شمالی کوریا کے صدر کا سوتیلا بھائی ملائیشیا میں قتل

ویب ڈیسک  بدھ 15 فروری 2017
کم جونگ نام پر 2011 میں ہونے والا ناکام قاتلانہ حملہ بھی ان کے چھوٹے سوتیلے بھائی اور شمالی کوریا کے موجودہ سربراہ نے کروایا تھا۔ (فوٹو: فائل)

کم جونگ نام پر 2011 میں ہونے والا ناکام قاتلانہ حملہ بھی ان کے چھوٹے سوتیلے بھائی اور شمالی کوریا کے موجودہ سربراہ نے کروایا تھا۔ (فوٹو: فائل)

کوالالمپور: شمالی کوریا کے سربراہ ’کم جونگ اُن‘ کے سوتیلے اور بڑے بھائی ’کم جونگ نام‘ کو ملائیشیا کے کوالالمپور ایئرپورٹ پر قتل کردیا گیا۔

ملائیشیائی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جب تک کم جونگ نام کی پوسٹ مارٹم نہ آجائے تب تک وہ ان کی موت کی درست وجہ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن عینی شاہدین اور طبی عملے کا کہنا ہے کہ کم جونگ پر دو نامعلوم لڑکیاں زہریلا اسپرے کرکے فرار ہوگئیں اور ایئرپورٹ پر بنے کلینک لے جاتے ہوئے بھی وہ بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ انہیں زہریلے اسپرے سے شدید تکلیف ہورہی ہے۔ البتہ وہ طبی امداد ملنے سے پہلے ہی ہلاک ہوگئے۔

واضح رہے کہ 46 سالہ کم جونگ نام شمالی کوریا کے موجودہ سربراہ ’کم جونگ اُن‘ کے سب سے بڑے اور سوتیلے بھائی تھے؛ جو اپنے چھوٹے بھائی ’اُن‘ کے عتاب سے بچنے کےلیے پچھلے کئی سال سے شناختیں بدل بدل کر ملک بدری کی زندگی گزار رہے تھے تاہم ان کا زیادہ قیام سنگاپور، ملائیشیا اور سنگاپور میں رہتا تھا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کم جونگ نام، کوالالمپور ایئرپورٹ سے مکاؤ جانے کی تیاری کررہے تھے لیکن امیگریشن کے مرحلے سے پہلے ہی وہ کچھ خریداری کےلیے ایئرپورٹ پر بنے ایک اسٹور میں داخل ہوگئے جہاں دو لڑکیوں نے ان پر زہریلا اسپرے کردیا اور فرار ہوگئیں۔

کم جونگ نام پر 2011 میں بھی ناکام قاتلانہ حملہ ہوچکا تھا جب وہ مکاؤ میں تھے اور اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حملہ ’اُن‘ نے شمالی کوریا کا اقتدار سنبھالتے ہی کروایا تھا۔

واضح رہے کہ کم جونگ اُن کو شمالی کوریا کا سفاک ترین سربراہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے نہ صرف اپنے دشمنوں کو بلکہ اپنے ہر اُس رشتہ دار تک کو بے رحمی سے قتل کروایا ہے جس سے انہیں اپنا اقتدار خطرے میں محسوس ہوا۔ 2011 میں حکومت سنبھالتے ہی ’اُن‘ نے اپنے سگے چچا کو غداری کے الزام میں مقدمہ چلا کر قتل کروادیا تھا کیونکہ ممکنہ طور پر وہ شمالی کوریا کے اقتدار پر قابض ہوسکتے تھے۔ کم جونگ اُن کو عین یہی خطرہ کم جونگ نام سے بھی تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔