صرف رواداری اور جمہوریت !!

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 3 فروری 2013

1953میں پاکستان کے اہم ترین شہر لاہور میں فسادات پھوٹ پڑے، فسادات کا یہ عالم تھا کہ لاہور میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا پنجاب کی صوبائی حکومت نے فسادات کی وجہ کی نشاندہی کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا معاملے کی تحقیق کے دوران ہائی کورٹ کے جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی کو پاکستان کے پہلے یوم آزادی کے حوالے سے کی گئی قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کے تفصیلی تجزیے کا موقع نصیب ہوا ۔ ان جج حضرات کی رائے تھی کہ ’’قائداعظم پاکستان کے بانی ہیں اور جس موقعے پر انھوں نے یہ تقریرکی وہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سنگ میل تھا اس تقریر میں وہ نہ صرف اپنے عوام سے مخاطب تھے بلکہ غیر مسلم اور باقی دنیا بھی ان کے پیش نظر تھی ، اس خطا ب کا مقصد اس آئیڈیل کو پوری صراحت کے ساتھ بیان کرنا تھا جس کے حصول کی خاطر اس نئی ریاست کو اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر دینا تھیں۔

قائد اعظم کی تقریر میں ماضی کی تلخیوں کے حوالے سے گذرے وقت کو یکسر نظر انداز کرنے اسے بھلا دینے اور پرانی رنجشوں کو دفن کر دینے کی اپیل تھی اور ریاست کے ہر شہری کو رنگ و نسل اور ذات برادری کی تفریق کے بغیر مساوی حقوق ،مراعات اور ذمے داریوں کی نوید دی گئی تھی اس خطاب میں ایک سے زیادہ بار لفظ قوم استعمال ہوا اور مذہب کو کاروبار مملکت سے الگ اور محض فرد کا ذاتی عقیدہ قرار دیا گیا ۔‘‘ فسادات کی تحقیق و تفتیش کے دوران ٹریبونل نے علماء سے بھی رہنمائی کے لیے رابطہ کیا اور مذہب کا علم رکھنے والے کم و بیش تمام جید علما ء کے بیانات قلمبند کیے۔

ہر عالم کا بیان لینے سے پہلے ججوں نے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر پڑھ کر سنائی اور اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں قلمبند کیا ’’ہم نے علماء سے پوچھا کہ ریاست کا یہ تصور ان کے لیے قابل قبول ہے تو ان میں سے ہر ایک نے بغیر ہچکچاہٹ کے نفی میں جواب دیا اور یہ امر قطعی حیران کن نہیں کہ جج صاحبان کے سامنے جب علما ء کی طرف سے مسلمان کے بارے میں بہت سی مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد تعریفیں سامنے آئیں تو وہ مایوسی کے عالم میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے ’’علماء کی جانب سے مسلمان کی بہت سی تعریفیں سامنے آنے کے بعد بھی کیا اس امر کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی بھی دو عالم اس بنیادی مسئلے پر متفق نہیں ہیں، فاضل علماء کی طرح اگر ہم بھی مسلمان کی تعریف کرنے کی کوشش کریں اور اگر وہ ان کی طرف سے دی گئی تعریف سے مختلف ہو تو ہم بھی متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار پائیں گے اگر ہم ان میں سے ایک عالم کی طرف سے سامنے آنے والی تعریف قبول کر لیتے ہیں تو ہم اس عالم کی نظر میں مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں جب کہ باقی علماء ہمیں فوری طور پر کافر قرار دے ڈالیں گے اس صورت حال سے تو یہ ہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ مختلف مسلک رکھنے والوں میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں کہلاسکے گا ۔‘‘

یہ ان محترم ججوں کے اپنے الفاظ ہیں جو دونوں بعد میں چیف جسٹس بنے ۔ اس رپورٹ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بنیاد پر ستوں کا موقف انتہائی بے لچک تھا لیکن پاکستان کے عوام کی اکثریت ان کے انداز فکر ، سو چ سے لا تعلق اور ریاست کے بارے میں قائداعظم کے نظریات سے متفق رہی ۔ قائد اعظم کے نظریات ایک جدید اور روشن خیال مسلمان کے نظریات تھے ۔ وہ تعصبات اور تنگ نظر سے بالاتر تھے، انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے۔ آزادی کے پہلے 20 سال کے دوران کم و بیش پوری قوم ان ہی نظریات سے منسلک رہی ۔ جنر ل یحییٰ کے مارشل لا میں پہلی بار قائداعظم کے روشن خیال اور تحمل و برداشت پر مبنی نظریات سے ہٹ کر ایک مخصو ص سو چ کے مظہر ’’نظریہ پاکستان ‘‘ کا مسئلہ اٹھایا گیا ۔ جنرل شیرعلی اس نظریے کے علمبردار ٹھہرے ۔ اس نظریے کے حامیوں نے دسمبر1971 کے عام انتخابات میں بری طرح شکست کھائی۔

70 کی دہائی کے اواخر میں مملکت پاکستان ایک بار پھر اپنے بانی قائداعظم کی سوچ اور نظریات سے واضح طور پر دور ہوتی چلی گئی ۔ جنر ل ضیا ء نے ایک سازش کے تحت حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ جنر ل ضیاء نے اپنی حکومت کو قانونی جواز فراہم کر نے کی کوشش میں اسلام کا نام بے دردی کے ساتھ استعمال کیا ۔ اور جب افغانستان میں روسی افواج افغان حکومت کی دعوت پر داخل ہوئیں تو پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی چاندی ہوگئی اورانھیں خوب پھلنے اور پھولنے کا موقع ملا ۔ بیشتر علماء جن کا کردار تخلیق پاکستان میں نہ ہونے کے برابر تھا انھیں پاکستان کے محبان کے درجے پر ترقی دی گئی ۔ نسل و قوم پرستی ، رجعت پر ستی اور فرقہ پسندی کی شدت کو ہوا دی ۔ کلاشنکو ف کلچر کو فرو غ دیا ، ڈرگ کلچر نے منشیات کی عالمی تجارت میں پاکستان کا نام بلند کردیا۔سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل کو انتہائی کمزور کر دیا گیا ۔ انتہا پسندی کا زہر آہستہ آہستہ قوم میں سرایت کر تا چلا گیا۔ انتہاپسند خوف اور نفرت کے ہتھیار کا خو بصورتی کے ساتھ بے دریغ استعمال کرتے چلے گئے اور قوم کو یرغمال بناتے چلے گئے ۔

اس کے بعد جنر ل پرویز مشرف نے بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دیا اور انتہاپسندوں کو خوب استعمال کیا۔ آج پاکستان ایک نہایت اہم موڑ پر کھڑا ہوا ہے ۔ ایک طرف انتہاپسند پاکستانی معاشرے سے ٹکرا رہے ہیں اور اسے اپنا طابع بنانا چاہتے ہیں ، سوائے پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی اکا دکا اتحادی جماعتوں کے بقیہ تمام جماعتیں کسی نہ کسی طرح ملا ئیت اور دہشت گردوں کے زیر اثرآرہی ہیں ، یہ بات سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ خود نوازشریف نے پاکستان میں طالبان سے ملتا جلتا خلافت کا نظام قائم کرنے کی کو شش کی تھی جسے پاکستان کی ایک بہت بڑی آبادی نے کسی صورت میں پسند نہیں کیا، کیونکہ اس کے نتیجے میں ملک میں کشیدگی بڑھتی اور اس کے اثرات سرحدوں سے پار بھی جاسکتے تھے ۔ اس وقت پاکستان کی حالت سیاسی محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ پاکستان کو صرف اور صرف رواداری مفاہمت ، امن اور جمہوریت سے بچایاجاسکتاہے اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو بھی کسی خوفناک تباہی سے دو چار کر سکتا ہے ۔ اور یہ بات سب کو اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔