’ہمارا قومی کھانا‘

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اِسے کھانے کے لئے جیب میں ایک دھیلے کی موجودگی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔


مہوش کنول January 22, 2017
سیاستدان ہوں یا عام عوام، ہر کوئی بلا جھجک اِسے کھا لیتا ہے، کوئی اپنی جان بچانے کے لئے تو کوئی دوسرے کی جان مشکل میں ڈالنے کے لئے۔ فوٹو: ایکسپریس

KARACHI: وہ کونسی ایسی چیز ہے جو ہم جب چاہیں کھا سکتے ہیں؟ بھرے پیٹ کھانے پر بدہضمی بھی نہیں ہوتی اور نہ خالی پیٹ کھانے پر معدہ کو نقصان پہنچتا ہے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ اِسے کھانے کے لئے جیب میں ایک دھیلے کی موجودگی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، جب دل چاہے جتنا دل چاہے کھا جاو، نا کوئی خرچہ نا کسی قسم کا ٹیکس۔

ہاتھ والا انسان بھی کھا سکتا ہے اور بِنا ہاتھ والا بھی۔

حیران نا ہوں، وہ ایک قیمتی چیز ہے 'قسم'۔

ایک وقت تھا جب زردہ و بریانی کو ہمارے ہاں ہر تقریب کی شان اور جان سمجھا جاتا تھا اور اسی حساب سے لوگ اِسے قومی کھانا قرار دینے لگے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا رجحان بھی بدلا اور آج کل قسم کو ہمارے قومی کھانے کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔

سیاستدان ہوں یا عام عوام، ہر کوئی بلا جھجک اِسے کھا لیتا ہے، کوئی اپنی جان بچانے کے لئے تو کوئی دوسرے کی جان مشکل میں ڈالنے کے لئے۔

شاعروں نے بھی قسم پر دل کھول کر طبع آزمائی کی ہے، کچھ چیدہ چیدہ اشعار درج ذیل ہیں، بقول غالب؎
کُھلے گا کس طرح مضمون مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی!!

بقول صبا اکبر آبادی؎
آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم!!

بقول قیصر الجعفری؎
تم آگئے ہو خدا کا ثبوت ہے یہ بھی
قسم خدا کی ابھی میں نے تمھیں سوچا تھا!!

بقول شاعر؎
میں تیرے ناز یوں اُٹھاوں گا
جیسے۔۔ بچے قسم اُٹھاتے ہیں!!

خونِ دل دے کر نبھائیں گے رُخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے!!

آج کل ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہر کوئی چھوٹی چھوٹی بات پر قسم کھا رہا ہوتا ہے، دکاندار اپنا مال بیچنے کے لئے صبح سے شام تک اللہ، رسول اور نا جانے کس کس کی قسمیں کھاتے ہیں۔ قسم کھانے سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا بلکہ الٹا نقصان ہی ہوتا ہے کیونکہ جب ایک انسان بات بات پر قسم کھاتا ہے تو وہ لوگوں میں جھوٹا تصور کیا جانے لگتا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو قسم کو بنیاد بنا کر دوسرے لوگوں کا حق مارتے ہیں۔ اُن میں ہمارے سیاستدان بھی آجاتے ہیں جو قسمیں کھا کھا کر، دعوے کر کر کے اپنی حکومت، اپنی ساکھ بچانے اور دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

لیکن ایک منٹ رکھیے اور سوچیے کہ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ قسم ہوتی کیا ہے؟؟

قسم تو درحقیقت اپنی سچائی کی گواہی ہوتی ہے، پہلے زمانے میں لوگ بہت مجبور ہوکر اللہ کو اپنا گواہ بنا کر اللہ کی قسم کھایا کرتے تھے، لیکن آج کل تو یہ رواج اور ہماری عادت بن گئی ہے کہ ہر چھوٹی سی چھوٹی بات پر نا جانے کس کس کی قسمیں کھانے لگتے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ قسم کھانے کی ضرورت ہی اُسے پڑتی ہے جو جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ یہاں کوئی اپنے جھوٹ کو چھپانے اور وقتی فائدے کے لئے قسم کا سہارا لیتا ہے تو کوئی مزاق میں کسی بھی الٹی سیدھی بات پر قسم کھا رہا ہوتا ہے۔

کوئی ماں باپ کی قسم کھاتا ہے تو کوئی اپنے محبوب کی، کوئی اپنی روزی روٹی کی تو کوئی خود اپنی قسم کھا کر لوگوں کو اپنی شرافت کا یقین دلاتا ہے جبکہ بنی آخرالزماں کا فرمان ہے،

'جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی تو گویا اُس نے شرک کیا''

پھر بھی جانے کیوں ہم لوگ قسم ایسے کھاتے ہیں جیسے باپ دادا کی جائیداد ہو۔ باپ دادا کی جائیداد سے تشبیہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ اُسے کھانے کے لئے بھی کسی قسم کا تردد نہیں کرنا پڑتا بلکہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر جب دل چاہے جتنا چاہے اُس میں سے کھا جاو۔

اگر اپنی ساکھ قائم رکھنی ہے تو جھوٹ بولنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی قسمیں کھانا بھی ترک کر دیجئے، شروعات میں تھوڑی پریشانی ضرور ہوگی لیکن لوگوں کے سامنے کم از کم جھوٹا مشہور ہونے سے بچ جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں

مقبول خبریں