اُردو کے نفاذ میں بڑی رُکاوٹ

جبار قریشی  منگل 28 مارچ 2017
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

زبانیں چند ماہر لسانیات یا ادب کے جوشیلے افراد کے ہاتھوں تشکیل نہیں پاتی بلکہ صدیوں کے تاریخی عمل اور سماجی رابطوں کی دین ہوتی ہیں۔ الفاظ تراش خراش کے عمل سے گزرتے ہیں یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک زبان انھیں خاص شکل اور معنی عطا نہیں کرتی ہے۔ یہ عمل صدیوں تک جاری رہتا ہے تب زبان تخلیق ہوتی ہے۔ قومی زبان کا تعلق پوری قوم سے ہوتا ہے جسے عرف عام میں سب کی بولی کہا جاتا ہے۔

اردو ہماری قومی زبان ہے۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہماری افسرشاہی نے یہ اندازہ لگالیا تھا کہ پاکستان کے نظام تعلیم کا ذریعہ تعلیم اگر اردو رکھا گیا تو ایسی صورت میں افسرشاہی کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا افسر شاہی نے اس ملک میں دہرا نظام تعلیم رائج کردیا اوراعلیٰ تعلیم کا ذریعہ تعلیم انگریزی کو قرار دے کر انگریزی کی بالادستی قائم کردی۔ کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا اوراس پر عبور حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ اچھی بات ہے لیکن اسے ذریعہ تعلیم بنانا ایک تباہ کن عمل ہے۔

تمام ماہرین تعلیم اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ کسی غیرملکی زبان میں تعلیم دینا بڑے پیمانے پر طالب علم کی توانائیاں ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نہ صرف طالب علم کی تخلیقی صلاحیت چھین لیتا ہے بلکہ خود تعلیم کے اصل مقصد یعنی فہم اورشعورکے حصول کو بھی ناکام بنادیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں وہی ممالک پسماندہ نظرآئیںگے، جن کا ذریعہ تعلیم کوئی غیرملکی زبان ہوگی۔ ترقی ان ہی ممالک نے کی ہے جن کی اپنی زبان ہی ان کا ذریعہ تعلیم ہے۔

انگریزی ذریعہ تعلیم کے حامی عناصرکا موقف ہے کہ انگریزی جو دنیا میں رابطے کی زبان ہے اس کی جگہ اگر اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا تو ملک بین الاقوامی دنیا سے کٹ جائے گا اور اس کا دنیا سے رابطہ ممکن نہ ہوسکے گا۔ اردو کے نفاذ کے حوالے سے ان عناصر کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اردو شعر و ادب کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اس میں سائنسی، فنی، انتظامی اور دفتری خیالات کے اظہار کی صلاحیت نہیں۔

ان عناصر سے احتراماً عرض ہے کہ انگریزی ذریعہ تعلیم کی مخالفت کا مطلب اس کی اہمیت کو کم کرنا نہیں ہے اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ انگریزی سے قطع تعلق کرلیا جائے۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ انگریزی کو انگریزی کی طرح سیکھا جائے اسے ذریعہ تعلیم نہ بنایا جائے۔ جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زندگی کا ہر دن دنیا میں ہونے والی نت نئی ترقیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے، لہٰذا ہمیں نئے خیالات کے لیے نئے الفاظ اور نئی ایجادات کے لیے نئے ناموں کی ضرورت ہر حال میں پیش آتی ہے یہ مسئلہ ہر زبان کو درپیش ہے، اس لیے اردو کو بھی درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں علم میں اضافہ ہوا اردو کو نئے الفاظ بالخصوص اصطلاحات کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔

اسی حوالے سے اردو میں اب تک اصطلاحات سازی کے حوالے سے کافی کچھ کام کیا گیا لیکن وہ بہت حد تک غیر مربوط اور غیر منظم رہا ہے۔ اس میں بھی اصطلاحات سازی کے اصولوں کی نسبت الفاظ سازی اور ترجمے کے اصولوں کو زیادہ مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس میں بھی اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ الفاظ آسان ہیں یا مشکل۔ اس میں اپنائیت کا احساس ہے یا نہیں یعنی وہ زبان کا حصہ بن سکتے ہیں یا نہیں کسی نے ہندی سے استفادہ پر زور دیا کسی نے عربی اور فارسی پر کوئی انگریزی سے استفادہ کرنے کے حق میں رہا تو کسی نے علاقائی زبانوں سے استفادہ کرنے پر دلیل دی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں اصطلاح سازی کا عمل لفظی ذخیرے تک محدود رہا ہے۔

اس میں خاص طور پر اردو الفاظ وضع کرنے کا رجحان سر فہرست رہا ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہی رجحان فروغ اردو اور نفاذ اردو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سوچیے سائیکل کے لیے پیرگاڑی کے الفاظ کی کوشش کو کیا نام دیا جائے اس طرح کی علمی کوشش نے ہمارے طالب علم کے لیے اردو ذریعہ تعلیم کو نہ صرف مشکل بلکہ بوجھل بنادیا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ آپ کسی ایسی فنی کتاب کا مطالعہ کرلیں جس میں سائنسی اور فنی اصطلاحات کو خالص اردو میں ڈھالا گیا ہو وہ آپ کے ذہن میں اترنے کے بجائے آپ کے فہم سے ہی بالاتر ہوگی۔

اس کے لیے اصطلاحات سازی کے حوالے سے جو ادارے کام کررہے ہیں انھیں چاہیے کہ ایسے تمام بیرونی الفاظ چاہے وہ کسی بھی زبان کا حصہ ہوں اردو کے مزاج کے مطابق ہوں اور آسانی سے جذب ہوسکیں قبول کرلیا جائے۔ بالخصوص سائنس اور فنی اصطلاحات کے لیے الفاظ گڑھنے اور انھیں زبردستی ٹھونسے کی کوشش سے اجتناب کیا جائے۔

ان تجاویز پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ الزام آئے گا کہ ان تجاویز پر عمل پیرا ہونے سے اردو دوغلی زبان ہوجائے گی۔ ان طہارت پسندوں سے احتراماً عرض کروںگا کہ انگریزی میں بہت سے لاطینی، یونانی اور دوسرے غیر ملکی زبانوں کے الفاظ شامل ہوئے لیکن انگریزی کا نام انگریزی ہی رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان کا ڈھانچہ اس کا سب سے محکم حصہ ہوتا ہے۔

تلفظ اور قواعد مقررہ نظام ترتیب دیتے ہیں۔ الفاظ کی زبان میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ زبان میں بھی جان رہتی ہے۔ زبانوں میں بیرونی زبان کے الفاظ کو زبردستی ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ اردو میں اپنے اندر نئے الفاظ اور غیر ملکی زبانوں سے اپنے مزاج کے الفاظ جذب کرلینے کی صلاحیت ہے۔ اس لیے ہمیں ایسی اردو ایجاد کرلینی چاہیے جو جدید سائنسی دور سے ہم آہنگ ہو ایسی اردو کو آسانی سے سرکاری زبان کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ یاد رکھیے اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کے تصور نے ہماری قومی یکجہتی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ انگریزی میڈیم اپنے آپ کو اردو میڈیم کے مقابلے میں زیادہ برتر سمجھتے ہیں جب کہ اردو میڈیم انھیں استحصالی گروہ قرار دیتا ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے میں انگریزی تعلیم کے حصول کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے وہ ذہنی غلامی نہیں ہے بلکہ وہ اس تعلیم کے ذریعے اقلیتی شکنجے کی بالادستی کو توڑنا چاہتا ہے تاکہ اسے بھی خوشحال زندگی نصیب ہوسکے۔ اگر ہم ملک سے اس طبقاتی کشمکش کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔