کر رہے ہیں جو اصل شارٹ فال ہے، فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری لاگت 14 روپے یونٹ بتائی جاتی ہے جب کہ گیس کے ذریعے یہ لاگت 4روپے پڑتی ہے، محض اس بناء پر 9% سی این جی اور چند فیصد گھریلو گیس استعمال کرنے والے صارفین کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔

حالانکہ پاور پروجیکٹس کو جو کثیر منافع کما رہے ہیں معاہدے کے مطابق فرنس آئل کے استعمال کا پابند بنانے کے لیے گیس کے استعمال کی اجازت ختم کردینی چاہیے۔ ملک میں کوئلے کے ذخائر موجود ہیں، درآمد بھی کیا جاسکتا ہے، ماہرین کے مطابق درآمدی کوئلے سے بھی بجلی کی تیاری پر 6 روپے فی یونٹ سے زیادہ کی لاگت نہیں آئے گی۔ بعض حلقوں کا الزام  ہے کہ حکومت ایل پی جی سے بڑے پیمانے پر کمیشن حاصل کرنے کے لیے سی این جی سیکٹر کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

سی این جی کے موجودہ بحران میں حکومت، ارباب اختیار، اوگرا، سی این جی اسٹیشنز مالکان اور ایل پی جی کمپنیاں براہ راست ملوث نظر آتی ہیں۔ سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑتی نظر آتی ہیں۔ اس میں سیاستدانوں، کمیشن مافیا اورصنعتکاروں کا بھی بڑا موثر کردار ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے خلاف بدگمانیاں پید اکرنے کے لیے اس کے فیصلوں کے غلط مفہوم اور تشریح و تعبیر کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے سی این جی کی قیمتوں کو عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے گیس کی قیمت کو پٹرول کی قیمت سے نتھی کرنے کے اقدام کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے قیمتوں کے تعین کے لیے تمام فریقین کی مشاورت کا کہا تھا اور اوگرا کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار اور رپورٹ کے مطابق ہی قیمتوں میں 31 روپے فی کلو گرام کی کمی کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اوگرا سے سی این جی اسٹیشنز کی تعداد، ان میں فنکشنل اور نان فنکشنل اسٹیشنز کی تعداد، اوگرا کو 2002ء سے سی این جی اسٹیشنز کے قیام کے لیے دی جانیوالی درخواستیں ان کی تعداد اور عبوری لائسنس کی منظوری کے علاوہ ایف بی آر سے 3395 سی این جی اسٹیشنز کے ٹیکس ریٹرن اور آڈٹ اکاؤنٹس طلب کر لیے ہیں۔ جو کام حکومتی اداروں اور خود حکومت کو کرنے چاہئیں وہ معاملات مجبوراً عدالتوں میں لائے جارہے ہیں۔ اس عمل کو حکومتی اداروں اور حکومت کی ناکامی کے سوا دوسرا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟

بحران کی اس کیفیت میں گیس و پٹرولیم کمپنیاں، پاور سیکٹر، سی این جی اسٹیشنز، کمیشن مافیا یہاں تک کہ ٹرانسپورٹر بھی پٹرول و ڈیزل کی جگہ گیس استعمال کرکے کرایے کی مد میں خوب آمدنی حاصل کر رہے ہیں ماسوائے کچھ غریب رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیورز کے جو رات بھر بھی گھنٹوں سی این جی اسٹیشنز پر کھڑے رہتے ہیں اور حکومت اور سی این جی مالکان کی پے درپے لوڈشیڈنگ اور ہڑتال سے بیروزگاری اور فاقہ کشی کی نوبت تک پہنچ گئے ہیں۔

یہ جاننا ہر شہری کا حق ہے کہ (1) گیس کا بحران حقیقی ہے یا مصنوعی؟ (2) بحران پیدا کرنے اور طول دینے میں کسی خاص طبقہ، مافیا کی پلاننگ، سازش یا ذاتی و طبقاتی مفادات تو شامل نہیں ہیں؟ (3) سستی گیس کے صنعتکاروں تک محدود کرکے عوام الناس کو اس سہولت سے محروم کرنے کا کیا اخلاقی و قانونی جواز ہے؟ (4) اس فوری نوعیت کے عوامی مسئلے پر عدالتی حکم کے باوجود وزارت پٹرولیم، سی این جی سیکٹر اور اوگرا کے درمیان محاذ آرائی اور ڈیڈلاک کی صورتحال کیوں دیکھنے میں آرہی ہے؟ اور اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟

(5) پہلے سی این جی کو ماحول دوست اور سستا ایندھن قرار دے کر اس کی خوب تشہیر اور ترغیب دی گئی اب اس کے برعکس اسے تمام خرابیوں کا موجب اور مسائل کا واحد حل قرار دے کر کس بنیاد پر ختم کیا جارہا ہے؟ اور اس کی متبادل پالیسی کیا ہوگی؟ اور اس پالیسی کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کی کیا گارنٹی ہے؟ (6) پہلے حکومت نے تشہیر و ترغیب کے ذریعے ہزاروں سی این جی اسٹیشنز میں سرمایہ کاری کروائی، 40 لاکھ کے قریب گاڑیوں کو سی این جی کٹس سے مزین کروایا، سی این جی کٹس اور گیس سلینڈر کے کارخانوں میں سرمایہ لگوایا، اس کاروبار سے بالواسطہ یا بلاواسطہ لاکھوں افراد کا رزق وابستہ کردیا، اب اس کو بند کرکے کھربوں روپوں کے نقصان کی تلافی اور بیروزگاری کے سدباب کے لیے حکومت کے پاس متبادل پالیسی ہے؟

(7) سی این جی کی درآمد یا ایل پی جی کے استعمال سے کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ گاڑیوں کو مطلوبہ ضروریات کے مطابق ایندھن دستیاب ہوجائے گا؟ اس پر کتنا زرمبادلہ خرچ ہوگا؟ لاگت کیا آئے گی؟ جب کہ اس وقت بھی ایل پی جی 45 روپے فی کلو کی قیمت میں فروخت ہورہی ہے؟ (8) کیا پاور پروجیکٹس کو حسب سابق فرنس آئل یا کوئلے پر منتقل کرکے اس بحران کو ختم نہیں کیا جاسکتا؟ (9) مشیر پٹرولیم اس سلسلے میں متضاد بیانات کیوں دے رہے ہیں؟ (10) اس سلسلے میں سیاسی و سماجی جماعتوں کی طرف سے ماسوائے جماعت اسلامی کی آل پارٹیز کانفرنس کے کوئی رد عمل سامنے کیوں نہیں آرہا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔