مائنڈ سیٹ 2

روٹی، روزی ہونی چاہیے اور روٹی اور روزی کے حصول کے لیے وسائل ہونے چاہییں اور انصاف ہونا چاہیے


S S Hyder July 29, 2012
ایس ایس حیدر

KARACHI: ہم یہ گفتگو کررہے تھے کہ روس اپنے ایٹمی اثاثوں کے باوجود بکھرگیا اورروسی افواج کو افغانستان خالی کرنا پڑا۔ وجہ۔ یہی کہ روس میں روٹی کے لیے لمبی لائن لگتی تھی اورکچھ لوگ سردی میں اکڑکر مر بھی جاتے تھے تو معلوم ہوا کہ صرف ایٹم بم رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا، روٹی ہونی چاہیے، روزی ہونی چاہیے اور روٹی اور روزی کے حصول کے لیے وسائل ہونے چاہییں اور انصاف ہونا چاہیے ۔

یہی ہمارے دین کا مطلب ہے اور یہی اس کی روح ہے۔ اس میں اس کے بعد اپنے دفاع کی صلاحیت ہونی چاہیے اور اس شعبے میں ایٹم بم بھی آتا ہے۔

اگر پہلا مرحلہ روٹی اور روزی کا طے نہیں ہوتا تو دوسرے مرحلے میں جانے اور اسے طے کرنے کی صلاحیت معاشرے میں دم توڑ دیتی ہے۔ یہ دیکھیے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر اس بات پر رو رہے ہیں کہ فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھوکا مرگیا تو روزِ قیامت ان سے باز پرس ہوگی، تو اب جو ہم تبلیغ کرتے ہیں، اس میں یہ معیار ہمارے سامنے آتا ہے، پھر جب ہم دنیا گزارتے ہیں تو ہمارے سامنے کیا آتا ہے، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔

دوسرا اندازِ فکر یہ ہے کہ امریکا کے بغیر ہمارا وجود قائم نہیں رہ سکتا۔ ہم اس کے سہارے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارے یہاں جو لوٹ مار کی حامل اشرافیہ جو امریکا کی ہواخور ہے، ان میں اکثر امریکی اور غیر ممالک کی شہریت رکھتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ان کی چوہدراہٹ قائم رہے اور غیر ممالک کے عیش و آرام سے بھی لطف اندوز ہوں۔ ان کی اولاد امریکا میں پڑھی بڑھی ہیں اور ان کا اندازِ فکر بھی یہی ہے لیکن وہ ملکی ترقی امریکن انداز سے اور طریقے سے چاہتے ہیں، مگر صرف چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا، وہ کشکول گدائی لیے پھرتے ہیں اور پھر ستم یہ کہ کشکول گدائی میں امریکن جو ڈال دیتا ہے اور جو ہمیں ملتا ہے، وہ بھی بے شرم نوکر شاہی ایوان حکومت کی فضول خرچیوں اور شاہ خرچیوں پر خرچ کردیتی ہے، جس کام کے لیے قرضے لیے جاتے ہیں، وہ رقم کہیں اور غیر پیداواری کام میں خرچ کردی جاتی ہے۔

نتیجتاً ملکی معیشت سکڑتی اور کمزور ہوتی جارہی ہے۔ لاکھوں لوگ بے کار ہوگئے اور انھوں نے لوٹ مار کو اپنا پیشہ بنالیا ہے۔ نتیجے کے طور پر لوگوں کے ذہنوں میں شدید انتقام، انتشار، مایوسی، عدم برداشت اور لڑائی جھگڑے کے انداز آگئے ہیں اور آگے چلیے تو قتل و غارت کا ماحول بن گیا ہے ۔

ظاہر بظاہر یہ انداز فکر حکومتی حلقوں، مراعات یافتہ طبقوں اور فوج میں حاوی ہے۔ اب جب ہماری اشرافیہ اس فکر اور فلسفے کو لے کر آگے چلی ہے تو اس کے نزدیک کاروبارِ حکومت کے حوالے سے یہ تصور راسخ ہے کہ وہ صرف اپنے اور اپنے چند ہزار حلقۂ اثر کے لوگوں یعنی پارلیمان، وزراء، افواج اور سول بیورو کریسی کے افراد کا مفاد اور ان کی سہولت و آسایش کو پیشِ نظر رکھتی ہے۔ انھی کے لیے قانون سازی کرتی ہے، انھی کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات کرتی ہے ، یہی ان کا پاکستان ہے، باقی لوگوں کو جنھیں بھیڑ بکریاں سمجھا جاتا ہے ان کا تو کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔

وہ عوام جو پہلے ہی بہت ٹوٹے اور بکھرے ہوئے ہیں، وہ ان کے خوبصورت بہکاوے میں آتے رہتے ہیں۔ انھیں ووٹ دیتے ہیں اور انجام کار ان کا کچھ بھلا نہیں ہوتا اور وہ اور بھی زیادہ تباہی کے گڑھے میں گرجاتے ہیں اور وہ وہیں کھڑے رہتے ہیں، پڑے رہتے ہیں، جہاں وہ سالہا سال سے پڑے تھے۔ یہی وہ اندازِ فکر ہے اور مائنڈ سیٹ ہے ۔ امریکا ڈومور ڈومور کی گردان شروع کردیتا ہے اور پھر ہم امریکا سے اس کی مزید اجرت مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ اجرت کو زیادہ بڑھانے کا اس لیے بڑا شدید اور گہرا مطالبہ ہوجاتا ہے کہ ہمارا تو اس پر خرچہ چلتا ہے۔

ہماری معاشی نمو، ہماری پیداوار، ہمارے ریونیو دن بہ دن کم اورگراوٹ کا شکار ہورہے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بجلی والے کہتے ہیں کہ تیل والے تیل نہیں دیتے تو ہم بجلی کیسے بنائیں۔ تیل والے کہتے ہیں کہ بجلی والے پیسے نہیں دیتے تو ہم انھیں تیل کیسے دیں۔ آخر ہم بھی تو تیل خریدتے ہیں۔ اس مالی گرداب بلا کا نام ''سرکولر ڈیٹ'' رکھا گیا ہے۔ گویا شوریدہ اور گندے دریا کا یہ بھنور ہے جس میں پاکستان پھنسا ہے۔ ہاتھ پیر ماررہے ہیں، مارتے مارتے تھک گئے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے نکلیں گے۔ اگر بجلی اور ترقی کی کوشش کو ایک کشتی تصور کرلیا جائے تو جو کشتی کے ملاح ہیں، وہ سارے پاکستانی ہی ہیں، باہر کے لوگ نہیں ہیں اور ان کے مقامی ساتھی سب ہی قصائی بنے ہوئے ہیں، سو ان کی بلا سے مشین کا پہیہ چلے یا نہ چلے، مزدور کو روزی ملے یا نہ ملے، بازار میں مال جائے نہ جائے، ملکی معیشت کا پہیہ آگے چلے نہ چلے، انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ حیرانی ہے کہ بجلی، پانی، رسل و رسائل، سفری ذرایع اور دفاع ایسے شعبے ہیں، جنھیں حکومت کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہیے نہ کہ ان شعبوں پر دوسروں کی اجارہ داری ہو۔

امریکا نے کچھ عناصر کو اس نے اس کام پر لگایا ہوا ہے کہ پاکستان میں جتنی افراتفریح کرسکتے ہو کرو، وہ لوگ بھی پیسے لے کر سینہ ٹھونک کر اس ''مقدس'' کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی مثال بلوچستان میں دیکھی جاسکتی ہے، خیبرپختون خواہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ہم انھیں ختم نہیں کرسکتے، یہ کام اس لیے کیا جارہا ہے کہ کمزور پاکستان کی ناک رگڑوانا زیادہ آسان ہے اور اب شاید یہ وقت آگیا ہے۔ امریکا کا طیارہ بردار جہاز ''انٹرپرائز'' گوادر کی بندرگاہ سے زیادہ دور نہیں۔ اب تو الطاف حسین نے بھی کہہ دیا ہے کہ امریکا کے کئی جہاز بحیرہ عرب میں آگئے ہیں، پاکستان کو شدید خطرات ہیں۔

دوسری طاقتیں جو پاکستان سے خوش نہیں ہیں، وہ بھی اس کام میں امریکا کے حواری ہوگئے ہیں اور جو دوسرا زیر ذکر مائنڈ سیٹ ہے، وہ بھی اس کام میں بدرجہ اتم شامل ہے اور ان کو سب معلوم ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس مجوزہ پاکستان کا نقشہ بھی پیش کرچکی ہیں تو منظر یہ ہے کہ دوسرا مائنڈ سیٹ بچّے جمہورے کی طرح تباہی کے کنویں میں اترنے کے لیے تیار ہے اور اپنی شکست کا واضح شعور بھی رکھتا ہے، اس کو اس صورت حال پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ رہ گیا قومی وقار تو جناب اگر قوم ہوتی اور قومی وقار کی اہمیت کو سمجھا جاتا تو بنگلہ دیش وجود میں نہ آتا ۔ قومی وقار کے لیے معاشی استحکام اور خودکفالت لازمی ہے، اس کے بغیر عزت اور وقار کا خیال کرنا محض حماقت ہے۔

المیہ یہ ہے کہ دوسرا اندازِ فکر رکھنے والوں سے بھی امریکا خوش نہیں ہے۔ وہ ہمیں ڈبل کراس اور سازشی کہتا ہے۔ پے درپے جو واقعات ہورہے ہیں،۔ دوسرا مائنڈ سیٹ رکھنے والوں کا یہ خیال ہو کہ ہم تو امریکا کے ازلی بہی خواہ ہیں۔ پہلے ہم ان کے ''کزن'' انگریزوں کے حاشیہ بردار تھے اور اب ہمیں امریکا کی حاشیہ بردار کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں تو ہزار سال سے زیادہ ہوئے، یہ بتادیا گیا ہے کہ یہود اور نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے، یعنی کہ جب کبھی قومی مفاد سامنے آئے گا تو وہ تمہارے لیے کوئی بہتری کی راہ نہیں نکالیں گے بلکہ سراسر تباہی کی طرف لے جائیں گے۔

ہاں انفرادی طور پر اگر تم ان کی زمین پر ہو تو تمہارا بیچ بچائو ہوجائے گا، اس لیے کہ اپنے ملک اور معاشرے میں وہ قانون اور عدل پر بڑی حد تک عمل کرتے ہیں اور وہاں ہر فرد کو حسب توفیق دنیاوی ترقی کے مواقع مہیا کیے جاتے ہیں، مگر افسوس تم پر ہے کہ تم اپنے ملک میں یہ عمل اب تک نہ کرسکے اور اس میں سراسر ناکام رہے تو اب اس کا حشر دیکھتے رہو۔ تو پھر دیکھیے کہ ہمارے علامہ صاحب نے تو ہمیں صاف صاف سمجھا دیا ہے کہ:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

انھوں نے اپنا تجزیہ یہاں بیان کردیا ہے کہ:

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرہنگ

سرمہ ہے میری آنکھ خاک مدینہ و نجف

اب ہم تو بڑی دیر سے میرے مولیٰ بلالو مدینے مجھے کی صدا لگارہے ہیں اور ہمیں بلاوا بھی آتا ہے مگر جب ہم وہاں جاتے ہیں تو ہماری جیب میں اکل حلال کی سوغات نہیں ہوتی تو پھر دل میں تقویٰ نہیں ہوتا، لہٰذا خوفِ خدا نہیں ہوتا تو پھر نور بصیرت ملے تو کیسے۔ لیکن ٹھہریے اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہوئیے۔ نئے راستے پیدا ہورہے ہیں اور صورت حال تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ صورت ہوجائے کہ:

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

مقبول خبریں