تھر: عشق کی ہر دَم نئی بہار (چوتھی قسط)

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 27 جنوری 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

ننگرپارکر کے چھوٹے سے اور اکلوتے بازار سے گزرتے ہوئے مجھے بالکل بھی عجیب نہیں لگا۔

چھپّر ہوٹلوں میں چائے پیتے ہوئے تھری، پکوڑے اور سموسے خریدتے ہوئے جوان، پھل فروش اور بھاگتے دوڑتے بچے… سب میری طرف متوجہ تھے۔ ظاہر ہے میں اجنبی تھا، حلیے سے بھی اور لباس سے بھی۔ میں عجوبہ بنا ہوا تھا شاید اس لیے بھی۔ اب میری باری تھی۔ میں نے انہیں مخاطب کیا،’’آپ لوگ کیوں حیران اور پریشان ہورہے ہیں، میں تم میں سے ہی ہوں، آئو گپ شپ کرتے ہیں۔‘‘ ارباب مالک سے ایک نے پوچھا ’’یہ سائیں کون ہے؟‘‘ ’’بس بابا فقیر آدمی ہے۔ مولائی مست، بس گھومتا رہتا ہے، آج یہاں آگیا۔‘‘ دوسرے بوڑھے کی آواز گونجی ’’مجھے پہلے ہی پتا تھا یہ فقیر آدمی ہے، لیکن میں نے پہل اس لیے نہیں کی کہ کہیں میرا اندازہ غلط نہ ہوجائے۔‘‘ اس پر سب کا قہقہہ گونجا۔

بہت اچھے ہیں تھری۔ دوسرے ہی لمحے مجھے یوں لگا جیسے وہ برسوں سے مجھے جانتے ہیں، وہیں چوپال جمی اور دل کی باتیں ہوئیں۔ بہت سے نوجوان بضد تھے کہ سائیں آپ ہمارے ساتھ گائوں چلو۔ ’’ہاں ضرور چلوں گا پر ابھی نہیں، پھر کبھی۔‘‘ اجنبیت کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ پھر باہُو صاحب یاد آگئے۔ سلطان باہُو صاحب۔

دل سے ہے منہ کالا اچھا، کوئی اگر یہ جانے ہُو

منہ کالا دل اچھا جس کا، یار اسے پہچانے ہُو

پھر تو باہُو صاحب نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہاں ، میں کیا کرسکتا تھا!

دل کا درد ہے دل میں میرے، بیان کروں تو گھائل ہُو

حال مرا پھر وہ کیا جانیں، جو دنیا پر مائل ہُو

عشق کا بپھرا ظالم ساگر، ہر دم راہ میں حائل ہُو

نام ترا ہے کافی باہُو، تیرے درد کے سائل ہُو

ایک بڑی عمر کا تھری۔ بہت مضبوط قد کاٹھ کا، ہماری باتیں بہت توجہ سے سن رہا تھا۔ پھر اس سے رہا نہیں گیا۔ وہ ارباب مالک سے مخاطب ہوا ’’سائیں آپ ارباب مالک تو نہیں ہوکہیں۔‘‘

’’ہاں میں ہی ہوں، لیکن تم کون ہو؟‘‘

’’آپ نے مجھے نہیں پہچانا!‘‘

’’نہیں تو۔‘‘

’’آپ سے بیس برس پہلے فلاں جگہ ملاقات ہوئی تھی تب آپ بہت جوان تھے۔‘‘

’’اچھا…‘‘ ارباب مالک کو یاد آگیا تھا۔ میں نے پوچھا،’’بیس سال پہلے کا مالک اور آج کا، بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ اسے کیسے پہچان گئے؟‘‘

وہ مسکرایا اور کہنے لگا، ’’سائیں ارباب صاحب! کی آواز سے میں انہیں پہچان گیا اور اب تو میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ وہ کس کالج میں پڑھتا تھا اور اس کے مشاغل کیا تھے؟‘‘

دیکھا آپ نے، میں نے آپ کو بتایا تھا ناں تھری آپ کو کبھی نہیں بھولتے۔ وہ یاد رکھتے ہیں، ہمیشہ۔ اور ہمارا کیا حال ہے۔ سال دو سال بعد ہم ایک دوسرے کے نام بھول جاتے ہیں۔ اوہو، آپ سے ملاقات ہوئی تھی، آپ کا نام؟ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم میں ان میں بہت فرق ہے، بالکل بجا ارشاد فرمایا۔ ہم اتنے مصروف وہ اتنے فارغ……

اب وہ ہمارا میزبان تھا،’’سائیں! بالکل بھی آپ کہیں نہیں جاسکتے، چلیے اٹھیے سائیں، گھر چلتے ہیں۔ سائیں پہلے پیٹ پُوجا پھر کم دُوجا۔‘‘ اور ہم اُس کے ساتھ اُس کے گھر چل پڑے۔

بازار تھا ہی کتنا بڑا، بیس بائیس دکانیں اور کیا… سب کچھ ختم ہوجاتا ہے، سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ فنا، فنا اور فنا۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔

اچانک میری نظر ایک بورڈ پر ٹھہر گئی ’’آثارِ قدیمہ‘‘ ہاں سب کچھ آثارِ قدیمہ میں بدل جاتا ہے۔ ہم یہ آثار دیکھ رہے ہیں، کوئی ہمارے آثار بھی دیکھنے آئے گا۔ کوئی مفر نہیں۔ کوئی نہیں بھاگ سکتا… کوئی بھی نہیں۔

یہ ایک مندر تھا، دروازہ کھلا ہوا، ہُو کا عالم، بہت بوسیدہ سا۔ میں نے جوتے اتارے اور اندر داخل ہوا۔ دیواروں پر کائی جمی ہوئی، بڑا دالان اور ایک چھوٹا سا کمرہ، اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا، مکمل سکوت۔ کمرے میں داخل ہوئے، کچھ لمحے گزرے تب مجھے کچھ کچھ دکھائی دیا۔ سامنے ایک مورتی، کچھ دیے اور سوکھے ہوئے پھولوں کی پتیاں۔ میں کچھ دیر وہیں کھڑا رہا، اور پھر باہر نکل آیا۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ نے کچھ بھی نہیں کیا تھا اسے محفوظ رکھنے کے لیے۔ بس وہ اپنی ذمے داری ایک بورڈ لگاکر ادا کرچکے تھے:’’آثارِ قدیمہ کا خیال رکھیے‘‘ بس۔ یہ جین مت کا مندر تھا۔ دو ہزار سات سو سال پرانا مندر۔ اسے محفوظ رکھنا چاہیے تھا ناں۔ یہ ذمہ داری تھی محکمۂ آثارِ قدیمہ کی۔ لیکن افسوس باقی اداروں کی طرح اس کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہر عبادت گاہ محفوظ ہونی چاہیے، چاہے کسی مذہب کی ہو۔

’’آپ سائیں اتنی دیر اندر کیا کررہے تھے؟‘‘ ہمارے میزبان نے پوچھا، ’’کچھ نہیں، بس ویسے ہی۔‘‘ ’’اچھا سائیں ٹھیک ہے، کیا نظر آیا آپ کو‘‘، ’’بہت کچھ۔‘‘ ’’ہمارے کو بھی بتائو۔‘‘ ’’ہاں بتائوں گا کبھی۔‘‘

چھوٹے سے گائوں میں داخل ہوتے ہوئے بچے، بوڑھے ہمیں دیکھ کر سلام دعا کررہے تھے کہ ہمارے میزبان کا گھر آگیا۔ گھر کیا تھا چاروں طرف جھاڑیاں، درمیان میں ایک نیم پختہ کمرہ اور ساتھ ہی ایک چونرا۔ دروازے پر چونے سے لکھا ہوا تھا ’’اﷲ والی بستی۔‘‘

’’کیا تمہارا گھر اﷲ والی بستی ہے۔‘‘

’’ہاں سائیں، میں نے یہ نام رکھا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس سائیں، اس لیے کہ اﷲ سائیں سب کا ہے۔ وہ رب العالم ہے، ہم سب مخلوق اور وہ خالق ہے۔ وہ ہر بندے سے محبت کرتا ہے، وہی سب کا سہارا ہے، سائیں۔ میں نے جب یہ گھر بنایا تو میں نے سوچا اس کا نام اﷲ والی بستی ہونا چاہیے، یہ گھر سب کے لیے کھلا ہے، سب کے لیے۔ امن شانتی کا گھر، سب کے لیے حاضر ہے، یہاں کوئی فکر نہیں ہے، کوئی ڈر نہیں ہے۔‘‘

اﷲ والی بستی۔ کتنا خوب صورت نام ہے یہ… میں اس سادے سے تھری کو سن رہا تھا۔ میں سوچنے لگا، یہ ہے اصل تبلیغ، اسے کہتے ہیں مبلغ۔ میرا جی چاہنے لگا اسے اپنے ساتھ لے جائوں، ہر جگہ لوگوں کو جمع کروں اور ان سے کہوں: سنو، اتنی سادہ سی بات ہمیں سمجھ نہیں آرہی، اسے سمجھ آگئی ہے، اسے سنو۔ اتنے بڑے بڑے سیمیناروں میں کھوکھلے لوگوں کا جو خود کو دانشور بھی کہتے ہیں، بھاشن، تقریریں، مقالے اور اتنی آسان سی بات۔ لیکن وہ تو پڑھا لکھا نہیں ہے ناں، اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے، اس لیے اس کی بات ہم کیوں سنیں، کیوں سنیں ہم اس کی بات، آخر کیوں؟ یہاں خواجہ فرد فقیرؔ بہت یاد آئے، خواجہ صاحب 1116 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کی ایک کتاب ’’دریائے معرفت‘‘ بھی ہے۔ کیا خوب کہا ہے خواجہ صاحب نے ؎

س۔ سنائے پند کی باتیں، لوگوں کو سمجھائے

اوروں کو تُو کرے نصیحت، دل میں کھوٹ چھپائے

گدھے پہ جیسے علم لدا ہو، ایسا تیرا حال

فردا! حشر میں پوچھے گا وہ قادر جل جلال

اگر آپ مجھے اجازت دیں۔ میں آپ کی دل آزاری نہیں کررہا۔ بخدا میں سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن ہمیں اپنی کوتاہی، غفلت اور منافقت کا چولا اتار پھینکنا ہوگا۔ تب کہیں کام بنے گا‘ ویسے نہیں۔ اپنے آس پاس دیکھیے، کیا خواجہ فرد فقیر نے غلط کہا ہے ؎

ک۔ کلام خدا کا جانیں، مُلّا اور فقیر

بولیں جھوٹ حرام بھی کھائیں پھر کیا ہو تاثیر

شیخ بنیں اور جی کہلائیں، چلیں یہ اُلٹی چال

فردا! حشر میں پوچھے گا وہ قادر جل جلال

ہم ایک چونرے میں بیٹھ گئے جسے رنگ برنگے کپڑوں سے سجایا گیا تھا اور ہمارا میزبان ہماری خاطر تواضع کے لیے جُٹ گیا۔

اس کی بہت زیادہ بھاگ دوڑ دیکھ کر آخر مجھے کہنا پڑا ’’تم آرام سے کیوں نہیں بیٹھ جاتے۔‘‘

’’سائیں مہمان ہیں آپ، یہاں صحرا میں ہے ہی کیا؟ بس جو کچھ

ہے حاضر کررہا ہوں، میرا تو بس نہیں چل رہا، ورنہ تو میں دنیا کی ہر نعمت سائیں آپ کے لیے حاضر کردیتا۔‘‘

’’بس ہمیں چائے پلائو اور کچھ نہیں۔‘‘

’’نہ، نہ سائیں یہ کیسے ہوسکتا ہے! کھانے کے وقت میں چائے! پہلے کھانا پھر چائے سائیں۔‘‘

وہ اپنی مرغیوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر نڈھال ہوچکا تھا، مگر مرغیاں اس کے ہاتھ آنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ میں بہت دیر تک یہ آنکھ مچولی دیکھتا رہا۔ تب مجھے اپنے بزرگ دوست، جی ہاں اُن کے پاس بیٹھ کر آدمی رونا بھول جاتا ہے۔ نادر و نایاب ہیں وہ۔ کوئی تکلف نہیں برتتے۔ جو ٹھیک سمجھا کہہ دیا۔ ایسے لوگ زمین کا نمک ہیں۔ انتہائی زیرک اور دانا۔ مگر پھوں پھاں نام تک کو بھی نہیں۔ ہر ایک کے لیے چشمِ براہ۔ میں پھر کبھی ان پر لکھوں گا۔

جی ہاں میں اپنے بزرگ دوست جو جوانوں سے زیادہ جوان ہیں، ہاں ہاں میں ملک نواز احمد اعوان ہی کی بات کررہا ہوں، بہت یاد آئے۔ کاش وہ ہمارے ساتھ ہوتے۔ وہ ہمیشہ مجھ سے پنجابی میں بات کرتے ہیں۔ ایک دن میں ان کے پاس پہنچا۔ ’’آپ کب آئے لاہور سے۔‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’یار کل ہی آیا ہوں‘‘۔ ’’کیسا رہا دورہ‘‘۔ ’’کیسا دورہ یار! بس کام تھا، نمٹا کے آگیا۔‘‘ ’’اور سنائیں‘‘… میں نے کہا۔ ’’کیا سنائوں تمہیں۔ میں اپنے ماموں کے گھر تھا۔ ایک دن ممانی نے کہا: جائو جاکر مرغی لائو تاکہ کھانا پکائوں۔

میں مرغی والے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ایک بزرگ پنجرے کے سامنے کھڑے انتہائی انہماک سے مرغیوں کو دیکھ رہے تھے، جب خاصی دیر ہوگئی تب میں نے پوچھا: چاچا جی آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ پہلے تو چاچا جی نے مجھے گھورا اور پھر بولے: مرغیاں دیکھ رہا ہوں، اور اس پنجرے میں ہے ہی کیا جو دیکھوں۔ میں نے پوچھا: یہی تو حیرت ہورہی ہے کہ آخر آپ مرغیوں کا اتنا بغور مطالعہ کیوں فرمارہے ہیں۔ پتا ہے چاچا جی نے کیا کہا، چاچا جی بولے: بیٹا! میں یہ دیکھ رہا ہوں، یہ مرغیاں ایک ہی جگہ کھڑی ہیں۔

نہ ہلنا، نہ جلنا، بس ایک جگہ سر جھکائے کھڑی ہیں، یہ مرغیاں خود ہی نہیں چل سکتیں۔ انہیں کھاکر میں کیا خاک چلوں گا۔ مجھے نہیں خریدنی مرغی، میں تو چلا، تم لے لو۔‘‘ نواز صاحب فارمی مرغیوں کو پلاسٹک کی مرغیاں کہتے ہیں۔ میرے سامنے تھری مرغیوں نے مراتھن ریس کا مظاہرہ شروع کیا ہوا تھا۔ آخر ایک مرغی ہمارے میزبان کے ہتھے چڑھ ہی گئی۔

گائوں کی کھلی آب و ہوا میں پلی بڑھی مرغیاں پکڑنا بھی پہلوانی سے کم نہیں۔ میں نے اسے مرغی پکڑنے پر مبارک باد دی تو وہ ہنس پڑا۔ ’’سائیں کیا کریں، ہاتھ ہی نہیں آرہی تھی۔ ابھی آپ اس کو پکڑ کے رکھنا میں دوسری پکڑتا ہوں۔‘‘ میں نے وہ مرغی بھی چھوڑ دی تو وہ بہت خفا ہوا، ’’سائیں یہ کیا کیا آپ نے‘‘۔ ’’بس تم بیٹھ جائو۔ گپ شپ کرتے ہیں‘‘ لیکن جناب وہ بھی ضد کا پکا تھا، بالکل بھی نہیں مانا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔