تھر: عشق کی ہر دَم نئی بہار (پانچویں قسط)

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 3 فروری 2013
سفید داڑھی، بڑی بڑی مونچھیں، منڈھا ہوا سر۔۔۔۔۔ملاقات ایک یوگی بابا سے۔ فوٹو : فائل

سفید داڑھی، بڑی بڑی مونچھیں، منڈھا ہوا سر۔۔۔۔۔ملاقات ایک یوگی بابا سے۔ فوٹو : فائل

 کھانا کھانے کے بعد میں نے پوچھا، ’’یہ سامنے پہاڑ پر کیا ہے؟‘‘، ’’سائیں بس ابھی آپ کو دکھانے لے کر جائوں گا۔‘‘

گری نائٹ کا خوب صورت پہاڑ۔ ہر طرف سوچ و بچار کا سامان۔ خدائے واحد کی تخلیق کا خوب صورت و دل کش شاہ کار۔ خالقِ کائنات نے فرمایا: ان پہاڑوں کو زمین پر میخیں بناکر گاڑ دیا ہے ہم نے، ورنہ تو زمین کو قرار نہ آتا۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ پُرشکوہ پہاڑ پر بھی جین مت کے دور کے آثار بکھرے پڑے تھے۔ ’’یہ دیکھو سائیں پہاڑ کے دامن میں ایک چوکور کمرہ بنا ہوا تھا، بہت ہی وزنی پتھروں کا کمرہ، زیادہ بڑا نہیں، بس اتنا کہ ایک فرد آسانی سے اندر بیٹھ سکے۔ سائیں آپ بتائیں یہ کیا ہے؟‘‘،’’ہاں مجھے لگتا ہے یہ تنہائی میں گیان دھیان کی جگہ ہے۔ یہاں بیٹھ کر اس وقت کوئی ضرور تخلیقِ کائنات کے اسرار و رموز پر سوچ بچار کرتا ہوگا۔ کبھی خالی نہیں رہی دنیا ایسے لوگوں سے۔ ہمیں بھی تو بارہا کہا ہے ہمارے رب نے: فکر کرو، تدبر کرو، سوچ بچار کرو، عقل سے کام لو‘ کیوں نہیں غور کرتے تم، دیکھو ہم نے غور و فکر کا کتنا سامان پیدا کیا ہے۔‘‘

’’ہاں سائیں واہ واہ سائیں، سولہ آنے صحیح بولا سائیں۔ لیکن ایک بات میرے کو اور بتائو۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’سائیں دیکھو! اتنا بڑا بڑا پتھر، اتنی اونچائی پر پہنچانا اور اتنا خوب صورت کمرہ بنانا۔ اس طرح کے کمرے یہاں بہت سارے ہیں۔ ننگرپارکر میں ان پہاڑوں پر ایسی بہت سی جگہیں ہیں۔ اتنے وزنی پتھر اٹھانا کسی انسان کے بس کی بات بھی نہیں ہے، پھر سائیں دو ہزار سات سو سال پہلے تو کوئی بڑی مشین بھی نہیں تھی۔ پھر یہ آخر بنے کیسے؟‘‘
’’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔‘‘

’’لیکن سائیں میں تو اس بات پر پندرہ بیس سال سے سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’پھر تم کس نتیجے پر پہنچے؟‘‘
’’میں تو سائیں بس یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ علم کے زور پر بنا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘

مطلب یہ ہے کہ علم پڑھا تو یہ سب کچھ بن گیا، اس کے بغیر تو یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے، انسان تو عاجز ہے۔‘‘
مجھے خاموش دیکھ کر وہ بولا،’’کیا سائیں آپ بھی یہی سمجھتے ہیں؟‘‘
اس نے مجھے امتحان میں ڈال دیا تھا اور ارباب مالک دور کھڑا مسکرا رہا تھا۔ لطیف بھائی اب آپ جواب دیں۔
’’دیکھو اس کی اصل حقیقت تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ لیکن ابھی تم کہہ رہے تھے کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے، چلو یہاں سے شروع کرتے ہیں، انسان اشرف المخلوقات ہے…‘‘
’’بالکل سائیں برابر۔‘‘

سادہ دل تھری کا انہماک بڑھتا جارہا تھا۔
’’اب دیکھو یہ بھی ہوسکتا ہے ناں۔ ساری مخلوق انسان کے تابع ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘
’’اب یہ ہوسکتا ہے کہ اُس زمانے میں جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جنّات تھے اور وہ ان سے ہر طرح کے کام لیتے تھے، کسی نے یہ کام جنّات سے کروالیا ہو۔ اس سے زیادہ تو میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘
تھری کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا، پھر وہ مجھ سے لپٹ گیا۔ ’’اڑے سائیں، بالکل بالکل ایسا ہی ہوا ہوگا۔ آج مجھے پتا چلا کہ یہ اسی طرح بنے ہوں گے۔ مجھے تو یہ خیال ہی نہیں آیا تھا۔ سائیں واہ واہ، آپ نے آج میری مشکل حل کردی۔‘‘

وہ بہت دیر تک سردھنتا رہا اور میں سوچتا رہا کہ کتنے شانت ہیں یہ، کتنے سادہ… کوئی حیل و حجت نہیں۔ بس بات سمجھ میں آگئی تو مان لی۔ میں نے تو یہ بات اسے مطمئن کرنے کے لیے کہی تھی، لیکن وہ مجھے علامہ سمجھ بیٹھا تھا۔ پھر تو اس کے سوالات کا طوفان تھا اور میں تنکے کی طرح اس میں بہے چلا جارہا تھا۔ بالآخر اس نے فیصلہ صادر کیا،’’سائیں ارباب اب لطیف سائیں کو میں آپ کے ساتھ نہیں جانے دوں گا۔ بس اب یہ یہیں رہیں گے۔‘‘ ارباب مالک کا قہقہہ فضا میں گونجا،’’بالکل، اسے یہیں پکڑلو، اس سے ہم سب تنگ ہیں۔ اچھا ہے اس جنگل میں رہے یہ… یہ شہر کے قابل بھی نہیں ہے، لیکن اب یہ بات بتائو، اگر شہر کے لوگ اسے لینے یہاں پہنچ گئے پھر تم کیا کروگے؟‘‘

’’کیا کریں گے سائیں، اُن کی منت سماجت کریں گے کہ بابا اﷲ سائیں کو مانو، اس کو ہمیں دو، تم جائو اپنے شہر، اور کیا کریں گے۔ لڑائی جھگڑا تو ہم کرنے سے رہے۔‘‘

میرا بھی بہت جی چاہتا ہے شہر سے دور اس جنگل میں آبسوں… جہاں محبت ہے، پیار ہے، اپنائیت ہے، خلوص ہے، مٹھاس ہے، ہم دردی ہے… یہاں سب کچھ سانجھا ہے… خوشی بھی غم بھی، دکھ بھی درد بھی، بارات بھی جنازہ بھی، سب کچھ سانجھا… کوئی گلہ نہیں، کوئی شکوہ نہیں، کوئی طعنہ نہیں… کتنے محروم ہیں ہم، کتنے سخی ہیں یہ… زندگی ہم پر بار ہوگئی ہے، یا ہم نے بنالی ہے اور یہ… زندگی ان پر رشک کرتی ہے، اترائے پھرتی ہے، مسکرائے جاتی ہے… اس طرح ہر گائوں کے لوگوں نے مجھے کہا: سائیں آپ بس یہیں رہ جائیں، آپ جو کچھ کہیں گے ہم وہی کریں گے، بس سائیں آپ ہماری بات مان لیں۔ سچ بتائوں میرا بہت جی چاہنے لگا ہے کہ ہاں بس اب یہیں رہوں ۔ کیا رکھا ہے اپنی زندگی میں۔ یہیں بسیرا کرلوں ، لیکن……

سدا بہار نہ آئے یہاں اور سدا نہ ایک زمانہ
ہر دم چال نئی البیلی، روز نہ یہ مستانہ
روگ، خوشی، سب وقتی یارو، سدا نہ ایک ترانہ
ہاشمؔ لاکھوں آئے گئے، یہ دنیا مسافر خانہ
یہ تو ہاشم شاہ نے کہا تھا، اور پتا ہے آپ کو عبدی قیصر شاہی نے کیا کہا ہے؎

جس جانب بھی دیکھے گا تُو اسی کا دیکھ نشان
وہی بسا ہے دل میں تیرے، اور نہ کوئی جان
کانچ سے نازک جسم کی خاطر کیوں ہے تُو حیران
عبدی رات بسر کرنی ہے، کیا کٹیا، میدان

اوہو۔ میں تو یہیں پر کھڑا ہوگیا، پر آپ کیوں کھڑے ہیں میرے ساتھ چلیے اب آگے چلتے ہیں۔
’’سائیں آپ تھوڑی تھوڑی دیر میں کہاں چلے جاتے ہیں!‘‘
’’کہیں بھی نہیں، یہیں ہوتا ہوں۔‘‘
’’ سائیں آپ سوچتے بہت ہیں۔ ‘‘

’’ارے نہیں بابا، کیا سوچنا ہے، بس کبھی کبھی کسی منظر میں گم ہوجاتا ہوں اور بس، کچھ دیر کے لیے سایہ ملتا ہے، پھر دھوپ ہی دھوپ… صحرا ہی صحرا۔ اچھا یہ بتائو، یہاں کوئی یوگی ہے۔‘‘
’’ کیوں سائیں؟‘‘
’’ بس ویسے ہی ملنا ہے مجھے اس سے۔‘‘
’’ اچھا، چلو میں آپ کو ایک جگہ لے کر جاتا ہوں۔ وہاں سے پتا کریں گے۔‘‘

تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک اور چونرا آگیا تھا، سادہ سا چونرا۔ وہ مجھے لے کر اندر داخل ہوا۔ اندر پانچ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے میرا تعارف کرایا۔ ایک بڑی عمر کے باباجی اور چار میرے ہم عمر… ’’ہاں سائیں، ان سے پوچھو۔‘‘ میرا میزبان مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’بابا جی یہ بتائیے، یہاں کوئی یوگی ہے؟‘‘
بابا جی نے میری طرف دیکھا اور پھر بولے،’’کیا کرنا ہے تم نے یوگی کا۔‘‘
’’مجھے اس سے ملنا ہے۔‘‘

’’کیوں ملنا ہے تُو نے اس سے۔‘‘
’’بس ویسے ہی ملنا ہے۔‘‘
ویسے ہی کوئی کسی سے نہیں ملتا۔‘‘ بابا جی گویا ہوئے،’’تجھے یوگ کا مطلب بھی معلوم ہے؟‘‘
’’ہاں کچھ کچھ!‘‘
میرے مختصر جواب سے وہ مطمئن نہیں ہوئے، آخر مجھے تفصیل سے گفتگو کرنا پڑی… تھوڑی دیر بعد بابا جی مسکرائے۔ ان کی سفید داڑھی اور بڑی بڑی مونچھیں اور منڈھا ہوا سر۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ پھر اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھ دیا، ’’یہ بتا کب سے یوگا کررہا ہے؟‘‘

’’بابا جی مجھے تو کچھ نہیں آتا۔‘‘
’’اچھا… کچھ نہیں آتا، سچ سچ بتا۔‘‘
اب میری اور بابا جی کی پکی دوستی ہوگئی تھی اور گفتگو جاری تھی۔ وہ سب ہم دونوں کو بغور سن رہے تھے۔ ’’اچھا ایک شرط پر تجھے ملائوں گا۔‘‘
’’وہ کیا بابا جی؟‘‘
’’تجھے بہت دن تک میرے ساتھ رہنا ہوگا۔‘‘

میں نے اُن سے اگلی دفعہ بہت دن تک رہنے کا وعدہ کیا، چائے پی، گپ شپ کی اور رخصت ہونے کی اجازت چاہی۔ وہ سب کچھ دور مجھے چھوڑنے آئے،’’اچھا بابا جی آپ کب بنے تھے یوگی؟‘‘
میرے اچانک سوال سے بابا جی تھوڑی دیر تک پریشان ہوئے، پھر مسکرائے اور بولے ’’اوئے تُو تو بہت گہرا نکلا… تجھے کیسے پتا چل گیا!‘‘
بابا جی جس طرح آپ بیٹھے ہوئے تھے، اس طرح کوئی عام آدمی بیٹھ ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ اگلی دفعہ سیدھا میرے پاس آنا۔ تُو یہ نہ سمجھ میں نے تجھے نہیں پہچانا، چل اب ایشور تیری رکھشا کرے۔‘‘
میں واپس پہنچا تو ارباب مالک مجھے کوس رہا تھا،’’یار کہاں چلے گئے تھے؟‘‘

’’یہیں تھا… مجھے کہاں جانا ہے!‘‘
’’لطیف بھائی! لوگ یہاں آتے ہیں، گھنٹہ بھر رہتے ہیں اور پھر واپسی، آپ جانے کا نام نہیں لیتے۔ کبھی مسجد میں گھس جاتے ہیں، کبھی مندر میں، کبھی پہاڑ پر، کبھی چوپال میں… کیا ڈھونڈتے رہتے ہیں آپ؟ اچھا اب کیا پروگرام ہے۔‘‘
’’بس واپسی۔‘‘

میں نے اپنے میزبان کا شکریہ ادا کیا، ’’سائیں کس بات کا شکریہ، مہربانی تو آپ نے کی۔ آپ آئے، ہمارے پاس رہے۔ بہت اچھا لگا بہت مزہ آیا۔ سائیں اب کب آئیں گے؟‘‘
’’بہت جلد۔ تم دعا کرنا۔‘‘
وہ بہت اداس تھا۔ مجھے وہ ابھی تک اسی جگہ کھڑا نظر آرہا ہے۔
ہم دوبارہ ننگرپارکر پولیس اسٹیشن پہنچے، جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی۔ ’’خیریت سے آگئے آپ‘‘ اشوک بولا،’’ہاں یار ہم کوئی محاذِ جنگ پر تھوڑی گئے تھے۔‘‘ وہ پھر کھانا کھلانے پر بضد تھا۔ مگر ہم نے رخصت چاہی۔ ابھی ہماری گاڑی پولیس اسٹیشن سے نکلی ہی تھی کہ ایک جیپ نے ہمارا راستہ روک لیا۔ ’’اﷲ خیر کرے لطیف بھائی‘‘۔ ارباب مالک کی آواز آئی۔

یہ کون ہمارا رستہ روک کر کھڑا ہوگیا ہے اور تھر میں! یہاں تو سب ایک دوسرے کو راستہ دیتے ہیں، راستہ دکھاتے ہیں، کبھی گم راہ نہیں کرتے۔ یہ بیماریاں تو ہمارے شہروں میں ہیں۔ سب ایک دوسرے کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔ خود بھی نہیں چلتے اور دوسروں کو بھی چلنے نہیں دیتے۔ ایک دوسرے کو گراکر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں ایسا کون آگیا ہے؟ ہے کون آخر؟
اس سے پہلے کہ میں گاڑی سے اترتا، ارباب مالک نے نیچے اتر کر آواز دی، ’’تم کون ہو؟ ہمیں راستہ کیوں نہیں دیتے؟‘‘ لیکن خاموشی تھی۔ میں بھی مالک کے ساتھ آکھڑا ہوا۔ ’’یار! چل کر دیکھ لیتے ہیں کون ہے یہ‘‘۔ آخر جیپ کا دروازہ کھلا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا نوجوان قہقہہ لگاتے ہوئے نیچے اترا،’’ہاں آپ کیا سمجھ رہے تھے مجھے ملے بغیر شہر بھاگ جائیں گے۔‘‘

یہ ہمارا جانو تھا… جان محمد… جو اپنے نام کے ساتھ صحرائی لگاتا ہے۔ وہ واقعی بندۂ صحرائی ہے۔ خوب صورت و خوب سیرت نوجوان۔
ہنستا مسکراتا، قہقہہ لگاتا، پُرخلوص اور ملنسار۔ ’’تم کہاں سے نازل ہوگئے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’لطیف بھائی! کیا بتائوں کہاں سے اور کیسے نازل ہوگیا۔ آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ راستے سے مجھے اپنے ساتھ لائیں گے اور میں حسبِ وعدہ وہاں موجود تھا، لیکن آپ مجھے لیے بغیر ننگر آگئے۔‘‘
’’ہاں تم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہو، ہم اتنے مگن تھے کہ یہ یاد ہی نہیں رہا۔‘‘
’’لیکن مجھے تو یاد تھا ناں، میں کیسے اپنے مہمانوں کو بھول جاتا۔‘‘
’’لیکن پھر تم یہاں تک پہنچے کیسے؟‘‘
’’کیا بتائوں لطیف بھائی! میں صبح اپنے گائوں سے روانہ ہوا، میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ تم مجھے شاہراہ پر چھوڑ دینا۔ ہمارے گائوں سے ننگر جانے والی شاہراہ بارہ کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ جب میں مطلوبہ جگہ پہنچا تو آپ کے آنے میں خاصی دیر تھی۔ میں ایک درخت کے نیچے انتظار کرنے لگا۔ لیکن جب آپ خاصی دیر تک نہیں آئے تو مجھے تشویش ہوئی کہ گاڑی خراب نہ ہوگئی ہو۔ لیکن جب میں بالکل مایوس ہوگیا تب واپس گائوں کے لیے روانہ ہوا۔ خاصا فاصلہ طے کرچکا تھا کہ ہمارے گائوں جانے والی گاڑی آگئی۔ میں اُس میں بیٹھ کر گائوں پہنچا۔ پھر اپنے خالہ زاد بھائی کے گھر گیا، وہاں سے یہ جیپ لی اور ننگر کے لیے روانہ ہوا۔ مجھے معلوم تھا آپ ننگر میں ہی ہوں گے۔ جب پولیس اسٹیشن میں آپ کی گاڑی کھڑی دیکھی تو میں انتظار کرنے لگا۔ میں آپ کو کیسے بھول سکتا تھا، میں صبح سے انتظار کررہا ہوں اور اب شام ہونے والی ہے۔‘‘

میں اُس کی داستان سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہم سے سراسر زیادتی ہوگئی۔ ہم تو اُسے چھوڑ کر آگئے تھے لیکن وہ دُھن کا پکا یہاں پہنچ گیا۔ مجھے سچ سچ بتائیے ہم اس کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ یہی ناں کہ اب میرا کیا قصور! وہ خود ہی مجھے چھوڑ گئے۔ بات ختم ہوگئی۔ ہم اسی طرح کے ہیں۔ وہ کسی اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ کتنی مصیبت جھیل کر وہ یہاں پہنچا تھا۔ میں نے جانو سے معذرت کی۔
’’معذرت کیسی لطیف بھائی؟ جرمانہ عاید کردیا ہے میں نے آپ پر۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘
’’یہی کہ اب آپ میرے ساتھ میرے گائوں چلیں گے اور جتنے دن میں چاہوں گا آپ وہیں رہیں گے۔‘‘
’’لیکن ہمیں تو واپس پہنچنا ہے۔‘‘ میں نے جانو کی منت سماجت شروع کی۔
’’آپ کی کوئی بات نہیں مانوں گا، اپنی گاڑی یہیں کھڑی کریں اور بیٹھیں میری گاڑی میں، شاباش جلدی… دیر ہورہی ہے، ہمیں گائوں پہنچنا بھی ہے۔‘‘ وہ ماننے پر تیار ہی نہ تھا۔ آخر اُس کی ضد کے آگے ہم نے ہار مان ہی لی۔

ہم نے اپنی گاڑی ننگرپارکر سے واپس آتے ہوئے اس کے گائوں جانے والی لنک روڈ پر ایک جگہ کھڑی کی اور اس کی جیپ میں سوار ہوگئے۔ اب ہم اُس کے رحم و کرم پر تھے۔
راستہ پہلے ہی بہت خراب تھا۔ اب تو بارش نے سڑک کا نام و نشان تک مٹا دیا تھا۔ جگہ جگہ پانی کے جوہڑ بن گئے تھے اور ہماری جیپ اس صحرا میں رواں دواں تھی۔ جانو اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہے۔ ’’خیال سے چلائو یار‘‘ جانو کا جان دار قہقہہ فضا میں گونجا، ’’لطیف بھائی بے فکر ہوجائیں میں آنکھیں بند کرکے بھی اپنی منزل پر پہنچ جائوں گا۔‘‘ ہاں بالکل درست کہہ رہا تھا وہ… انسان کو اپنی منزل معلوم ہو تو وہ کتنا پُراعتماد ہوجاتا ہے۔ وہاں شاہ لطیف سائیں نے پھر مشکل آسان کردی۔ شاہ بھٹائی نے کہا ہے:

ظاہری آنکھ سے نہ دیکھ
ان ظاہری آنکھوں سے، محبوب نہیں پہچانا جاتا
اُسے وہی دیکھ سکتا ہے
جو آنکھیں بند کرلے
ہماری جیپ اونچے نیچے ٹیلوں اور جوہڑوں سے اٹے دشوار راستے پر رواں دواں تھی کہ اچانک جانو ایک چھپر ہوٹل کے سامنے جیپ بند کرکے نیچے کود گیا۔ ’’آئیں لطیف بھائی! پہلے یہاں چائے پیتے ہیں، پھر آگے چلتے ہیں۔‘‘

’’نہیں چائے گائوں جاکر پئیں گے۔‘‘
’’آپ نیچے تو اتریں دیکھیں کیا مزے دار چائے ہے۔‘‘
ہم چائے پینے بیٹھے تو وہ غائب ہوگیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اخبار میں کچھ لپیٹ کر لے آیا۔ ’’لیجیے کھائیے۔‘‘
’’یہ کیا ہے جانو؟‘‘

’’یہ یہاں کا مشہور حلوہ ہے۔ میں صبح اسے کہہ کر گیا تھا کہ میرے مہمان آنے والے ہیں حلوہ بنا کر رکھنا۔‘‘
’’یار تم بھی…!‘‘
کیا مزے دار حلوہ تھا۔ آپ یقین کیجیے اتنا مزے دار حلوہ میں نے پہلے کبھی نہیں چکھا۔ ’’واہ جانو واہ… بہت مزے دار ہے۔‘‘
کتنا خیال تھا اُسے ہمارا۔ وہ سارے انتظامات کرکے نکلا تھا۔ چائے پی کر ہم دوبارہ گائوں روانہ ہوئے۔
’’آخر کب آئے گا گائوں؟‘‘

’’بھائی صاحب ابھی تو آدھا راستہ بھی نہیں کٹا۔ لطیف بھائی کوئی تھری کا گیت سنائیں۔‘‘ اس نے فرمائش کردی۔
’’ہاں گائوں چل کر سنائوں گا۔‘‘
’’مائی بھاگی کا بھی۔‘‘
’’ہاں… وہ بھی۔‘‘

تھر کے لوگ موسیقی کے بہت رسیا ہیں۔ بہت زیادہ۔ لیکن ٹھہریے، یہ وہ موسیقی نہیں ہے جو شہر میں پائی جاتی ہے۔ اُسے موسیقی کہنا بھی چاہیے یا نہیں… شور‘ اچھل کود اور چیخ چیخ کر خود کو اور سامعین کو بھی ہلکان کردینا… یہاں اِسے موسیقی کہتے ہیں۔ بالکل ٹھیک ہے۔ اس موضوع پر ہم ضرور بات کریں گے۔ ظاہر ہے یہ کوئی معمولی موضوع نہیں ہے۔ ابھی تو ہم تھر میں ہیں۔ ہاں تو تھر کی موسیقی واقعی کانوں میں رس گھولتی ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔