بُک شیلف

شہباز انور خان / غلام محی الدین  اتوار 16 جولائی 2017
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

برصغیر میں تجدید دین کی تاریخ
(التمہید لتعریف ائمۃ التجدید)
مصنف: مولانا عبیداﷲ سندھی ؒ
صفحات: 752
ناشر: رحیمیہ مطبوعات ، شاہراہ فاطمہ جناح ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب امام انقلاب حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی ؒ کی تصنیف ِ لطیف ہے، جو بنیادی طورپر عربی زبان میں لکھی گئی تھی لیکن کتاب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر علمی ، ادبی اور دینی حلقوں میں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ اس وقیع کتاب کا اردو میں ترجمہ کیاجائے تاکہ عامتہ الناس کو بھی فکر ِ ولی الہی سے آگاہی ہوسکے اور یہ جانکاری بھی ہوسکے کہ ہمارے اکابرین نے دین کی سرفرازی ، اس کی سیاسی ، سماجی اورمعاشی حوالے سے عملی تفسیر کے لیے کس قدر محنت ، جدوجہد اور کدو کاوش کی ۔

عزیمت کی یہ داستان حضرت احمد سرہندی ( مجدد الف ثانی ؒ ) ، شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ ، شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ ،شیخ الحدیث مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، مولانا تاج محمود امروٹی ؒ ، مولانا عبدالقادری رائے پوری ؒ ، مولانا سعید احمد رائے پوری ؒ ایسی عظیم شخصیات سے ہوتی ہوئی مولانا عبدالخالق آزاد رائے پوری تک جاری وساری ہے۔امام انقلاب مولانا عبیداﷲ سندھی ؒ برصغیر پاک وہند کے ان عظیم علمائے باعمل اور مجاہدین میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ اس خطے کے باسیوں کی فوذو فلاح اور ان کی اصلاح ِ کردار وعمل اور تعلیم وتربیت کے لیے وقف کررکھا تھا ۔اپنی پچاسی سالہ زندگی میں امام انقلاب نے جہد ِ مسلسل کی وہ تاریخ رقم کی کہ آج کے دور میں جس کی مثال ملنا محال ہے ۔

آپ کے علمی کارنامے اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو ضبط ِ تحریر میں لانے کے لیے دفتروں کے دفتر درکا ر ہوں گے۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ کے فکر و فلسفہ اورآپ ؒ کے نظریات اور تعلیمات سے اکتساب ِ فیض کرنے کے بعد انہیں پوری طرح عملی شکل دینے میں امام انقلاب نے جو کردار ادا کیا ہے اس سے ایک دنیا واقف و آگاہ ہے۔لیکن ہمار ی نئی نسل کو شائد ہماری ان عظیم ہستیوں کے بارے میں کماحقہ آگاہی حاصل نہیں ہے۔امام انقلاب کی یہ کتاب ’’ التمہید لتعریف ائمۃ التجدید ‘‘ کو اردو کے قالب میں ڈھال کر مولانا مفی عبدالخالق آزاد رائے پوری نے بلاشبہ ایک قومی وملی خدمت انجام دی ہے جس کی جس قدر بھی تحسین کی جائے کم ہے، کہ اس طرح ہمارے اردو دان طبقہ کو جہاں حضرت شاہ ولی اﷲ محد ث دہلوی ؒ کے افکار کو سمجھنے میں یقینی مدد ملے گی، وہاں امام انقلاب کے نظریہ ء حیات، فکر وعمل،انقلابی جدوجہد اور سیرت وکردار سے بھی آگاہی ہوگی۔

یہ کتاب ایک تاریخ ہے جس میں بت کدہء ہند میں اسلام کی آمد 652ء سے لے کر 1922ء تک کے عرصہ کی تاریخ اور اس عرصہ کے دوران علمی ، فکری اور عملی حوالے سے تجدیدی کردار کے حامل رہنماوں کے حالات ِ زندگی اور ان کے انقلابی کام کے بارے میںبڑے احسن انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ کتاب کی تصنیف و تالیف ایک قابل ِ قدر خدمت اور کارنامہ تو ہے ہی لیکن جس محنت شاقہ اور عرق ریزی سے اس کا ترجمہ کیاگیا ہے وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔کتاب میں مترجم کے قلم سے پیش لفظ اور مقدمہ اور بہاول پور اسلامیہ یونیورسٹی کے سابق چیئرمین شعبہ علوم ِ اسلامیہ پروفیسر ڈاکٹر مفتی سعیدالرحمان کا حرفِ تعارف بھی اپنی جگہ لائق مطالعہ ہے جس نے کتاب کو چار چاند لگادیئے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی سیاسی، مذہبی، سماجی، معاشی اور عمرانی حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے اور ملک کی ہر لائبریری میں یہ کتاب موجود ہونی چاہئے۔
٭٭٭
والہانہ
شاعر: باقی احمد پوری
صفحات: 192،قیمت: 500/ روپے
ناشر: زربفت پبلی کیشنز ، اردو بازار ، لاہور

باقی احمد پوری ہمارے غزل گو شعراء میں ایک نمایاں مقام رکھنے والے باوقار شاعر ہیں ۔ان کی شاعری کے اب تک دس مجموعے شائع ہوچکے ہیں، جن میں ’’ باقیات ‘‘، ’’ نقش باقی ‘‘ ، ’’ صدر شک ِ غزالاں ‘‘، ’’ اب شام نہیں ڈھلتی ‘‘، ’’ محبت ہمسفر میری ‘‘ ،اگر آنکھیں چھلک جائیں ‘‘، ’’ اداسی کم نہیں ہوتی ‘‘ ،’’ غزل تم ہو ‘‘ ، ’’ روانی ‘‘،اور’’ ہمارا کیا ہے ‘‘شامل ہیں ۔’’والہانہ ‘‘ ان کا گیارہواں شعری مجموعہ ہے جس میں غزلوں کے علاوہ ’’ تبرک ‘‘ کے طورپر حمد، نعت اور منقبت بھی شامل ہیں۔ کتاب کا عنوان ’’ والہانہ ‘‘ رکھتے ہوئے ان کا کہنا ہے ’’ والہانہ کا لفظ شاعری میں میرے موقف کی بہتر ترجمانی کرتا ہے، شاعری اور بالخصوص غزل کو شاعرانہ ، عاشقانہ اور والہانہ ہونا چاہئے ‘‘۔باقی احمد پوری کی شاعری واقعتاً ان کے والہانہ پن ہی کی آئینہ دار ہے۔

وہ جس سہل انداز سے مشکل اور ادق مضامین کو شعری جامہ پہناتے ہیں وہ کچھ انہی کا حصہ ہے ۔وہ انسانوں کے معاشرتی اور سماجی رویوں کو اپنا موضوع بناتے اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ انہیں بیان کرتے ہیں ۔ان کی شاعری کا مزاج بڑا منفرد اور من موہنا ہے ۔انہیں اردو کے ساتھ پنجابی اور فارسی پر بھی دسترس حاصل ہے اس لیے وہ جہاں کہیں ضرورت محسوس کرتے ہیں ان زبانوں کے الفاظ استعمال کر لیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ شاعری میں اس وقت جس مقام پر ہیں انہیں اس کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں اسی لیے انہوں نے کتاب کا فلیپ لکھوانے یا اپنے بارے میں کسی تعارفی یا تحسینی مضمون کی حاجت محسوس نہیں کی کیونکہ ان کا شمار ان اساتذہ ء فن میں ہوتا ہے جو اس قسم کی بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیتے ۔
٭٭٭
نشاط ِ غم
شاعر: اشرف جاوید ،صفحات: 208
ناشر: پبلشنگ ہاوس ، یونیورسٹی آف مینجمنٹ ، لاہور

اشرف جاوید ہمارے جدید غزل گو شعراء میں ایک نمایاں نام ہے، جنہوں نے کلاسیکی روایات سے خوشہ چینی کرتے ہوئے جدت کا ایسا راستہ اختیار کیا کہ ایک منفرد اسلوب کے حامل بن گئے۔ ان کی شناخت ایک خوبصورت اور صاحب ِ طرز غزل گو کے طورپر ہمارے ادبی حلقوں میں ہے لیکن غزل کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی وہ یکساں مہارت رکھتے ہیں اور بڑی سہولت کے ساتھ نظم کو ذریعہ اظہار کے طورپر اپناتے ہیں ۔

’’ نشاط ِ غم ‘‘ ان کا تازہ مجموعہ کلام ہے جسے نامور مصور ریاظ احمد نے جاذب ِ نظر ٹائٹل سے سجایا ہے ۔اس مجموعے میں ان کی ساٹھ سے زائد غزلیں اور آٹھ نظمیں شامل ہیں، فردیات اور قطعات اس کے علاوہ ہیں۔ اشرف جاوید کی غزلیہ شاعری کو خواجہ محمد ذکریا، حسن عسکری کاظمی اور ڈاکٹر امجد طفیل کے تحسینی کلمات نے اعتبار بخشا ہے ۔اور اس کا ثبوت مجموعے میں شامل ان کی ایک ایک شعری تخلیق سے ملتا ہے ۔ ’’ نشاط ِ غم ‘‘ بلا شبہ ان کی شاعری کا ایسا دلآویز مجموعہ ہے کہ جسے ہر سطح پر پذیرائی حاصل ہوگی ۔اس مجموعے کی اشاعت سے انہوں نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ ان کے ہاںتخلیقی ارتقاء کا عمل جاری ہے وہ کہیں یا کسی ایک جگہ رک نہیں گئے بلکہ مسلسل آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں ، ان کے ہاں ٹھہراو نہیں ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو کسی بھی تخلیق کار کے لیے وجہ افتخار ہوسکتی ہے ۔
٭٭٭
جہنم
مصنف: دانتے
مترجم: مولانا عنائت اﷲ دہلوی
صفحات: 200،قیمت:600 روپے
ناشر: بک ہوم لاہور


دانتے کا شمار دنیا کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے، جن کی آفاقی شاعری نے ایک دنیا کو متاثر کیا۔ اسے بعض نقادوں نے شیکسپئر کے ہم پلہ شاعر بھی قرار دیا ہے۔ 1265ء میں اٹلی کے شہر وینس میں پیدا ہونے والے اس شاعر کی زندگی میں بڑے نشیب وفراز آئے ۔ تاہم اس کی زندگی میں اہم تبدیلی اس وقت آئی جب وہ ابھی صر ف نوسال کا بچہ ہی تھا کہ وہ بیٹرس نامی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوگیا ۔وہ اس عشق میں اس حد تک ’’ ڈوب ‘‘ گیا کہ اسے اس میں ایک پاکیزہ روح محسوس ہوئی جس کے ساتھ ذہنی تعلق اسے تمام گناہوں سے پاک کردینے کی قدرت رکھتا تھا۔اس نے پھر اس کی محبت میں ’’ حیات نو ‘‘ لکھی، لیکن اس کی شہرت کا سبب اس کی کتاب ’’ ڈیوائن کامیڈی ‘‘ قرار پائی جسے بے پایاں مقبولیت حاصل ہوئی۔

کتاب تین طویل ابواب پر مشتمل ہے ۔جہنم، اعراف اور بہشت۔ زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر انور محمود خالد کا ’’ دانتے کی ’’ ڈیوائن کامیڈی ‘‘ کے عنوان سے اور سید انصار ناصری کا ’’ دانتے ‘‘ کے زیر عنوان ایک مبسوط مضمون (بلکہ مقالہ ) بھی شامل ہیں ۔ان مضامین سے دانتے کی طرز حیات اور اس کے فکر و فلسفہ کے بارے میں جاننے میں مدد ملتی ہے ۔اس کتاب کی اشاعت بک ہوم کے اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت دنیاکے بڑے ادب کو اردو زبان کے ذریعے اردو دان طبقے سے متعارف کروانا ہے ۔کتاب کا ترجمہ مولوی عنائت اﷲ دہلوی نے کیا اور اس حوالے سے سید انصار ناصری کاکہنا ہے کہ ’’ یہ اردو کی خوش نصیبی ہے ک یہ فرض آج ایسے ہاتھوں سے پورا ہو رہا ہے جو ہر طرح سے اس رفیع الشان خدمت کے اہل ہیں ‘‘۔کتاب چونتیس بندوں پر مشتمل ہے۔ جس محنت اور عرق ریزی کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے وہ لائق تحسین اور سراہے جانے کے قابل ہے۔
٭٭٭
ماورائے خیر وشر
مصنف: فریڈرک نطشے
مترجم: ریاض محمود انجم
صفحات: 280 ،قیمت: 800 روپے
ناشر: بک ہوم ، لاہور


زیر تبصرہ کتاب معروف جرمن فلسفی فریڈرک نطشے کی عالمی شہرت یافتہ تصنیف Beyond Good & Evil کا اردو ترجمہ ہے ۔جسے ریاض محمود انجم نے انگریزی سے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے ۔کتاب میں اصل نفسِ مضمون اور تحریر کے ساتھ حواشی کی صورت میں کچھ تبصرے بھی شامل کردیے گئے ہیں ۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1886ء میں منظر عام پر آئی لیکن اس وقت اسے پذیرائی نہ مل سکی ۔ تاہم بعد میں جب اطالوی زبان سے انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا تو یورپ میں بھی یہ کتاب موضوع بحث بنی ۔اس کے انگریزی میں دو ترجمے ہوچکے ہیں ۔

پہلی مترجم ہیلن زمرن ایک انگریز مصنفہ تھی دوسرا ترجمہ ماریانہ کووان نے کیا جبکہ موجودہ ترجمہ والٹر کوفمین ہیں ۔جنہوںنے جرمن زبان سے انگریزی میں براہ راست ترجمہ کیا ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ ’’ یہ ان منفرد کتابوںمیں سے ایک کتاب ہے جس میں قاری کا سامنا نہ صرف ایک عظیم مفکر بلکہ جامعیت اور ایمانداری کے حامل ایک حیرت انگیز انسان سے بھی ہوتا ہے۔ کتاب کے نو حصے ( یا باب ) ہیں ۔جن کے عنوانات اس طرح ہیں ْ فلسفیوں کے تعصبات ، آزاد فطرت انسان ،مذہبیت کیا ہے ، نکتہ آفرینیاں اور وقفے ، اخلاقیات کی طبعی تاریخ ، ہم علما ء و فضلاء ، ہماری صلاحیتیں ، لوگ اور اوطان اور اشرافیت کیاہے ۔ ان عنوانات سے بھی کتاب کے موضوع، تھیم ، مصنف کی سوچ ، اس کے دائرہ فکر اور اس کے اسلوب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مغربی ادب کے مطالعہ کے شوقین حضرات کے لیے بالعموم اور فلسفہ ، عمرانیات اور سماجیات کے طلبہ کے لیے بالخصوص اس کتاب کا مطالعہ فائدہ مند ہوگا۔
٭٭٭
فاؤسٹ
مصنف: گوئٹے
صفحات: 216
قیمت: 600 روپے
ناشر: بک ہوم ، لاہور


جرمن سے تعلق رکھنے والا یوحان وولف گانگ گوئٹے عالمی سطح پر ایک ادیب، شاعر، فلسفی اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے شہرت رکھتا ہے ۔وہ سیاستدان ، تھیٹر ڈائریکٹر ،نقاد اور سائنس دان بھی تھا۔ اسے ہومر، شیکسپیئر اور ڈانٹے کے ہم پلہ قراردیا جاتا ہے۔’’فاوسٹ ‘‘اس کی شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے جو طویل نظم پر مشتمل ہے ۔ڈاکٹر انور محمود خالد کے الفاظ میں ’’اس ڈرامائی نظم کا مرکزی کردار ’’ فاوئسٹ ‘‘ ساٹھ برس تک مصنف کے دل ودماغ پر چھایا رہا ۔اس نظم کے دوحصے ہیں، پہلا حصہ گوئٹے کی معجزبیانی اور فکری اڑان کا وج کمال تصور کیاجاتا ہے ‘‘۔

کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ ڈاکٹر سید عابد حسین نے کیا ہے جو سلیس اور رواں ہے ۔ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے جس میں مقدمہ اور گوئٹے کے حالات ِ زندگی اور اس کی تصانیف کے بارے میں بھی تمام معلومات درج ہیں ۔جن کی مدد سے گوئٹے کے نظریات ، فکرو فلسفہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مغربی ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ اسے بک ہوم نے اپنے روائتی معیار کے مطابق خوبصورت سر ورق کے ساتھ شائع کیا ہے، جس کے لیے رانا عبدالرحمان اورایم سرور یقینا ً مبارک باد کے مستحق ہیں۔
والٹیئر کا ’’کاندید‘‘


جس فلسفی کو دنیا والٹیئر کے نام سے جانتی ہے اس کا اصل نام فرانسوا مری اریوٹ تھا۔ فرانس میں شروع ہونے والی روشن خیالی کی تحریک میں والٹیئر کا کردار سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ والٹیئر کی جدوجہد کا محور مذہبی آزادیاں، اظہار رائے کی آزادیاں اور ریاست اور چرچ کی علیحدگی قرار پائے اور اس نے ساری زندگی ان آدرشوں کی ترویج میں صرف کی۔ والٹیئر کا شمار ان مصنفوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی متنوع موضوعات پر قلم اٹھایا۔ والٹیئر کے قلم سے 2000 کتابیں اور پمفلٹ وجود میں آئے۔ اس نے 20 ہزار سے زائد خط تحریر کیے۔ ادب کے میدان میں نظمیں تخلیق کیں، ڈرامے لکھے، ناول اور مضامین تحریر کرنے کے علاوہ تاریخ اور سائنس جیسے موضوعات پر بھی گراں قدر کام کیا۔

زیر نظر ناول ’’کاندید‘‘ 1759ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ ناو ل کا نام ’’کاندید‘‘ دراصل اس کے ہیرو کا نام ہے۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ اس ناول کے لکھے جانے میں کئی تاریخی واقعات نے اہم کردار ادا کیا اور ان سے تحریک پا کر اس ناول کی تخلیق ہوئی۔ ان واقعات میں سات سالہ جنگ اور 1755ء میں لبزبن میں آنے والا زلزلہ سرفہرست ہیں۔ ان دو واقعات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا ذکر اس ناول میں جا بجا ملتا ہے۔ ناول کے ہیرو کاندید اپنے تلخ اور طنزیہ انداز تخاطب سے ممتاز ہے جو کہ خود والٹیئر کی شخصیت کا ایک امتیازی وصف تھا۔ ناول کے بیانیے میں کئی مہمات اور رومانوی وارداتوں کا تمسخر اڑایا گیا ہے۔

جیسا کہ والٹیئر سے توقع کی جاتی تھی اس ناول کا ہیرو اپنی زندگی میں عظیم کامیابیاں بھی حاصل کرتا ہے اور بڑی بدنامیاں اور سکینڈل بھی مول لیتا ہے۔ جیسے ہی یہ کتاب منظرعام پر آئی اس پر توہین مذہب، سیاسی باغیانہ پن اور دانشورانہ جارحیت کے الزامات کے تحت پابندی عائد کر دی گئی۔ آج یہ ناول ادب میں بلند مقام پر فائز ہے اور ان تخلیقات میں شمار ہوتا ہے جنہیں مسلسل پڑھایا جا رہا ہے۔ ممتاز ناقد مارٹن سیمورسمتھ نے اس ناول کو اب تک لکھی جانے والی 100 موثر ترین کتب میں شامل کیا ہے۔

اس کتاب کو اردو میں منتقل کرنے کا کام سید سجاد ظہیر نے انجام دیا ہے اور اشاعت کا اہتمام بُک ہوم لاہور نے کیا ہے۔ کتاب کی اشاعت کا معیار شاندار ہے۔ عالمی ادب سے شغف رکھنے والے خواتین و حضرات کے لیے یہ کتابیں یقینا دلچسپی کا باعث ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔